منور حسن کا فتوی آبیل مجھے مار

بغداد میں شیعہ سنی مسلک پر بحث ہورہی تھی دونوں فریقین کے علماءاپنے اپنے دلائل میں الجھے ہوئے تھے ملک بھر کے علماءاور اہم لوگ اس محفل میں شریک تھے بغداد کے مسلمان بحث میں الجھے ہوئے تھے ہلاکو خان نے بغداد پر حملہ کر دیا اور بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اس نے شیعہ دیکھا نہ سنی سب کو ایک ہی نظر سے دیکھا اور انہیں تہ تیغ کیا خون کی ندیاں بہہ گئیں اور ہلاکو خان نے بغداد پر قبضہ کر لیا ہلاکو کی فوج نے لاکھوں شہریوں کو قتل کر دیا ہلاکو نے حکم دیا کہ شہر کی تمام لائبریریاں جلا دی جائیں مگر تمام علما کو محفوظ رکھا جائے! پنجاب یونیورسٹی کے تیار کردہ اسلامی انسائیکلوپیڈیا میں درج ہے کہ ہلاکو کے اس حملے سے بغداد کے دس لاکھ شہری ہلاک ہوئے اور یہ کہ بے شمار لائبریریوں کی جلی ہوئی ہزاروں نادر کتابوں کی راکھ اورلاکھوں شہریوں کے خون سے دریا کا پانی ایک روز سیاہ، اگلے روز سرخ ہوتا تھاسپین میں بل فائٹنگ بہت قدیم کھیل ہے اس کھیل میں ایک شخص بیل کے سامنے کپڑا پکڑ کر اسے دعوت دیتا کہ ”آبیل مجھے مار“اس کھیل میں اب تک کئی لوگوں کی جان جا چکی ہے جبکہ اکثر و بیشتر کھلاڑی زخمی ضرور ہوتے ہیں آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ان واقعات سے تو زیاہ تر لوگ آگا ہیں پھر اسے دہرانے کا فائدہ کیا ہے یقیناً آپ اپنی جگہ درست سوچ رہے ہیں لیکن ان دونوں واقعات کی یاد مجھے اس لئے آئی کہ آج کل ہمارے ملک میں بھی یہی صورتحال چل رہی ہے ہم آبیل مجھے مار والی پالیسی پر عمل پیرا ہیں ہمارے رہنما ہمارے قائدین ہمارے یہ سیاستدان قوم کو پہلے ہی عوام تک لے آئے اب انہیں عوام سے بھی نکال کر گروہوں میں تبدیل کرنے کے درپے ہیں نئے نئے شو شے چھوڑ کر قوم کو اپنے مفادات کےلئے تقسیم کرنے میں مصروف ہیں ایک کے بعد ایک بحران سامنے لایا جاتا ہے عوام کے مسائل حل کرنے کی بجائے انہیں مختلف ایشو میں الجھا کر ان کی توجہ اپنے مسائل سے ہٹائی جاتی ہے حکمران ہوں یا سیاستدان دونوں کا ایجنڈا ایک ہی ہے کیونکہ سب ہی” پہلے میری اور دوسری آپ کی باری“ کی پالیسی پر چل کر نورا کشی کھیل رہے ہیں اور قوم کو بے وقوف بنا رہے ہیں آپ یقیناً سوچ رہے ہونگے کہ میں کہنا کیا چاہتا ہوں میرا مقصد کیا ہے اور آپ کو کس طرف لے جارہا ہوں تو میں یہ کہنے کی جسارت کرونگا کہ جماعت اسلامی کے امیرمنور حسن کے بیان کے بعد پوری قوم کی طرح میں بھی ایک عجیب الجھن میں پھنس گیا ایک عجیب سی بے چینی اورخلش محسوس کررہا تھا سوچ رہا تھا کہ انہوں نے کون شہید اور کون شہید نہیں کی جولا حاصل بحث شروع کر دی اس کا مقصد کیا تھا آخر وہ کونسا جذبہ تھا جس کی وجہ سے انہیں اس نازک اور حساس مذہبی مسلئے کو چھڑنے کی ضرورت محسوس ہوئی وہ کونسے عوامل کار فرما تھے جس کے باعث انہوں