بھارت رتن پر گرم ہوتی سیاست

کانگریس اور سچن کے لئے امتحان

اعزاز و اکرام کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ انسانی دنیا کی تاریخ ہے ،یہ الگ بات ہے کہ گردش زمانہ سے کے ساتھ اس کے طریقہ میں بھی تبدیلی آتی رہی ہے ، کسی کو بھی اعزاز واکرام سے نوازنے میں کئی پہلو مدنظر ہوتے ہیں ، جہاں قابل ذکر خدمات انجام دینے والوں کا اعزاز مقصود ہوتا ہے تووہیں دوسروں کو بھی اچھے کام کرنے کی تلقین بھی کی جاتی ہے ، مگراب بدقسمتی سے اعزاز واکرام میں بھی سیاست کسی نہ کسی طرح پیر پسارنے لگی ہے۔ “

عالمی سطح پر قابل ذکر خدمات انجام دینے والوں کو نوبل پرائز سے سرفراز کیا جاتا ہے ، تقریباً اسی طرح دنیا کے تمام ممالک میں ملکی سطح پر قابل فخر کردار اداکرنے والوں کو اعزاز بخشنے کے لئے کوئی نہ کوئی ایوارڈ ہوتا ہے ، بالکل اسی طرح ہندوستان کے متعدد شعبے میں قابل ذکر خدمات انجام دینے والوں کی خدمات کو سلام کرتے ہوئے کئی متعدد اعزازات دئے جاتے ہیں ،ہندوستان کا سب سے بڑا اعزاز ’بھارت رتن ‘ہے ، ہندوستان میں ا س اعزاز کی وہی اہمیت ہے ، جو عالمی سطح پر نوبل پرائز کی ہے ، ہندوستان میں اب تک کوئی43خوش نصیب افراد اس اعزاز سے سرفراز ہوچکے ہیں ، آخر ی جن دو خوش نصیبوں کے لئے اس ایوارڈ کا اعلان ہوا ہے ، وہ ہیں 79 سالہ ڈاکٹر راؤ ہیں، جو فی الحال جواہر لال نہرو سینٹر فار ایڈوانس اکیڈمک ریسرچ کے اعزازی صدر ہیں ، دوسرے شہنشاہ کرکٹ سچن تندولکر ہیں، جنہوں نے ابھی ہی اپنا 200واں ٹیسٹ میچ کھیل کرکر کٹ کو الوداع کہا ہے ۔

بھارت رتن ہندوستان کا سب سے اعلی شہری اعزاز ہے ،یہ فنون ، ادب، سائنس یا عوامی خدمت میں کارہائے نمایاں انجام دینے والے افراد کو دیا جاتا ہے ،ملک کے پہلے صدرجمہوریہ راجندر پرشاد نے اس اعزاز کی شروعات2 جنوری 1954 میں کی تھی، یہ اعزازپہلی دفعہ 1954میں مجاہد آزادی چکراوتی راج گوپال اچاریہ کو ملا ، تمغہ پر پیپل کے درخت کی شکل میں سورج کی تصویر کے ساتھ الفاظ ’بھارت رتن‘ لکھا ہوتاہے،اس اعزاز سے سرفراز کئے جانے والے افراد کے چند نام کچھ اس طرح ہیں ، ڈاکٹر سروپلی رادھا کرشن، ڈاکٹر چندر شیکھر ، ڈاکٹر بھگوان داس،جواہر لال نہرو، ڈاکٹر ذاکر حسین، اب تک صرف چار مسلمانوں ڈاکٹر ذاکر حسین ، خان عبدالغفار خان ، مولانا ابوالکلام آزاد اور اے پی جے عبدالکلام کو یہ اعزاز ملا ہے۔

’بھارت رتن‘کے بعدپدم وبھوشن ہندوستان کا دوسرا بڑا شہری اعزاز ہے ،جو وطن کے لئے غیرفوجی میدانوں میں انمول خدمات کے لئے دیا جاتا ہے۔ 2 جنوری 1954 میں اس اعزاز کا آغاز ہوا۔ یہ اعزاز صدر جمہوریہ ہند کے ذریعہ عطا کیا جاتا ہے۔پدم و بھوشن کے بعدپدم بھوشن تیسرا بڑا شہری اعزاز ہے۔ 2 جنوری 1954کو صدر جمہوریہ ہند نے پدم بھوشن کی شروعات کی۔ دیگر میدانوں میں امتیازی کارکردگی دکھانے والوں کو یہ اعزاز دیا جاتا ہے۔ جنوری 2010 تک کل 1111 افراد کواس اعزاز سے نوازاگیا۔

