فلسفہ شہادت کل اور آج

شہادت حق بہت عظیم اہم اور دینی فریضہ ہے ، جو حضرت آدم سے لے کر رہتی دنیا تک قائم رہے گا ۔ نبوت کا اصل مقصد ہی اس امر کی شہادت دینا تھا کہ اس کائنات میں بسنے والے انسان اور اس کی ہر شے کا مالک و خالق اللہ کی ذات ہے۔ سورہ آل عمران میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے کہ ” یاد کرو اللہ نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ آج میں نے تمھیں کتاب اور حکمت و دانش سے نوازا “ اللہ تعالی نے انبیاءکو اپنے حق میں گواہ ٹھرایا اور انبیاءکے حق میں وہ خود گواہ بنا ، یہ سلسلہ آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ، باب نبوت بند ہو جانے کے بعد یہ فریضہ یہ کہہ کر امت محمدیہ کو منتقل کیا گیا کہ ” اور ہم نے تم مسلمانوں کو ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں پر گواہ رہو اور رسول تم پر گواہ ہو “

شہادت حق کے لیے اللہ کی راہ میں اپنی جان مال قربان کرنا مومن کی معراج ہے ۔ قربانی کے اسی جذبے اور حوصلے کی بناءپر اسے اللہ تعالی کی طرف سے شہید کا درجہ دیا گیا ۔ مردہ کہنے کی ممانعت کی گئی ، ہمیشہ و دائمی زندگی کی نوید دی گئی ۔ باطل کے مقابلے میں حق کا مقدمہ چونکہ انہی شہیدوں کی شہادت پر قائم ہے ۔ اس منزل شہادت پر پہنچنے کی شرائط سورہ توبہ میں ہیںت (Martyrdom)کو ہمیشہ کی زندگی کہا جاتا ہے ۔اب دنیا بھر کے مسلمانوں سے مذہب اور سیاست کو الگ رکھنے کی بات کی جاتی ہے ، انہیں علاقائی ، قومی اور لسانی و مسلکی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا ہے ۔ یہ کہا جاتا ہے کہ عربوں کا افغانوں سے کیا تعلق ، سندھی کا پنجابی سے کیا لینا دینا ، پٹھان اور بلوچی کی مہاجر سے کیا نسبت ، شعیہ سنی کا کیا میل ملاپ وہابی ، دیوبندی غرض اسلام کو سینکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جبکہ اسلام کے اس پار یہ دکھائی دیتا ہے کہ وہ کیوبا کا فیڈرل کاسترو ہو یا روس کا لینن بر طانیہ کا کارل مارکس ہو یا جرمنی کا ہیگل جنوبی امریکہ کا جی گوپرا ، ویت نام کا ہوچی منہ ، افریقہ کا لو ممباوغیرہ وغیرہ یہ سب انسانیت کے نام پر ایک ہیں مگر ہمارے مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ یہاں اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کے درپے غیروں سے زیادہ اپنے ہیں پھر یہ الزام لگا دیا جاتا ہے کہ جناب یہ تو یہود ہنود کی سازش ہے ۔ امریکہ درپردہ لڑا رہا ہے ، کوئی ان نادانوں سے یہ پوچھے کہ تم غیر کی باتوں میں آنے والے کیسے ؟ قلم زبان اور علم تب ہی بہکتا پھسلتا ہے جب وہ شہادت حق کا ساتھ دینے کے بجائے ذاتی وعارضی فائدوں کے لیے شہادت سے منہ موڑ لیتا ہے ۔ اس وقت دنیا میں، دنیا بھر کی معدنیات پر قبضے کی جنگ جاری ہے ۔ دیکھا جائے تو اصل لڑائی صرف ا ورصرف عقیدے اور نظریے کی ہے ۔ نظریے کی بنیاد پر قائم ہونے والے ملک پاکستاں میں جب سے الیکٹرونک میڈیا آزاد ہوا ہے روز نت نئے فتنے سر اٹھاتے ہیں ارتعاش پیدا کرتے ہیں اور اپنی موت آپ مر جاتے ہیں ۔ آج کل بھی جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن کا حکیم اللہ محسود کو شہید قرار دے کر اور امریکہ کی جنگ میں حصہ لینے والے پاکستانی فوجیوں کی شہادت پر سوالیہ نشان کھڑا کرنا وجہ نزع بنا ہو ا ہے ۔ کچھ لوگ سید منور حسن بمقابلہ پاکستان آرمی کو نورا کشتی قرار دے رہے ہیں لیکن ہمارے خٰیال میں یہ نورا کشتی ہو یا منورہ کشتی عزت سادات دونوں فریقوں کی ہی داوءپر لگی ہے ۔

