سانحہ پاکستان…… ’’مٹی پاؤ!‘‘

ہمارے شہر تاریخ میں امر ہوتے جا رہے ہیں مورخین کو آئے دِن ذخیرہ کرنے کیلئے بہت سا مواد مِلتا رہتا ہے ۔سانحوں پہ سانحے اور پھر سانحہ ہو جانے کے بعداُس بے جان زمین اور لاشوں کا محاصرہ ،چند روز گرما گرمی ،سکیورٹی ہائی الرٹ ،ناقہ بندی،اجتماعات پر پابندی اور پھر موسم میں بدلاؤ آجاتا ہے ۔دہشت گرد اپنی اپنی گفاؤں میں خوابِ خرگوش کے مزے لو ٹ کر ترو تازہ ہو رہے ہوتے ہیں۔کوئی اپنے ماسٹر مائینڈ کو مغز کا حلوہ کھلا رہا ہوتا ہے تو کوئی اُس کے ہر دلعزیز دماغ کی مالش میں مصروف ہوتا ہے تو ذمہ داران محاصرے کرنے والے ،ناقہ بندی ،سکیورٹی ہائی الرٹ کرنے والے اِس خوش فہمی کا شکار ہوجاتے ہیں کہ یہ حملہ آوری کا بھی موسم ہوتا ہے یہ بھی ایک سیزن ہے جو اب کب کا گزر چکااور سکھ کی سرد سانس لے کر امن کا پرچم بلند کردیتے ہیں ۔

سانحہ کوئٹہ، سانحہ پشاور،سانحہ راولپنڈی ، سانحہ کراچی اور پتہ نہیں کتنے سانحے تاریخ کا حصہ بننے کیلئے مچل رہے ہونگے پاکستانی شہروں کے سانحے ،سانحہ پاکستان ہے۔جب ایک خطرناک ترین اسٹارٹ ابھی تھوڑی ہی دیر میں پھٹنے والے بم کوجان ہتھیلی پہ رکھ کر بم ڈسپوزیبل ٹیم کا صرف ایک سپاہی ناکارہ بنا سکتا ہے تو تباہی پھیلا نے والے ایک سانحہ کو سینکڑوں بلکہ ہزاروں ٹیم ورکرزکیوں نہیں ناکام بنا سکتے ؟بات ذرا سی اور صرف سوچنے کی ہے کہ یہ تمام سانحے بھی تو کوئی آدم زاد ہی پلان کرتا ہے بلاشبہ ملک دشمن عناصر نے کوئی ماسٹر مائینڈ ربورٹ تو تیار کرنہیں رکھا کہ جو سانحوں کے آئیڈیاز ایجاد کرتا ہو۔تو کیا ہمارے پاس ایسا پاور فُل کوئی تھنک ٹینک نہیں جو اِن سانحوں سے قبل کی ماسٹر پلائینگ کر سکے فرق صرف اتنا سا ہوگا کہ دشمن منفی سمت میں سوچتے ہیں ہمیں مثبت سوچ کے ساتھ حکمتِ عملی بھی اپنا نا ہوگی۔دشمن کو کمزور سمجھنا خود سے دشمنی ہے اور ہم ہر سانحے کے بعد دشمن کو ڈرا ہوا اور کمزور سمجھ کر بڑکے مارنے لگ جاتے ہیں ’’دیکھا دم دبا کر بھاگ گیا اب ہمت ہے تو آ ہم یہی کھڑے تیرا انتظار کر رہے ہیں‘‘ اور وہ عقلمند دشمن دوسری جگہ جہاں ہم نہیں ہوتے وہاں کا رُخ کر تا ہے اور پھر ایک اور سانحے کے بعد آرام سے اپنے گینگ کے ہمراہ رضائیوں میں گھس کر ہیٹر چلا کے چلغوزوں کی محفل کے دوران ٹیوی پر ہماری حکمتِ عملی پر قہقہے لگا رہا ہوتا ہے۔ہمارا حال اِس پولیس والے کی طرح ہے جس نے مجرم کو بڑی تگ و دو اور کافی دور تک پیچھا کرنے کے بعد دوسری مرتبہ گرفتار کیا اورپہلے کی طرح اِس بار بھی ہتکڑی پیچھے اپنی گاڑی میں ہی بھول آیا اب وہ مجرم سے کہنے لگا ’’یہ لو چابی اور میری گاڑی میں سے ہتھکڑی نکال کر لاؤ اِس بار میں تمہیں بھاگنے نہیں دونگا پچھلی مرتبہ بھی تمہیں کھڑا کر کے گیا تھا تو میرے واپس لوٹنے پر تم بھاگ چکے تھے‘‘۔ہم خود منظرِ عام سے ہٹ جاتے ہیں اور تمام میدان صاف ہوتا ہے جِس میں دعوتِ عام کا بورڈ آویزاں کر دیا جاتا ہے جبکہ ہمیں تو دشمن عناصر کی پرچھائی بن جانا چاہیے ۔