ہندوستان کا سب سے بڑا چوتھا اعزاز پدم شری ہے ، جو فن ، تعلیم، ادب ، سائنس ،کھیل کود ، خدماتِ عامہ وغیرہ میں بہترین کارکردگی دکھانے والے ہندوستانی شہریوں کو حکومت کی طرف سے عطاکیا جاتا ہے ۔ 2012 تک یہ اعزاز 2497 افراد کو عطا کیا گیا ہے۔

چنتا منی ناگیش رام چندر راؤ جنہیں سی این آر راؤ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،نے کیمسٹری کے شعبہ میں بنیادی طور پر کام کیا ہے، موجودہ دورمیں وہ وزیر اعظم کے سائنسی مشیر کونسل کے سربراہ کے طور پربھی خدمات انجام دے رہے ہیں، ڈاکٹر راؤ کو دنیا بھر کی60 یونیورسٹیوں نے اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری سے سرفراز کیا ہے، انہوں نے تقریبا 1500 تحقیقی مقالے اور 45 سائنسی کتابیں لکھی ہیں۔16 نومبر 2013 کو حکومت نے انہیں بھارت رتن سے نوازنے کا فیصلہ کیا ، سی وی رمن اور اے پی جی عبدالکلام کے بعد یہ ایوارڈ پانے والے وہ تیسرے سائنس داں ہیں، انہیں ملکی اورغیر ملکی دیگر بڑے اعزاز سے سرفراز کیا جاچکا ہے ، جہاں تک سچن تندولکر کا تعلق ہے تو انہوں نے کوئی 664انٹر نیشنل میچوں کے 34ہزارسے زائد رن بناکر ہندوستان کا نام روشن کیا ہے ، ان کے نام کئی عالمی ریکارڈ ہیں ، مثلا 100سنچریا ں اور سب سے زیادہ رن ۔ان دونوں کو 26جنوری 2014میں اس اعزاز سے سرفراز کیا جائے گا ۔
اس میں شک نہیں کہ سچن تندولکر کرکٹ کے بادشاہ ہیں ، انہوں نے اپنی کرکٹ پاری میں جو تاریخ رقم کرلی ہے ،و ہ شاید ہی کسی کھلاڑی کو نصیب ہو ، اس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں ، اولاً ، سچن تندولکر نے تقریبا 664میچز کھیلے ، اب یہ ممکن نہیں لگتا ہے کہ کسی کھلاڑی کو اتنے میچز کھیلنے کا موقع ملے ، ایک تو اتنے لمبے عرصہ تک اپنے کو کرکٹ کیلئے فٹ رکھنا ہی کسی بھی کھلاڑی کے لئے مشکل ہے ، دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ جس زمانے میں سچن نے کرکٹ کھیلنا شروع کیا تھا ، اس زمانہ میں عام خیال یہ تھا کہ ’پڑھوگے لکھوگے تو ہوگو نواب،کھیلو گے کودوگے ہوگے خراب ‘مگر کھیل کے تعلق سے یہ نظریہ اب بدل گیا ہے ،کھیلوں پر ملنے والے اعزاز اور شہر ت کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ’کھیلوگے کودوگے ہوگے نواب ، پڑھو گے لکھوگے ہوگے خراب‘، جب عام طور سے لوگوں کا یہ نظریہ ہوگیا ہے تو کھیل کی طرف نوجوان نسل کی توجہ بڑھی ، ہر نوجوان کی خواہش یہی ہوتی ہے کہ وہ کرکٹ میں اپنا نام پیدا کرے ، اس طرح اچھے اچھے کھلاڑی ابھر کر سامنے آرہے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ سامنے آتا ہے کہ کوئی بھی کھلاڑی بھی آوٹ آف فارم ہوتوفوراً ٹیم سے باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے ، کیوں کہ متبادل کے طور پر بہت سے اچھے کھلاڑی موجود ہوتے ہیں ، اس لئے شاید یہ ناممکن ہو کہ سچن جتنا کوئی رن بناکر کرکٹ کی تاریخ میں سچن کو پیچھے چھوڑد ے ، چنانچہ سچن تندولکر کو بھارت رتن دیاجانا مناسب ہے ، مگر کئی ایک سوالات ہوتے ہیں ،اول کیا کھیل میں قابل فخر کردار اداکرنے والوں کو یہ ایوارڈ دیا جاسکتا ہے ؟سچن کے نام بھارت رتن کے اعلان سے قبل بھی یہ ہنگامہ ہوا تھا کہ کرکٹ کے میدان میں قابل ذکر خدمات انجام دینے کے باوجود بھی بھارت رتن نہیں دیا جاسکتا ہے ، اب جب کہ پی ایم او سے جاری بیان میں واضح کردیاگیا ہے کہ سچن تندولکر کو یہ ایوارڈ 26جنوری 2014کو دیا جائے گا تو شاید کانگریس بھار ت رتن دئے جانے کے تعلق سے ضوابط میں ترمیم کرے ، یہ بھی کوئی بعید نہیں کہ آئندہ سرمائی اجلاس میں یہ معاملہ اپوزیشن پارٹیاں زور وشور سے اٹھائے ۔

