سیاسی کلچر کی تبدیلی ترقی کا راستہ

پاکستان کی سیاست ملک کے صرف چار پانچ بڑے خاندانوں تک محدود ہے عام آدمی کو اس میدان میں قسمت آزمائی کا کوئی موقع میسر نہیں ہے سیاسی لوگوں میں برداشت کی شدید کمی ہے وہ بہت جلد اقتدار حاصل کرنے کے چکر میں ہوتے ہیں عوام کو دینے کے لیے حکمرانوں کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا ماسوائے دکھوں اور نت نئے بحرانوں کے وہ مخالفین کی ماضی کی غلطیوں کو سامنے لا کر یہ سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس سے وہ عوام کو مطمئن کر رہے ہیں مگر ایسا بلکل نہیں ہوتاکیونکہ عوام اب باشعور ہیں وہ سب جانتے ہیں کہ گزشتہ کئی سالوں سے ان کے ساتھ کیا کھیل کھیلا جا رہا ہے موجودہ حکومت نے اپنے سو دن مکمل کئے اگر ان سو دنوں کا بغور غیر جانبدارانہ جائزہ لیا جائے تو صاف نظر آتا ہے کہ کچھ بھی نہیں بدلاماسوائے چہروں کے صدر ہاؤس میں نیا چہرہ وزیر اعظم ہاؤس میں نیا چہرہ دوسرے لفظوں میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ پاور والے دونوں عہدوں میں صرف چہروں کی تبدیلی ہوئی ہے باقی سب وہی ہے نہ عوام کے دکھوں کا مداوا ہوا نہ بحرانوں کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی بلکہ مہنگائی نے تو عوام کی چینخیں نکلوا دی ہیں جس کی سب سے بڑی وجہ ایک فیصد جی ایس ٹی کا بڑھانا اور روپے کی قدر میں شدید کمی تھی۔

پاکستان میں شروع دن سے ہی المیہ رہا ہے جوں ہی کسی بھی سیاسی جماعت کی حکمرانی قائم ہو تی ہے فوری طور پر اس کا منشور اور ایجنڈا اپنے آپ تک محدود ہو جاتا ہے اور نتیجے کے طور پر وہی عوام جن کو مطمئن کر کے یہ لوگ حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے ہوتے ہیں وہی ان کو گالیاں دیتے نظر آتے ہیں ۔ ایسا کیوں ہے؟ اس کے کیا اسباب ہیں؟کسی بھی قائم حکومت کی مجبوری ہوتی ہے کہ وہ کچھ خاص ممالک جیسا کہ امریلہ اور برطانیہ اور دیگر کئی یورپی ممالک کے ساتھ اپنی بنا کر رکھیں کیونکہ ہم ایڈ لینے والے ممالک میں سر فہرست ہیں جس کی وجہ سے ہماری اپنی کوئی آزاد خارجہ پالیسی نہ ہی کھبی بنی اور نہ بن سکتی ہے جب تک کہ ہم ان ممالک کی دی ہوئی بھیک سے نجات نہ حاصل کر لیں ہماری پالیسیاں ان کے کہنے پر بنتی اور ٹوٹتی ہیں ان ممالک کی دی ہوئی ایڈ کی وجہ سے ہماری، قومی ،داخلی اور خارجی معاملات میں ان ممالک کا اتنازیادہ عمل دخل ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہمارے پس پردہ حکمران ہیں جو کسی حد تک درست بھی ہے اور یہ آج سے نہیں بلکہ قائد اعظم کی وفات کے بعد سے ہو رہا ہے یہ ایک اتنا بڑا المیہ ہے کہ جس نے ہمیں آج تک ترقی نہیں کرنے دی ۔