جواب کون دے گا……؟

ہم معاشرتی طور پر بدحال قوم بن چکے ہیں،جب حکمرانوں نے درست راستے سے ہٹنا شروع کر دیا تو عوام نے بھی انہیں کی ڈگر پکڑ کر چلنا شروع کر دیا۔ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم نے زندگی کے بیشتر شعبوں میں ، خواہ سائنس و ٹیکنالوجی ہو یا سیاسی و اقتصادی نظام ،مغرب کی تقلید کو اپنی روش بنائے رکھا ہے۔ موجودہ جمہوری نظام نے ہمیں جس منزل پر پہچا دیا ہے وہ سب پر عیاں ہے ۔ اب ہر اس شخص کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں جس کو ملک و قوم سے ذرا بھی ہمدردی ہے۔ وطن عزیز اپنے قیام کے بعد اب تک سیاسی کشمکش کا شکار رہا ہے۔متعدد مرتبہ حکومتیں برطرف ہوئیں ، اسمبلیاں توڑی گئیں اور مارشل لاء لگے ،آئین توڑا گیا،اس بات کا بین ثبوت ہے کہ موجودہ نظام اصلاح چاہتا ہے ۔

ان جمہوری حکمرانوں نے غنڈہ گردی،لوٹ گھسوٹ ، رشوت خوری ، ہوشربا مہنگائی ،عوامی حقوق کی پامالی، بیروزگاری اور دیگر مسائل نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔لوگ خودکشیاں کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔جمہوریت میں تو عوام طاقت کا سرچشمہ ہوتی ہے مگر یہاں الٹ گنگا بہہ رہی ہے،عوام کی حیثیت کٹھ پتلی کی سی بن کر رہ گئی ہے۔پس پردہ برسر اقتدار طبقہ انہیں جس طرح چاہتا ہے نچاتا ہے۔ملکی اسمبلیاں جو قانون ساز ادارہ ہوتی ہیں بالواسطہ طور پر قانون شکنی کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ملک بھر میں غنڈہ گردی ،خواتین کی عصمت داری ، قتل وغارت اور دیگر جرائم کا تجزیہ کیا جائے تو پتہ چلے گا کہ ایسے بیشتر واقعات کے ذمہ دارافراد کی پشت پناہی کوئی سیاسی یا جاگیرداریا بڑے صنتکار کر رہا ہوتا ہے۔سیاسی اثر و رسوخ اور اختیارات دھونس دھاندلی اور غنڈہ گردی کی صورت اختیار کر گئے ہیں ۔ کیونکہ جمہوری حکومتیں اپنی کرسی بچانے کے لئے ان بڑی شخصیات کی حمایت کی محتاج ہوتی ہیں۔حکومتوں نے انہیں خوش رکھنے کے لئے ان کی دست دازیوں سے چشم پوشی اختیار کئے ہوئے ہیں۔

یہ موجودہ نظام کا ہی کیا دھرا ہے کہ ملک آج تک کسی مستقل اور جامع پالیسی پر گامزن نہ ہونے کی بناء پر ترقی کی منزل سے دور ہے ۔ملک میں جمہوری انتخابات پر خرچ ہونے والی رقم کا تخمینہ اربوں روپے میں چلا جاتا ہے۔اس رقم سے عوامی مفاد کے لے کتنے ہی منصوبے مکمل کئے جا سکتے ہیں۔ان انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت برسر اقتدار آتی ہے وہ بجائے ملک و قوم کا سوچے ،لوٹ کھسوٹ، ملک میں انتشار ، ملکی عدم استحکام اور معاشی و معاشرتی بدامنی کو کم کرنے کے بجائے بڑھاوا ہی دیتی ہے، اس کی مثال ایسے ہے کہ جیسے آگ کے ایک خوفناک الاؤ کو بجھا دیا جائے اور کثیر رقم خرچ کر کے ایک ایسا ہی الاؤ پھر روشن کر دیا جائے ۔