سچن کے اعلان نام بھارت کے اعلان بعد ہی سیاسی ٹولیوں میں کسی نہ کسی حدتک چہ میگوئیاں شروع ہوگئی ہے کہ آخر سچن تندولکر کو بھارت رتن دیا جاسکتا ہے تو حکومت نے ہاکی کے جادوگر دھیان چند کو کیوں نظر کردیا ہے ، خود اپوزیشن پارٹی بی جے پی نے دھیان چند اور اٹل بہاری واجپئی کو بھارت رتن نہ دینے کا شکوہ کرتے ہوئے کانگریس پر حملہ کیا اور کہا کہ وہ بھارت کے رتن کے تعلق سے نہروازم تک محدود ہے ، واقعی دھیان چند ایک ایسے کھلاڑی ہے ہیں، جن کے یوم پیدائش 29اگست کو ہندوستان میں ’’قومی کھیل دن‘‘منایا جاتا ہے ، دھیان چند تین بار اولمپک کے طلائی تمغہ جیتنے والی ہندوستانی ٹیم کے رکن رہے ہیں ، ان کی کپتانی میں ہندوستان نے جو تاریخ رقم کی ہے ، وہ سنہری حروف میں لکھا جاتا ہے ، جن کی یہ اہمیت ہو انہیں بھارت رتن سے محروم رکھنا کہا ں کی عقلمندی ہے ، یہی وجہ ہے کہ اب بہت سے لوگوں نے صاف لفظوں میں کانگریس پر وار کیا ہے کہ آخروہ کھلاڑیوں کی آڑ میں سیاست کیوں کررہی ہے ؟بھارت رتن پر جاری سیاست میں اس وقت دلکشی پیدا ہوگئی ، جب کانگریسی لیڈر پلم راجو اور فاروق عبداﷲ نے بھی اٹل بہاری واجپئی کو بھارت دئے جانے کا مطالبہ کردیا ہے ، اسی طرح جنتادل یو کے لیڈر شیوانند تیواری نے تو صاف لفظوں میں سچن کو بھارت رتن دئے جانے کی مخالفت کی ہے ، ان کا بھی کہنا بجا ہی ہے کہ جس نے کرکٹ کی وجہ سے سرمایہ کاری کوفروغ دیا ہو وہ کیسے بھارت رتن کا حقدار ہوگا ،اب بھارتن رت کے تعلق سے کانگریس اور خود سچن تندولکر کا امتحان ہے کہ کانگریس کس طرح دیگر کھلاڑیوں اور دیگر نامور شخصیات کے لئے بھارت رتن کا اعلان کرتی ہے ، اسی طرح سچن تندولکر کیسے سیاست سے اپنے دامن کو بچا پاتے ہیں ، سچن کے لئے یہی مناسب ہوگا کہ آئندہ بھی وہ کسی بھی طرح سیاست میں آکر دم خم دکھانے کی کوشش نہ کریں ، ورنہ تو ان کی شخصیت مجروح ہو کر رہ جائے گی ۔

Salman Abdus Samad
About the Author: Salman Abdus Samad Read More Articles by Salman Abdus Samad: 90 Articles with 92494 views I am Salman Abdus samad .I completed the course of “Alimiyat” from Islamic University Darul Uloon Nadwatul Ulama Lucknow. Right now doing the course o.. View More