خاموش سمندر

ملک میں ان دنوں کافی بے چینی اور ہلچل نظر آ رہی ہے، یہ اضطراب کی وجہ مسائل میں گھری ہوئی عوام ہے،مہنگائی ، بے روزگاری ، کرپشن ، بے انصافی جیسے مسائل کی انتہا ہو چکی ہے، لوگوں کو اپنی جان و مال کا کوئی تحفظ نہیں،غریب اور امیر میں تفاوت بہت زیادہ ہو چکا ہے ،زرعی ملک ہونے کے باوجود روٹی دس روپے ہو ،سبزیوں کی قیمت آسمان کو چھو رہی ہو،پہلے لوگ سستی دالوں پر گزارہ کر لیتے تھے لیکن اب غریب کے لئے دال لینا مشکل ہو گیا ہے،گوشت پہنچ سے دور ہو گیا ہو، اسی وجہ سے لوگ ذہنی مریض بن چکے ہیں ، انہیں آگے صرف اندھیرا ہی نظر آتا ہے۔ہر کوئی ڈرا اور سہما ہوا ہے ،اسے مستقبل کا سوچ کر خوف آرہا ہے۔

گزشتہ دنوں وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا کہ’’ میرے علم میں ہے کہ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری ہو رہی ہے ، اس کے تدارک کے لئے ذاتی دلچسپی لے رہا ہوں ‘‘۔اگر بیماری کی تشخیص ہو جائے تو اسے ختم کرنا کوئی مشکل نہیں ہوتا۔اگر میاں صاحب کو معلوم ہے کہ اصل وجہ ذخیرہ اندوزی اور بے جا منافع خوری ہے تو اس کو ختم کرنے کے لئے جس انداز میں یہ کام کر رہے ہیں ویسے تو یہ مسائل حل نہیں ہو ں گے، اگر ہفتے میں دو تین دفعہ چند بازاروں میں جا کر چند روپوں کا جرمانہ کرنے سے یہ منافع خوری ختم ہو تی تو مسئلہ کیا تھا۔اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے موقع پر جا کر فوٹو سیشن کروانے کی بجائے مستقل بنیادوں پر کوئی لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حکومت مسائل حل کرنے کی کوششوں میں لگی ہے، لیکن ان حالات میں انقلابی فیصلوں کی ضرورت ہے ۔ماضی میں تو ہر کسی کو اندازہ تھا کہ کرپشن انتہا کو پہنچ چکی ہے، لیکن کیا اب کرپشن نہیں ہے……؟کوششیں ہو رہی ہیں کہ ملک کے بڑے پروجیکٹس کو پرائیوٹائز کر دیا جائے،کیا ایسا کرنے سے ملک کو فائدہ ہو گا؟ایسا ہونا مشکل ہے، کہا جاتا ہے کہ بینکوں کو پرائیویٹائز کیا گیا تو بہتر نتائج سامنے آئے ، مگر کیا ریلوے میں پرائیویٹ کمپنوں کو ٹھیکے دے کر نہیں دیکھے کہ کیا نتائج سامنے آئے ہیں……؟کس طرح سے کرپشن ہوئی ہے،آج بھی حکومت کو واجبات وصول نہیں ہوئے۔اگر پی آئی اے ، سٹیل مل کو بیچنے کا سوچا جا رہا ہے،تو کیا سمجھتے ہیں ،کہ ایسے ان اداروں کو بہتر طریقے سے چلایا جا سکتا ہے۔یہ منافع بخش ادارے ہیں ،انہیں صرف بہترین اور صاف شفاف مینجمنٹ کی ضرورت ہے ،اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ریلوے کی مثال سامنے ہے،کہ کام کرنے والا وزیر لگایا گیا وہ اسے بہتری کی جانب لا رہا ہے ،حالانکہ کہ اس کی اپنی پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود اسے کوئی خاص مدد نہیں مل رہی۔اگر خواجہ سعد رفیق اس چیلنج میں کامیاب ہو گئے تو حکومت کو ایک مستقل بنیاد پر بڑا منافع حاصل ہوگا۔جس کی امید نظر آ رہی ہے۔ایسے ہی دوسرے اداروں پر کرپشن کو روکنے اور بہتری کے لئے قابل اور ایماندار افسروں کو لایا جائے،میرٹ پر تقریاں کی جائیں،ان کی ہر قسم کی مدد کی جائے تو حکومت کو کیوں نہ ایک بڑا ریونیو حاصل ہو۔اگر اس کی بجائے پرائیویٹائز کر کے مسائل اپنے سر سے اتارنے ہیں تو دوسری بات ہے۔