نے یہ مسئلہ چھڑنا ضروری سمجھا ملک اس وقت ایک ملک دوہراے پر کھڑا ہے امن وامان کی صورتحال دگر گوں ہے فوج سیکورٹی فورسز اور حساس ادارے اپنی جگہ مصروف ہیں اور اس خطے میں موجود بیرونی قوتوں کے ایجنٹوں کے پھیلائے ہوئے جال کو کترنے کی تگ و دور میں لگے ہوئے ہیں ایسے حالات میں جماعت اسلامی کے امیر نے کون شہید ہے کون شہید نہیں کی بحث میں پوری قوم کو الجھا کر ایک نئی بحث شروع کر دی الیکٹرانکس میڈیا اور اس کے اینکر جو پہلے ہی ایسے مواقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں اپنی دکانداری چمکارہے ہیں اصل مسائل کی طرف نہ تو یہ اینکر اورنہ ہی میڈیا آرہا ہے اور نہ ہی حکمران و سیاستدان سوال یہ ہے کہ شہید کون ہے اور کون نہیں کیا اللہ تعالیٰ نے اس کا اختیار انسان کو دے رکھا ہے؟ کیا ہم جسے شہید سمجھتے ہیں اور جسے نہیں سمجھتے کیا اللہ تعالیٰ بھی اسے وہی درجہ دے گا؟اس بات کا فیصلہ کون کرے گا اور اس کا جواب کون دے گا اگر ہم جسے شہید سمجھتے ہیں اور اللہ بھی اسے شہید کا درجہ دے پھر تو نعوذ باللہ یہ اللہ کا نہیں انسان کا اختیار ہوا تو کیا وہ خالق کائنات اس کی اجازت دے گا ہر گز نہیں پھر اس لا حاصل بحث شروع کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ لیکن ہمارے سیاستدانوں اور مذہبی رہنماؤں کو ”ان“ رہنے کےلئے کوئی نہ کوئی ایشو ضرور چاہیئے اور پھر فتوے دینا تو ہماری سر شت میں شامل ہو چکا ہے کسی کے پاس فتوے دینے کا اختیار ہو یا نہ ہو وہ اپنا فتویٰ ضرور دے گا اگر پاکستان کی65سالہ تاریخ اٹھا کر رکھ لی جائے اور پرانے اخبارات کو کھنگلا جائے تو آپ کو ایسے سینکڑوں فتوے مل جائیں گے کوئی مسئلہ پیدا ہوا ہر کس و نا کس نے فتویٰ دیدیا چاہئے وہ اس لیول کا ہو نہ ہو جیسے جھوٹے وعدے اور سہانے سپنے دکھانے ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی روایت ہے اسی طرح فتوے دینا بھی اب ایک روایت اور عادت بن چکی ہے جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعت کے امیر سے تو یہ توقع ہی نہیں کی جا سکتی تھی کہ وہ موجودہ نازک صورتحال میں ایک ایسی بحث چھڑ دیں گے جس کے اثرات بڑے دور رس اور منفی نکلیں گے پوری قوم بشمول فوج کو اس وقت جس یکجہتی کی ضرورت ہے اتنی کبھی65سال میں بھی نہیں تھی ایک ایسے وقت میں ایسا نازک ایشو چھڑ کر فوج کو تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ملک کی نہیں بلکہ مخالف قوتوں کی خدمت ہے ایک ایسا ایشو چھڑدیا گیا جس کا انسان کے پاس کوئی اختیارہی نہیں اسے کیا کہا جائے ملک سے محبت یا نفرت ہم اسے غداری تو نہیں کہیں گے البتہ نادانی ضرور کہیں گے یہ آ بیل مجھے مار ولی بات ہے ہم خود اپنی فوج کو کمزور کر کے لوگوں کو انتشار پھیلانے کی دعوت دے رہے ہیں اگر خدانخواستہ اس ملک پر کوئی آفت آپڑی تو پھر نہ شیعہ رہے گا اور نہ ہی سنی نہ شہید رہے گا نہ ہی غازی خون بہے گا اور ہلاکو خانی ہوگی ہٹلر نے کہا تھاکہ کسی قوم پہ کاری ضرب لگانے کا پہلا طریقہ یہ ہے کہ اس ملک کی فوج کو اس قوم کی نظروں میں اتنا مشکوک بنادو کہ وہ اپنے ہی محافظوں کو اپنا دشمن سمجھنے لگیں ہمارے دشمن تو یہ کام بڑے عرصے سے کررہے ہیں اس میں ہمارے اپنے بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں لیکن انہیں اس میں کامیابی نہیں ہورہی ہے اب اگر ہمارے راہنما بھی نادانستگی میں ان کا ساتھ دیں گے تو ان کام مزید آسان ہوجائے گاکہتے ہیں کسی انسان کو دکھ دینا اتنا آسان ہے جتنا سمندر میں پتھر پھنیکنا مگر یہ کوئی نہیں جانتا کہ وہ پتھر کتنی گہرائی میں گیا جماعت اسلامی کے امیر نے تو اس سمندر میں پتھر پھینک دیا مگر وہ اس کی گہرائی سے واقف نہیں تھے اسی لیے بڑے بزرگ کہتے ہیں کہ پہلے تولو پھر بولولیکن یہ صرف ان پر ہی منحصر نہیں بلکہ ہمارے بعض ایسے اینک جن کی ڈور باہر سے ہل رہی ہے وہ بھی اس سے اچھال رہے ہیں تاکہ ان لوگوں کی خدمت کی جاسکے جو ایسے موقعوں کی تلاش میں رہتے ہیں اور ایک ایسے ہی ہمارے ساتھی اینکر کے بارے میں(جن کا نام ہم نہیں لیں گے قارئین خودہی سمجھ جائیں گے )اوریا مقبول جان نے کہا ہے کہ” انہوں نے چیزوں کو عجیب وغریب طریقے سے ٹوسٹ کیا ہے ایک ایسے ہیجان میں مبتلا کرنے کی کوشش کی ہے جو لوگوں کا ایشو نہیں تھامثلاََ کل آپ اکبربگٹی کے بیٹے کو بلائیں گے اور کہیں گے کہ اکبربگٹی کو سب لوگ شہید کہتے ہیں ان کے ساتھ سات فوجی مرے تھے وہ شہید ہیں یا نہیں؟پھر آپ عطااللہ مینگل کو بلائیں گے اور کہیں گے کہ آپ کا بیٹا شہید ہے آپ کی کیا رائے ہے کہ جو فوجی مرئے تھے وہ شہید ہیں یا نہیں؟پھر آپ مجیب الرحمان کی بیٹی کو بلائیں گے اور ان سے پوچھیں گے کہ مکتی باہنی کے جولوگ مرے ہیں وہ شہید ہیں یانہیں؟اس قوم کو مزید فساد کا شکار نہ کریں ہم پہلے ہی بہت فساد کا شکار ہوئے ہیں“یہ تھی ان کی اپیل ہو ہم بھی ان اینکروں اور میڈیا والوں سے کرتے ہیں ایسی بحثوں میں پڑنے کی بجائے عوام کے مسائل حل کرنے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے جو پہلے ہی حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مہنگائی بے روزگاری معاشی بد حال میں مبتلا ہیں اور جو کسررہ گئی تھی وہ امن وامان کی خراب صورتحال نے پوری کر دی یہ ان کے زخموں پر مرہم رکھنے اور ان کے مسائل حل کرنے کا وقت ہے وہ سیاستدانوں اورحکمرانوں سے پہلے ہی مایوس ہو چکے ہیں موجودہ صورتحال انہیں مزید اس طرف دھکیل رہی ہے یہ وقت سوچنے کا ہے جذبات کے رو میں بہنے کا نہیں۔
 

SULTAN HUSSAIN
About the Author: SULTAN HUSSAIN Read More Articles by SULTAN HUSSAIN: 52 Articles with 40737 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.