ایک غیر مسلم کے لیے محبت جنگ اور سیاست میں سب کچھ جائز ہو سکتا ہے لیکن ایک کلمہ گو کے لیے محبت ہو یا جنگ ، سیاست وہ اس کے پاس امانت ہے اور امانتیں ضائع نہیں کی جاتیں ۔ سید منور حسن شہادت پر متنازعہ بیان جاری کرنے سے پہلے یہ بھول گئے کہ مسلمانوں کی تو پوری تاریخ فلسفہ شہادت پر قائم ہے شہادت پر جب بھی بات کی جائے گی یہ سلسلہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت عثمان غنی رضی تعالی عنہ ، حضرت علی کرم علیٰ وجہہ سے ہو تا ہوا حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت پر ختم نہیں ہوجا تا ہے ۔ ہماری اسلامی تاریخ میں جنگ جمل ، صفین جیسے المیے بھی ہیں آپ مذکورہ تاریخی واقعات میں سے کس کو شہید اور کس کو ہلاک کہیں گے ؟ لیکن اس کے باوجود تاریخ اسلام کے سب سے بڑے المیے شہادت امام حسین میں مسلمان ہونے کے باوجود یزید راندہ درگاہ ہے ۔ امام حسین علیہ السلام نے بیعت یزید سے انکار کرکے شہادت حق کا فریضہ انجام دیا اگر وہ حق کے لیے کھڑے نہ ہوتے تو سچائی کی آواز ہمیشہ کے لیے خاموش ہو جاتی ۔امام حسین نے بیعت پر موت کو ترجیح دی اور سورہ حشر کی آیات میں بیان کی گئی تمام آزمائشوں سے خندہ پشانی سے گزرے ۔ آج پوری پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف خوف وخطر، فاقہ کشی ، جان ومال کے نقصان اور آمدنیوں کے گھاٹے کا شکار بنی ہوئی ہے ۔ بے شک ڈرون حملے بھی ایک بڑی جارحیت ہیں اگر اس سے بے گناہ معصوم قبائلی بچے ،بوڑھے عورتیں قتل ہو رہے ہیں ( اور ایسا ہو رہا ہے ) تو پھر وہ سب معصوم بے گناہ شہید ہیں لیکن اگر ڈرون حملے کے نتیجے میں حکیم اللہ محسود جیسے دہشت گتد مارے جاتے ہیں تو وہ مسلمان ہوتے ہوئے بھی شہادت کے منصب سے دور ہیں کیونکہ وہ اور ان جیسے دہشت گردوں پاکستانی طالبان ہو ں یا افغانی طالبان ان کے ہاتھ بے گناہ لو گوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں انہوںنے فوجی تنصیبات سمیت عوامی جگہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بناکر اس کی ذمہ داری قبول کی ، طالبان کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے لڑکیوں کے اسکولوں کو نشانہ بنانا ، شعائر اسلام کو ڈنڈے کے زور پر نافذ کرنا ، کا لعدم جہادی تنظیمیں مادی و معاشی طور پر کتنی مستحکم ہیں لیکن دینی و اخلاقی طور پر ان کی مفلسی پر کوئی بات نہیں کرتا ، حق وسچائی کے جواب میں خاموشی کو مصلحت و فائدہ مند سمجھا جا تا ہے ۔