سابق حکومتوں کی نااہلی کی وجہ سے توانائی کا مسئلہ گھمبیر ہو گیا تھا،موجودہ حکومت کی اچھی سوچ ہے کہ انہوں نے آتے ہی توانائی کے بحران کو سمجھا اور اس پر کام کرنا شروع کر دیا۔نندی پور پاور پراجیکٹ سے ماضی میں ناقابل تلافی نقصان ہوا ہے،موجودہ حکومت جلد اس پراجیکٹ کو مکمل کر نے کی نوید سنا رہی ہے،عزم اور نئی سوچ کے ساتھ اس پروجیکٹ پر کام کیا جا رہا ہے، یورپی ممالک ہمارے ملک میں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کرنا چاہ رہے ہیں،یہ اچھی باتیں ہیں لیکن حکومت کے لئے یہ سوچنا ضروری ہے کہ جب تک خوشحال پاکستان کے منصوبے مکمل ہوں گے اس وقت تک عوام کیا کرے گی ، اس کو ساتھ لئے بغیر صرف منصوبوں کی جانب توجہ دینے سے پچیدگیاں اور مشکلات بڑھیں گی ۔ابھی تو لوگ برداشت کر رہے ہیں مگر کب تک۔اگر عوام بھوکی ننگی ہو گی تو وہ سوچنے سمجھنے سے قاصر ہو گی ،وہ آپ کے ان پروجیکٹس کی افادیت کو نہیں سمجھے گی۔

ملک کو دوسرے مسائل کے ساتھ دہشتگردی اور انتہا پسندی جیسے خطرات سے عرصے سے واسطہ ہے ، بیرون دشمن ممالک ہمارے ہی لوگوں کو کسی وقت ورغلا کر تمام کوششوں کو ملیا میٹ کر سکتے ہیں۔راولپنڈی والا واقعہ اس کی بڑی مثال ہے۔فرقہ واریت کو ہوا دینے کی بھرپور کوشش کی گئی ، کیا اس واقعہ میں بیرونی و اندرونی ملک دشمنوں کا ہاتھ نہیں ……؟کیا عوام ایسا چاہتی ہے……؟یہ سوالات ہیں جن کا جواب ہر کسی کو معلوم ہے،کہ عوام ہر گز ایسا نہیں چاہتی بلکہ اندرونی بیرونی دشمن سازشوں کی پیدا وار ہے۔ ان سازشوں کو مستقل روکنے کے لئے عوام کی بنیادی ضروریات کو ان تک آسانی سے پہچانے کا انتظام کرنا ہو گا،چند ہزار یا لاکھ لوگوں کے لئے منصوبہ بندی کی بجائے 20کروڑ عوام کی بہتری سوچ کر منصوبے بنانے ہونگے،تاکہ یہ اضطراب میں مبتلا لوگ کسی انقلاب کا پیش خیمہ نہ بن جائیں،اگر اس پر غور نہ کیا گیا تو یہ ہو سکتا ہے ،اس کا نظام الاوقات ایک راز ہے ،جو خدا کو ہی معلوم ہے۔

عوام اس وقت بظاہر خاموش سمندر کی طرح ہیں ، لیکن اس سمندر کی تہ سے کوئی سیلاب عنقریب سطحِ آب پر آنے والا ہے۔ملک میں انقلابی تحریکیں ابھی آہستہ رو ہیں لیکن جلد ہی کوئی ہنگامہ برپا ہونے والا ہے ، نیلا آسمان جو اس وقت پُرسکون نظر آ رہا ہے جلد ہی رنگ بدل سکتا ہے،یہ رنگ خوں آشام ہو گا یا نہیں ۔اس کا فیصلہ وقت کرے گا……۔
 

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 19 Articles with 13138 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.