وفا ۔۔۔ صلہ مانگتی ہے

یہ ایک فطری عمل ہے کہ مالک اپنے ملازم سے خوش ہوتے ہوئے بھی خوشی کا اظہار نہیں کرتا ۔ وہ جانتا ہے کہ اگر ایسا کیا تو ملازم کا منہ کھل جائے گا ۔ وہ کوئی تقاضا کر دے گا،تنخواہ میں اضافے کی بات کرے گا، چھٹی مانگ لے گایا کسی بھی قسم کی سہولت۔ اس لیے ان کے سامنے غصہ کرنے کی ادا کاری کرتے رہنا ہی بہتر ہے۔غلطی نہ ہوتے ہوئے بھی کام میں کیڑے نکالنا۔ چھوٹی چھوٹی بات پر اونچی آواز میں بولنے لگ جانا۔ عین چھٹی کے وقت کسی اہم کام کا یاد آجانا۔ہر وقت بڑے خرچ کی بجائے چھوٹے چھوٹے اخراجات پر نظر رکھنا اور اُنہیں مزید چھوٹا کرنے کی کوشش میں لگے رہنا سیٹھوں کا شیوہ بنتا جا رہا ہے۔

مراد جس کی ابھی تک کوئی مراد پوری نہیں ہو سکی، ایسے ہی ایک سیٹھ کا ملازم ہے۔ اُسے اس سیٹھ کے ساتھ کام کرتے ہوئے بیس سال سے زیادہ کا عرصہ بیت چکا ہے۔اُس کی تنخواہ ہر سال چند سو روپے ہی بڑھتی ہے وہ بھی بار بار سیٹھ کو یاد کروانے پر ۔ سیٹھ بڑے بجھے ہوئے دل سے تنخواہ بڑھاتا ہے اور کام کا مزید بوجھ اُس کے اوپر ڈال دیتا ہے۔سیٹھ کو یہ نہیں پتا کہ کس بندے سے کیا کام لینا ہے اور اس کمپنی کا کوئی ملازم یہ نہیں جانتا کہ اُس کی ڈیوٹی کیا ہے۔ یہاں سیلز والے بینکوں میں دھکے کھارہے ہوتے ہیں اور اکاونٹس والے گاڑیوں میں مال لوڈ کروانے کے فرائض انجام دیتے ہیں۔ جب کہ مراد ان دونوں میں جو بھی مل جائے کر لیتا ہے بلکہ وہ تو بہت کچھ کر لیتا ہے۔وہ بیک وقت ڈرائیور بھی ہے اورمینیجر بھی۔کیشیئر بھی ہے اور پرچیزر بھی۔منشی بھی ہے اور ہیلپر بھی۔ اُسے جس کام میں لگا دو گدھے کی طرح جت جاتا ہے۔ اُس نے کسی کام سے انکار نہیں کیا اور نہ کبھی کسی کام میں ہیرا پھیری۔ وہ نمک حلالی کو اپنا ایمان اور وفاداری کو اپنا دین سمجھتا ہے۔