سید منور حسن نے متنازعہ سوال کا متنازعہ جواب دے کر نہ صرف جماعت کی صفوں میں انتشار برپا کر دیا ہے بلکہ انصار عباسی کا یہ کہنا با لکل درست ہے کہ ( کسی بھی حالت میں امیر جماعت اسلامی سید منور حسن جیسے تجربہ کار سیاستدان سے یہ توقع نہ تھی کہ وہ میڈیا کے سامنے اس طرح ڈھیر ہو جائیں گے ) دراصل سید منور حسن کے قریبی رفقاءاور اب تو پوری جماعت پوری قوم یہ جان چکی ہے کہ منور صاحب بہت جلد غصے میں آجانے والی شخصیت ہیں ۔ اس سے قبل بھی وہ کئی مرتبہ میڈیا کے سامنے متنازعہ بیان دے چکے ہیں ، ایک اینکر کو تو انہوں نے خارج از اسلام بھی قرار دے دیا تھا ۔ سید منور حسن صاحب کی امارت پر حالیہ انتخابات کے بعد شوری میں ہونے والے اجلاس میں بھی بڑی تنقید و بحث ہو چکی ہے ۔ انتخابات کے بعد ادارہ نور حق میں کارکنان کے اجتماع میں تو بات ہاتھا پائی تک بھی پہنچ گئی تھی جس کے بعد کراچی کی جماعت میں تبدیلیاں آئیں ، دوسرا اجلاس مسجد قبا میں ہوا تھا جس میں استعفی دیے اور لیے گئے۔حلقہ خواتین میں بھی امیر جماعت کے اس بیان پر تشویش پا ئی جاتی ہے ۔ انتہائی اہم ذریعہ کا کہنا ہے کہ سید منور حسن کو اگلی بار امیر جماعت کے لیے نامزد بھی نہیں کیا جائے گا بلکہ آنیوالی ٹرم کے لیے ا بھی سے سراج الحق کے لیے رائے ہموار کی جا رہی ہے ۔

اکثر رکن جماعت نے سید منور حسن سے بھی استعفی کا مطالبہ کیا ۔ ان کا خیال تھا کہ ان کابرین جماعت نے اپنے فیصلوں سے جماعت کو بہت نقصان پپہنچایا ہے ۔ اور اب پھر سید منور حسن کے متنازعہ بیان نے جماعت کی صفوں میں انتشار پیدا کردیا ہے ۔ ان ہزاروں لاکھوں شہدا کے خا ندا نوں کے لیے سید منور حسن کا یہ بیان کسی ڈرون حملے سے کم نہیں ہے ۔ سید منور حسن یا اس متنازعہ سوال کا خالق سلیم صافی کے نزدیک اس سازش کے کچھ بھی پس پردہ مقاصد رہے ہوں لیکن یہ بات اہم ہے کہ آئی ایس پی آر کے جوابی بیان نے ان شہدا فوجیوں کے خاندانوں میں اطمنان کی لہر دوڑا دی عزم و حو صلے کو سہارا دیا ۔ انصار عباسی کا مشورہ ہے کہ منورحسن فوری طور پر آرمی چیف سے ملیں بند کمرے میں ایک دوسرے سے گلے کریں ) ہمارے خیال میں اب بند کمرے کی سیاست کا وقت گزر چکا ہے جب سید منور حسن نے ببانگ دہل میڈیا کے سامنے پاکستان آرمی کے جوانوں پر انگلی اٹھادی ہے ، ان کے جذبہ شہادت کو متنازعہ بنا دیا ہے تو اب انہیں معافی بھی برسر عام مانگنی ہوگی ، اسلامی جمہوریہ پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی محافظ پاکستانی فوج کے فلسفہ شہادت کو متنازعہ بنانے کا شدید ردعمل سامنے آرہا ہے قبل اس کے کہ ان کی جماعت کے مخلص کارکنان ان کا احتساب کریں وہ آگے بڑھیں اور اپنی غلطی تسلیم کر لیں ۔
Malka Afroze Rohila
About the Author: Malka Afroze Rohila Read More Articles by Malka Afroze Rohila: 11 Articles with 7624 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.