عراق و شام کے بعد اب پاکستان ؟

دہشتگردی کے خلاف نام نہادعالمی جنگ اور سانحہ لال مسجد کی کوکھ سے جنم لینے والی قتل و غارتگری کی آگ کے نتیجے میں ملک میں پیش آنیوالے سانحات کوئی نئی بات نہیں رہے آئے روز درجنوں ہلاکتیں تو گویا ایک ایسی معمول کی بات ہے جن کو اخبارکا قاری آسانی سے ''ہضم ''کرلیتا ہے۔لیکن اس بار یوم عاشور پر راولپنڈی میں شیخ القرآن حضرت غلام اﷲ خان ؒکی قائم کردہ مسجد تعلیم القرآن میں جو کچھ ہوا یہ ملکی تاریخ ایک ایسا واقعہ ہے کہ اگر اس کے مجرموں کو جلد از جلد گرفتارکرکے سخت ترین سزائیں نہ دی گئیں اور آئندہ ایسے ہولناک واقعات سے بچنے کیلئے حکومت نے ہنگامی طورپرتمام مکاتب فکر کے علمائے کرام سے مل کر کوئی موثر اور مربوط حکمت عملی وضع نہ کی تو اندیشہ ہے کہ اس کے بعد جو نقصانات ہوسکتے ہیں اس کے نتیجے میں قوم دہشتگردی کے خلاف نام نہاد اور دراصل امریکی مفادات کی جنگ میں حصہ دار بننے پرہونے والے خسارے کو بھی بھول جائے گی۔حکومت نے اگرچہ اس معاملے کی تحقیقات کیلئے جوڈیشل کمیشن تشکیل دے کر ایک اچھا اقدام کیا ہے اور میاں شہبازشریف و چوہدری نثار علی خاں نے مجرموں کو جلد کیفرکردار تک پہنچانے کے عزم کا اظہار بھی کیا ہے لیکن قوم یہ بھی جانتی ہے کہ اس طرح کے کمیشن عمومی طور پر یا تو عوام کو بہلانے کے کام آتے ہیں اور اگر فرض کریں کہ یہ کسی نتیجے پر پہنچ بھی جائیں تو وہ صرف سفارشات ہی پیش کرسکتے ہیں ان کے پاس کسی کو بھی سزا دینے کا ختیار نہیں ہوتا اورآخر کار بات اربابِ اقتدارکی قوت فیصلہ پر ہی آکر ختم ہوتی ہے جو کہ فی الحال کمزور ہی نظرآرہی ہے اس بڑے سانحے کے بعد حکومت کی جانب سے نظر آنیوالی سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ٹھیک ایسے وقت میں جب قوم اس بات کی توقع کررہی تھی کہ وزیرداخلہ اس سانحے کے حوالے سے حکومتی موقف اور آئندہ ایسے واقعات سے بچنے کیلئے حکومتی کوششوں کا ذکر کریں گے ایسے میں چوہدری نثار علی خاں نے پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6کے نفاذ کی بے وقت کی راگنی چھیڑ دی جس کو بجا طور پر عوام کی توجہ راولپنڈی حادثے سے ہٹانے کی کوشش دیاجاسکتا ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ بیشک پرویز مشرف پاکستان کا قومی مجرم ہے جس نے ملکی سالمیت کے خلاف انتہائی تباہ کن فیصلے کئے جن کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے لیکن اس وقت ضرورت اس بات کی تھی کہ پنڈی حادثے پر قوم کو اعتماد میں لے کر کسی ٹھوس پالیسی کا اعلان کیا جاتا کیوں کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ راولپنڈی کا واقعہ کو محض دہشتگردی کا عام واقعہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا بلکہ اگر اس کی روک تھام نہ کی گئی تو یہ فرقہ واریت کی آگ شام اور عراق کی طرح ہمیں بھی جلاکر بھسم کردے گی اور اس آگ کو جلانے کیلئے جو قوتیں سرگرم عمل ہیں ان سے ہرکوئی واقف ہے لیکن کیا کیجئے کہ امداد و خیرات کی چوسنی ہمارے منہ کو ایسی لگی ہے کہ کافر چھٹنے میں ہی نہیں آرہی اور ہم سب کچھ جاننے کے باوجو د بھی انجان بنے بیٹھے ہیں لیکن اب قوم چپ نہیں رہے گی اور حکومت کو عوام کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سوالوں کا جواب دینا ہوگا جن میں اہم ترین یہ ہیں کہ ذولجناح کا جلوس اگر تو پرامن اور ان میں اسلحہ بردار افراد نہیں تھے تو اچانک یہ افراد کہاں سے نمودار ہوگئے اور انہوں نے اتنی قتل و غارتگری کیسے کردی ؟