مہنگائی روز بڑھتی ہے جبکہ تنخواہ سال میں ایک بار۔ وہ بھی اونٹ کے منہ میں زیرہ۔مراد حا لات سے تنگ آچکا تھااور موقع کی تلاش میں تھا کہ جس دن سیٹھ کا موڈ اچھا ہو گا تنخواہ میں اضافے کی بات کریگا۔ آخر ایک دن وہ وقت آہی گیا جس کا اُسے انتظار تھا۔ اُس نے موقع کو غنیمت جانا اور اپنے حق کی بات کہہ دی۔۔۔۔ جیسے ہی یہ بات سیٹھ کے کانوں میں پڑی، اُس کے منہ کا تو ڈیزائن ہی بدل گیا۔ آنکھیں ہاہر کو آ گئیں۔ اور چہرے پر افسردگی چھا گئی۔ "یار میں بہت ٹینشن میں ہوں پھر کسی دن آنا بیٹھ کربات کریں گے۔۔۔" وہ کچھ دیر تک مراد کا منہ تکنے کے بعد بولا۔۔۔ "سر ! ایک بات پوچھوں ؟" مراد نے بڑی سعادت مندی سے سوال کیا تھا۔۔۔" ہاں پوچھو!۔۔۔" سیٹھ سر کھجاتے ہوئے بولا روکھے لہجے میں بولا "سر ! اگر آدمی ٹینشن میں ہو تو اُس کا کچھ کھانے پینے کو جی چایتا ہے؟" مراد نے فلسفہ جھاڑا "نہیں یار وہی تو میرا حال ہے کچھ بھی حلق سے نیچے نہیں اتر رہا " سیٹھ بے چارگی سے جواب دیا "تو سر!۔۔۔ یہ جو ابھی ابھی سیب اور کیلوں سے بھری ہوئی ٹرے آپ نے ہڑپ کی ہے ۔یہ کیسے آپ کے حلق سے نیچے اُتر گئی ہے۔۔۔؟؟؟ " مراد نے دل میں آئی بات بے دھڑک کہہ ڈالی "اوئے۔۔۔!!! بہت بد تمیز ہو گیا ہے تو ۔۔۔میں نے کھانا کھانے کی بات کی ہے، فروٹ کی نہیں ۔۔۔ مجھے جب بھی ٹینشن ہوتی ہے میں فروٹ ہی کھاتا ہوں۔۔۔ اب جا فع بھی ہو جا۔۔۔ کھڑا کھڑا میرا منہ دیکھے جا رہا ہے" سیٹھ غرایا ۔ مراد بے مراد وہاں سے اُٹھا اورایک دفعہ پھر کولہو کے بیل کی طرح کام میں لگ گیا۔

کافی دن گذر جانے کے بعد اُسے ایک دفعہ پھر کھجلی ہوئی ۔ وہ سیدھا سیٹھ کے آفس میں جا گھسا اور ادھر اُدھر کی دو چار کام کی باتیں کرنے کے بعد اپنا مدعا پیش کر دیا۔۔۔سیٹھ کا بلڈ پریشر ایک دفعہ پھر ہائی ہو ا اور کسی معمولی سے نقصان کا رونا رونے لگ گیا۔ چار سال پرانی ایک پیمنٹ نہ ملنے پر مراد پر چڑھ دوڑا۔ اپنے آفس کے واش روم کی ٹوٹی لیک ہونے کی شکایت کرنے لگا۔بیٹے کے فیل ہونے کا غصہ بھی نکالا۔ اپنی بیوی سے لڑائی کی بھڑاس بھی نکال دی ۔ بجلی کا بل جمع کرانے کی آخری تاریخ بھی اُسے یاد آگئی۔اور ایسے ایسے معاملات جن کا نہ تو کاروبار سے کوئی تعلق تھا اور نہ ہی اُس کی زندگی سے،اُسے ایک ایک کرکے ستانے لگے۔ مراد کھسیانا سا ہوا اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔

مراد کی مراد شایدکبھی پوری نہ ہو سکے گی، وہ یہ بات سوچتا اور مایوس ہو جاتا ۔ لیکن اُس نے سن رکھا تھا کہ مسلسل قطرہ قطرہ گرنے سے پتھر میں بھی سوراخ ہو جاتا ہے، سیٹھ تو پھر انسان ہے۔ اُس کی یہی خوش فہمی اُسے بار بار اپنے باس کے ہاتھوں ذلیل کروا رہی تھی۔ کیونکہ وہ نہیں جانتا تھا کہ انسان کے دل پر پانی کے معمولی قطرے اثر نہیں کیا کرتے۔

آج پھر سیٹھ خلاف معمول خوش نظر آرہا تھا ۔ مراد نے ہمت کی اور اپنی گذارش پیش کر دی۔آگے سے اک نیا بہانہ !۔۔۔" یار تم تو جانتے ہو ابھی حکومت بدلی ہے ۔ یہ نئے حکمران کیسے ہوں گے ؟ ان کا تو ایک دو سال کے بعد ہی پتا چل سکے گا۔ کاروبار پر اس حکومت کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ہماری خاجہ پالیسی کیا ہو گی؟ ڈرون حملے رک پائیں گے یا نہیں؟ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔۔" سیٹھ نے رونے والی شکل بناتے ہوئے کہا "سر میں نے تنخواہ کی بات کی ہے، آپ سے کوئی وزارت نہیں مانگی ۔۔۔" مراد نے جل کر کہا اور سیٹھ کے منہ پر بارہ بجے ہوئے چھوڑ کر باہر آگیا ۔

مراد کا مختلف نوعیت کے کاموں کی غرض سے بہت سارے دفاتر میں آنا جانا تھا ۔ اُس کی دوسری کمپنیوں کے سیٹھوں سے بھی اچھی خاصی علیک سلیک تھی۔ ہر کوئی اُسے اس کے سیٹھ کا خاص بندہ سمجھتا تھا ۔اس لیے کاروباری راز جاننے کے لیے اُس کی خاطر مدارت کرتا رہتا ۔ لیکن مراد نے ابھی تک کسی کو کسی بھی قسم کے کاروباری راز کی بھنک پڑنے نہ دی تھی۔ لیکن۔۔۔! اب حد ہو چکی تھی ۔ مراد نے نے نمک حلالی کا چوغہ اور وفاداری کا لبادہ اُتارکر گندے نالے میں پھینک دیا تھا۔ اُس نے اپنی وفا بیچ دی تھی ۔ ایک دوسرے کاروباری سیٹھ کے ساتھ اُس کے تعلقات گہرے سے گہرے ہوتے چلے گئے۔ وہ اپنے سیٹھ کے بہت سارے قیمتی راز اُسے بتا چکا تھا ۔ بدلے میں اُسے اچھا خاصا معاوضہ ملا تھا اور وہ سیٹھ سے اپنی تنخواہ کے بارے میں بات کرنا کب کا بھول چکا تھا ۔

سیٹھ پریشان تھا کہ تھوڑے ہی عرصہ میں اُس کا کاروبار مندہ کیوں پڑتا جا رہا ہے۔ آخر اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ حالانکہ کاروبار کرنے کے جو گر اُس کے پاس ہیں، شاید ہی کسی کے پاس ہوں ۔ اس کے باوجود اُس کا کاروبار تیزی سے نقصان کی طرف جا رہا ہے جبکہ اُس کے مقابلے میں دوسری کمپنی دیکھتے ہی دیکھتے مارکیٹ میں اپنی نہ صرف ساکھ پیدہ کر چکی ہے بلکہ بہت زیادہ منافع بھی کما رہی ہے۔سیٹھ نے بھی اپنا کاروباری تجربہ استعمال کیا اور اس بات کا سراغ لگا لیا کہ اس کے پیچھے کیا عوامل کار گر ہیں۔

مراد ایک مجرم کی حیثیت سے سیٹھ کے سامنے کھڑا تھا۔ لیکن اُس کے چہرے پر ندامت اور شرمندگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔وہ بالکل مطمئن تھا۔ اُس نے جو کیا تھا اپنی ضرورت کے تحت کیا تھا ۔وہ اپنے بچوں کو دوسروں کے بچوں کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچانا چاہتا تھا۔وہ بھی معاشرے میں سر اُٹھا کر جینا چاہتا تھا۔ وہ اپنے تاریک مستقبل کو تابناک بنانا چاہتا تھا۔ یہی سوچ کر اُس نے یہ قدم اُٹھایا تھا ۔۔۔۔ سیٹھ کو اُس پر بہت غصہ تھا ۔ اُس کو غداری کی سزا دے کر دوسرے ملازمین کے لیے عبرت بنانا چاہتا تھا۔اُس نے دانت پیسے اور بولا ۔۔۔۔" تم تو میرے کافی پرانے ملازم ہو۔ میرا نمک کھایا ہے۔ تمہیں۔۔۔! میرے ساتھ وفا کرنی چاہیے تھی یا کسی دوسرے کے ساتھ۔۔۔؟؟؟ بولو۔۔۔!!! جواب دو۔۔۔۔!!!" مراد نے سیٹھ کی آنکھوں میں جھانکا اور بولا "ہاں میں مانتا ہوں، میں نے آپ کو دھوکہ دیا ہے۔ آپ کی نمک حرامی کی ہے اور آپ کے ساتھ بے وفائی بھی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔!!! سیٹھ صاحب ! وفا بھی تو کچھ صلہ مانگتی ہے "

Ahmad Raza
About the Author: Ahmad Raza Read More Articles by Ahmad Raza: 96 Articles with 100484 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.