’راڈار‘ نہایت اہم ایجاد

’’راڈار‘‘ ہمارے زمانے کی نہایت اہم ایجاد ہے۔ اس سے دُور دُور کی چیزیں دیکھی جا سکتی ہیں اور ان کا درمیانی فاصلہ جلد سے جلد معلوم کیا جا سکتا ہے۔ سخت کہُر یا گھنگھورگھٹا یا رات کی تاریکی، غرض کوئی شے راڈار کے مشاہدے کو نہیں روک سکتی۔ اسی لئے راڈار کو عام طور پر’’ جادو کی آنکھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ دُوسری عالمگیر جنگ میں جرمنوں نے ایسے ہوائی جہاز تیار کر لئے تھے، جو برقی لہروں کی مدد سے چلتے تھے، وہ نہایت تیزی سے آتے اور برطانیہ کی آبادیوں پر اندھا دھند بم برسا کر تباہی پھیلاتے۔ اسی طرح بلجیئم سے راکٹ بموں کی بارش ہوتی رہی۔ اب برطانیہ کو یہ فکر ہوئی کہ کسی طرح ان جہازوں اور بموں کا پتا وقت سے پہلے لگا لینے کی کوئی تدبیر ہاتھ آنی چاہیئے، تاکہ ان کی روک تھام کا مناسب بندوبست ہو سکے، نیز لوگوں کو حفاظت کے لئے خبر دار کیا جا سکے۔ انگریز سائنس دانوں نے سوچ بچار اور تجربوں کے بعد راڈار ایجاد کیا، جو تین تین چار چار سو میل کے دائرے میں ہر ہوائی جہاز کی خبر آناً فاناً دے سکتا ہے۔ آپ نے ریڈیو کا آلہ ترسیل (ٹرانسمیٹر) تو دیکھا ہو گا۔ یہ آواز کو برقی لہروں کے ذریعے دور دور پہنچا دیتا ہے۔ راڈار کی مشین نہایت تیز رفتار اور زور دار شعاعوں کو چاروں طرف فضا میں بکھیرتی اور منتشر کرتی ہے اور جب چاہیں ہم ان شعاعوں کو ایک شعلے کی صورت میں ایک خاص سمت میں بھی بھیج سکتے ہیں۔ انہیں کوئی شے روک نہیں سکتی، لیکن جب یہ کسی ٹھوس چیز سے ٹکراتی ہیں تو پلک جھپکنے میں واپس آکر اس چیز کی تصویر مشین کے ساتھ لگے ہوئے ایک خاص پردے پرنمایاں کر دیتی ہیں۔ باقی رہا یہ امر کہ وہ چیز کتنے فاصلے پر ہے تو یہ جان لینا چنداں مشکل نہیں۔ شعاعوں کے مشین سے نکلنے اور تصویر لے کر واپس آنے کا وقت مشین چلانے والے کو معلوم ہوتا ہے۔ شعاعوں کی رفتار بھی اس پر آشکارا ہوتی ہے۔ پس وہ ایک لمحہ میں شے کے فاصلے کا اندازہ کر لیتا ہے۔ غرض راڈار کی ایجاد کے بعد جرمنوں کے جہازوں یا راکٹ بموں کامقابلہ کامیابی سے کیا جانے لگا۔ ایجاد کے بعد راڈار نے برقی ترقی کر لی۔ پہلے ہوائی جہازوں اور عام بحری جہازوں کو راستے کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنی پڑتی تھیں۔ اب راڈار کے ذریعے انہیں سب کچھ معلوم ہو جاتا ہے اس لئے حادثوں کا امکان بڑی حد تک کم ہو گیا ہے۔ سائنس دانوں نے یہ بات بھی بہت جلد معلوم کر لی کہ جن طلسمی شعاعوں کے راڈار میں کام لیا جاتا ہے وہ بعض جانوروں اور پرندوں سے بھی خود بخود نکلتی رہتی ہیں۔ یہ جانور اندھیرے میں انہیں شعاعوں کے ذریعے سے راستے کی رکاوٹوں کا پتا لگا لیتے ہیں۔ مثلاً چمگادڑ کو دیکھو، وہ رات کے وقت اُڑتا ہے تو کبھی دیوار یا بجلی کے کھمبے سے نہیں ٹکراتا، یہی شعاعیں قبل از وقت رکاوٹ کے بارے میں اسے خبردار کر دیتی ہیں۔ اسی اصول کو سامنے رکھ کر سائنسدانوں نے ایک ایسی چھڑی بنائی ہے جو اندھوں کے لئے ہمدرد رہنما کا کام دیتی ہے۔ اندھا اس چھڑی کو ہاتھ میں لئے جارہا ہو جب رکاوٹ سامنے آئے گی تو چھڑی میں گھنٹی بجنے لگے گی اور اندھے کو آگاہ کر دے گی کہ اسے ایک طرف ہو جانا چاہئے۔ لطف یہ کہ جب تک اندھا سامنے کی رکاوٹ سے بالکل محفوظ نہ ہو جائے گا، گھنٹی بجتی رہے گی۔ کون کہہ سکتا ہے کہ راڈار کل انسانوں کے لئے کن کن نئی برکتوں کا سرچشمہ بن جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ اس کے ذریعے اندھے اسی طرح بے تکلف دنیا کے کام کاج کرنے لگیں جس طرح آنکھوں والے کرتے ہیں۔ غرض ہر نئی ایجاد انسان کو کسی نہ کسی اہم ضرورت کو پورا کر رہی ہے اور اس کی بے بسی آہستہ آہستہ کم ہوتی جارہی ہے۔ ایجادوں کے دو پہلو ہیں ایک پہلو حد درجہ خطرناک ہے جس سے وسیع آبادیوں کو موت کے گھاٹ اتاری جا سکتی ہیں جیسا کہ ایٹم بم کے ذریعے سے ہیرو شیما یاناگا ساکی میں ہوا۔ دوسرا نفع بخش ہے جس سے انسانوں کو بہت فائدہ پہنچتا ہے۔ اس کے لئے صرف راڈار ہی کی مثال دیکھ لیجئے۔ اگر راڈار ایجاد نہ ہوتا تو دشمنوں کے اچانک حملوں سے اپنے آپ کو محفوظ کر لینے کی کیا صورت تھی؟ یا ہوائی جہازوں کو خطرات سے کیوں کر آگاہی حاصل ہو سکتی تھی؟ پھر اس کے دوسرے فائدوں کو پیش نظر لایئے۔ اس کی وجہ سے اندھوں کو کیسا اچھا سہارا مل گیا؟ ابھی خدا جانے یہ ایجاد اور کون کون سے فوائد کا دروازہ کھولے گی۔ خدا کرے کہ تمام ایجادیں انسانوں کے فائدے کے لئے استعمال ہوں، نقصان کے لئے کام میں نہ لائی جائیں۔

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 256881 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More