ان حالات میں عوام ذہنی طور پر بری طرح انتشار کا شکار ہو چکے ہیں، عوام پر حکمرانوں کی وجہ سے مختلف بوجھ بڑھنے کا ردِ عمل فطری ہے ۔لاقانونیت ،ناانصافی اور ظلم کی کوکھ سے ہمیشہ ایسے فتنے اور اس ردِ عمل میں ایسی لاقانونتی ہی جنم لیتی ہے ،قانون نافذ کرنے والے جب خود کو قانون اور آئین سے بالاتر سمجھنا شروع کر دیں ،خود ہی انصاف،خود ہی عدالت ، خود ہی منصف اور خود ہی سزا دینا شروع کر دیں تو یہاں وہ المیہ شروع ہو جاتا ہے جس کی زد میں بے گناہ کی پہچان ہی ختم ہو کر رہ جاتی ہے۔
اس بات سے ہر کوئی واقف ہے کہ جہاں انصاف نہیں ہو گا وہاں معاشرہ درست راستے پر نہیں چل سکتا ،لیکن اس قاعدے کو صرف بیانات کی حد تک کہا جاتا ہے۔عملی طور پر ایسا نہیں ہے۔جب ملک کی سب سے طاقتور شخصیت قانون کی بالادستی کے لئے قانون کے سامنے جھک جائے وہاں قانون کی حکمرانی ملک میں قائم ہونے سے کون روک سکتا ہے،مگر بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوا ۔

وزیر اعظم میاں نواز شریف کو یہ موقع ملا تھا کہ عدالت نے انہیں لاپتہ افراد کی بازیابی کے مقدمہ میں وزیر دفاع کے طور پر بلایا ،مگر انہوں نے عدالت میں حاضر نہ ہونے کی وجہ سے اپنے ایک وزیر کو وزیر دفاع کا قلم دان پکڑا دیا ۔خواجہ آصف نے عدالت کو بتایا کہ 738لاپتہ افراد کا پتہ لگا لیا گیا ہے ،جن کو جلد عدالت کے سامنے پیش کیا جائے گا ،یہ خوش خبری تو بتا دی گئی ہے لیکن خواجہ آصف وزیر پانی وبجلی ہیں ، عدالت تک تو وہ وزیر دفاع کے فرائض دے رہے ہیں مگر عدالت سے باہر وہ اپنی ہی وزارت کے کام کریں گے۔کوئی پوچھنے والا نہیں ہے،کہ تین تین وزارتیں وزیر اعظم نے کیوں رکھیں اور اگر رکھیں تو جوابدہی کے لئے دوسروں کو کیوں عدالت میں بھیجا……؟

قومی امور تو ایک طرف رہے عوام عام سے معاملات کو بھی ان سے نہیں پوچھ سکتی،جس ملک میں کسی غریب بیوہ کے بجلی کے بل کا ایک روپیہ معاف نہیں کیا جا سکتا وہاں سینکڑوں مربع اراضی کے مالک سیاستدانوں کو اربوں روپے کے قرضے دے کر کیسے معاف کر دیئے گئے؟اس نظام میں عوام کے ہمدرد بننے والے حکمرانوں کے محلات میں ایک ایک کنال کے باورچی خانے تعمیر ہوتے رہتے ہیں اور غریب کو سر چھپانے کے لئے ڈھائی مرلہ زمین بھی میسر نہیں آتی۔رات کی تاریکی میں گھروں میں پر سکون نیندسوئے ہوئے لوگ ڈاکوؤں کے ہاتھوں کب تک قتل ہوتے اور لٹتے رہے گے……؟غنڈوں کے ہاتھوں پُر امن شہریوں کی عزتیں اور عصمتیں کب تک پامال ہوتی رہیں گی؟ مظلوموں کی داد رسی کون کرے گا؟ ظالموں کے ہاتھ کون کاٹے گا ؟ ملک کا نظام مجرموں کو تحفظ دے رہا ہے۔

عوام صرف وعدوں اور آنے والے وقتوں کی پشین گوئیوں سے تنگ آ چکی ہے،ہر آنے والا حکمران نمبر گیم کر رہا ہے،بیانات سے لوگوں کو خوش کر رہا ہے،اب عملی نتائج بتانے کا وقت ہے……!

Irfan Mustafa Sehrai
About the Author: Irfan Mustafa Sehrai Read More Articles by Irfan Mustafa Sehrai: 19 Articles with 13122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.