اور اگر یہ لوگ شروع سے ہی مسلح ہوکر جلوس میں شامل ہوئے تھے تو انتظامیہ کہاں سوئی ہوئی تھی اس نے حکام بالا کو اس کی اطلاع کیوں نہیں دی تاکہ اضافی نفری اور اقدامات کرکے اس المناک حادثے کو روکا جاسکتا دونوں صورتوں میں ضلعی انتظامیہ کی مجرمانہ غفلت اس واقعے کا پیش خیمہ نظرآتی ہے ۔اس اوقعہ کے بعد عوام کے ذہنوں میں میڈیا کے کردار کے متعلق بھی بہت سے سوال پیدا ہوئے ہیں کیوں کہ عوام دیکھ رہی ہے کہ جب کبھی چرچ پر حملہ ہوتا ہے،جب کسی خاص فرقے کے افراد کو بسوں سے اتار کر نشانہ بنایا جاتا ہے یا جب بات سوات کی جعلی وڈیو کی ہوتی ہے تو یہی میڈیا آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان ہی دنیا کا بدامنی کا شکار بدترین ملک ہے جس کی فلاں فلاں کالعدم تنظیم کا اس کے پیچھے ہاتھ ہے لیکن آج اسی میڈیا کونہ تو تعلیم القرآن میں جلتی لاشیں نظرآرہی ہیں اور نہ ہی ان کی تعداد انہیں بتانے کی توفیق ہورہی ہے جو کہ مفتی نعیم صاحب کے مطابق نوے کے قریب ہے چھوٹی چھوٹی باتوں کو شہ سرخیاں بنانے کیلئے بے چین رہنے اور انڈین اداکاراؤں کی برسیوں پر خون کے آنسو بہانے والا میڈیا آخر کیوں اس قومی سانحے کی رپورٹنگ نہیں کررہا ؟ چلیں فرض کریں کہ میڈیا نے اس مسئلے کی حساسیت کو دیکھتے ہوئے اس کو زیادہ ہائی لائیٹ نہیں کیا تو یہاں میڈیا کا کوئی افلاطون یہ بتانے کی زحمت فرمائے گا کہ اس میڈیا نے سوات کی جعلی وڈیو،چرچ پر حملے اور ایسے ہی کئی واقعات کو کیوں ملک کو بدنام کرنے کیلئے استعمال کیا -

؟کیا میڈیا اس وقت غلطی پر تھایا آج مجرمانہ غفلت کا مرتکب ہورہا ہے ؟ اور جب بھی یہ غلطی پر تھا اس کی اس کو سزا کون دے گا ؟ بعض میڈیا چینل تو یہ ظاہرکرتے رہے جیسے یہ کوئی بڑا واقعہ ہی نہ ہو عوام یہ جاننا چاہتی ہے کہ اگر یہ سب جھوٹ ہے اور یہ کوئی بڑا واقعہ نہیں تھا تو حکومت کو راولپنڈی میں کرفیو اور دفعہ144کیوں لگانا پڑی ؟ آخر میں پھر وہی بات کہ اب بھی وقت ہے کہ حکومت سانحہ راولپنڈی کے ذمہ داران کو کڑی سزا دے، شہدا کے وثا اور راجہ بازار کی مارکیٹوں کے متاثرین کو معقول معاوضے دے اس کے بعد تمام مکاتب فکر کے علمائے کرام کیساتھ مل کر ایسی مربوط منصوبہ بندی کرے کہ آئندہ ایسے واقعات نہ ہوں مثلاََ بیہودہ اور قابل اعتراض مواد پر پابندی اور تمام مکتبہ فکر کو اپنی عبادات اپنی مساجد و بارگاہوں کے اندر محدود رکھنے سے یہ مسئلہ کافی حد تک حل ہوسکتا ہے ؟
Qasim Ali
About the Author: Qasim Ali Read More Articles by Qasim Ali: 119 Articles with 90808 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.