ایک جانب اگر کوئی بازار نشانہ بنتا ہے توفوراً ملک بھر کے تمام چھوٹے موٹے بازاروں کا محاصرہ کر کے جیلیں ،مسجدیں امام بارگاہیں،مزارات،احساس اداروں کے دفاتر،اسٹیشنوں وغیرہ کو سوتیلا سمجھ کر لاوارث چھوڑ دیا جاتا ہے ۔ اگر حملہ کِسی دینی درس گاہ پر ہو جائے تو چند روز تک عبادت گاہوں اور مزارات پر ملک بھر کی تمام سکیورٹی لگا دی جاتی ہے۔یو ں باقی تمام راستے صاف کر دیے جاتے ہیں ’’آبیل ہمیں خوب مار‘‘ ۔کیا قانون کا ٹارگٹ معزور ہے ؟ دشمن عناصر کا ٹارگٹ ،کِلنگ کر کے ہی لوٹتا ہے جبکہ قانونی ٹارگٹ کچھووں کی کیٹ واک میں مصروف نظر آتا ہے ۔ صرف ایک علاقے میں تخریب کاروں کی جانب سے تحفہ تن ملنے والی سرچ آپریشن کی کامیابی کے بعد ڈاکٹرز پارٹی جشن منانے میں مصروف ہوجاتی ہے ۔ اِسی دوران چند دِنوں کے امن کے بعد انہیں پھر سے سرجری کا حکم مِلتاہے کہ جلدی کرو فُلاں شہر آخری سانسیں لے رہا ہے۔ ہمارے سرجن ایک دفعہ ہی دِن رات ایک کر کے گرینڈ آپریشن کیوں نہیں کر لیتے ’’نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری‘‘ کراچی کو سوئیوں سے چھلنی کرنے والوں کو کیفرِ کردار تک کیوں نہیں پہنچایا جا رہا؟سال میں اتنے خوشیوں کے تہوار نہیں آتے جتنے افسردگی کے سانحے ہو جاتے ہیں ۔لاپتہ افراد کا سانحہ ،ملالہ کا سانحہ،ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا سانحہ،روز بروز بوری بند لاشیں ملنے کا سانحہ، مختارا مائی کا سانحہ، معصوم سنبل کا سانحہ، ڈرائیور کی غفلت سے نوجوان طالبہ کا بس کے ٹائروں تلے کچل جانے کا سانحہ ، مجبور ماں کابھوکے بچوں کی پکار سن کر خود کشی کرنے کی کوشش کا سانحہ ،ینگ ڈاکٹرز کی ہڑتال اور پھر ہسپتالوں کے آؤٹ ڈورز اور آئی سی یو بند رکھنے کا سانحہ،سیاستدانوں کے چھوٹے موٹے احتجاج اور آئے دِن سڑکیں بلاک کرنے کا سانحہ،ڈرون حملوں کا سانحہ ،سانحہ کوئٹہ و چمن ہر ایک سانحہ ایک تاریخ رقم کرتا چلا جا رہا ہے۔

حکمرانوں کے دماغ لوٹ کھسوٹ ،ریاکاری ،جھوٹ،مہنگائی میں اضافہ جیسے کاموں میں بہت بڑھ چڑھ کر سوچتے ہیں ۔ مسئلے کا حل خود مسئلے کے اندر ہی موجو د ہوتا ہے بس دیکھنے والی آنکھ اور سمجھنے والا ذہن ہونا چاہے ۔دشمن کے حملوں سے محفوظ رہنے کیلئے خود کو دشمن کی جگہ رکھ کے دشمن جیسی سوچ کو جنم دے کر مثبت حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔سوچنا یہ ہوگا کہ کِس کِس طرح ملک میں انتشار پھیلایا جا رہاہے،کِس کو نقصان پہنچانے سے ملک و قوم کا زیادہ نقصان ہے ۔ تخریب کاروں کی ہی طرح مکمل پلان شدہ اسکرپٹ تیار کرنا ہونگے پھر تیار شدہ پیپر ورک پر ریہرسل کی جائے اِس کام کیلئے محبِ وطن اور انتہائی تجربہ کار انہ ڈریکشن کی ضرورت درکار ہوگی۔جب تک بُرے کا انجام بُرا نہ ہو کِسی کو اُس بُرے کا فعل بُرا لگتا ہی نہیں ہے۔جب تک مجرموں کو چوراہے میں کھڑا کر کے سرِ عام عبرتناک سزائیں نہیں دی جائیں گی تب تک جرائم کی افزائشِ نسل میں کچھ کمی نہیں ہوگی اور جُرم یونہی انڈے بچے دیتا رہے گا۔جب مجرم کے علم میں ہوگا کہ میں نے چوری کی تو فُلاں شخص کی طرح چوراہے میں کھڑا کر کے میرے ہاتھ بھی تن سے جُدا کر دیے جائیں گے تو وہ کچھ بھی کرنے سے قبل ایک ہزار مرتبہ سوچے گا۔اگر کِسی ایک حیوان نما انسان کو بھی چوراہے میں پھانسی کے تختے پر لٹکا دیا جائے تو کِسی شیطان سُرماں کی ہمت نہ ہوگی کہ کِسی ماں کی معصوم ننھی مُنی لختِ جگر لاڈو رانی کو میلی نظر سے دیکھ بھی سکے ۔ مگر ہم ایسا ہر گز نہیں کریں گے کیونکہ ابھی تو ہم نے تاریخ میں مزید امر ہونا ہے محمد علی رانا کے اِن تمام مشوروں پہ ’’مٹی پاؤ!‘‘ ۔
 

Muhammad Ali Rana
About the Author: Muhammad Ali Rana Read More Articles by Muhammad Ali Rana: 51 Articles with 37412 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.