یہاں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حالات کو اس طرف لے جایا جا تا ہے جہاں کے حالات بہت گھمبیر نظر آتے ہیں پاکستان کا سیاسی کلچر اب تبدیل کرنا ناگزیر ہو چکا ہے کیونکہ اس میں اتنی زیادہ خامیاں ہیں کہ جن کا شمار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ پاکستان کے سیاسی لیڈر یہاں کے عوام کو وہ سب کچھ نہیں دے سکے جن کی ان سے توقع تھی پاکستان کی تمام سیاسی پارٹیاں موروثی سیاست کی قائل ہیں یعنی کے باپ کے بعد بیٹا اس کے بعد اس کا بیٹا یعنی کے کسی دوسرے کے لیے جگہ خالی کرنے کا رواج ہے ہی نہیں تو اس کلچر میں اور اس نظام میں تبدیلی لانا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے نوجوان اس بات کی شدید خواہش رکھتے ہیں کہ پاکستان میں بھی یہ تبدیلی لائی جائے اور اس ملک کو آزاد ملک بنایا جائے ہمارے سیاسی نظام میں جو بڑی خرابی ہے وہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا نہ ہونا ہے جس کی وجہ سے بڑے بڑے قابل لوگ ضائع ہو جاتے ہیں اور خوشامدی لوگ آگے آ جاتے ہیں جس کی وجہ سے بڑا نقصان ہوتا ہے ایک تو اچھے آدمی کے جانے سے دوسرا نااہل لوگوں کے آگے آنے سے جو کہ عوام کی فلاح و بہبود کے بارے میں تو کچھ جانتے ہی نہیں البتہ اپنے آقاؤں کو منانے اور ان کی خوشامد کے لیے کسی بھی حد تک جانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں سوال یہ ہے کہ سسٹم میں اگر تبدیلی لائی جائے تو کیسے؟ اس کا آسان سا جواب ہے کہ اگر آپ سسٹم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو ان خوشامدی اورنااہل لوگوں کے ساتھ کام کرنا ہو گا ان میں شامل ہونا ہو گا آپ نے اپنی نیت کو صاف رکھ کر ان میں شامل ہو جانا ہے تب تک آپ کا جو ویژن جو ایجنڈا ہے اس کو اپنے دل میں رکھنا ہو گا اس کے بعد جب ایک وقت آئے گا کہ اس سسٹم میں آپ کی جگہ بن جائے گی تو آپ اپنے ویژن کو لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں اس وقت آپ کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں ہو گی اور آپ لوگوں کی اور پاکستان کی اس طرح خدمت کر سکیں گے جس کے آپ متمنی تھے پھر لوگ بھی آپ کی بات ماننے پر تیار نظر آئیں گے اور اگر آپ خدانخوستہ دوسرا طریقہ اپنائیں یعنی کے اس سسٹم سے علیحدہ ہو جائیں تو کیا اس سے حالات ٹھیک ہو جائیں گے؟ یقینا نہیں کیونکہ یہ تو آپ بھی جانتے ہیں کہ اب نہیں تو کھبی نہیں کیونکہ وقت کھبی بھی رکتا نہیں اس نے چلتے رہنا ہے اور آپ نے اس کی رفتار کے ساتھ اگر چلنا ہے تو آپ کو اس نظام میں شامل ہونا ہو گاہم پینسٹھ سال کی کوششوں کے باوجود اس ملک کو اس راہ پر نہیں ڈال سکے جس کے لیے اس کو بنایا گیا تھا لامحدود وسائل رکھنے کے باوجود جو کہ دنیا کہ بہت کم ممالک کے حصے میں ہیں ہم آج دوسروں کے رحم و کرم پر ہیں اس کی بنیادی وجہ وہ ہمارا پرانا فرسودہ سیاسی نظام ہے جس میں ہر طرف کرپشن ،اقربا پروری ،میرٹ کی پامالی اور وسائل کا ضیاع اور مسائل کی بہتات ہے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک میں تعمیری سیاست کو فروغ دیا جائے نوجوانوں کو اس نظام میں بطور تازہ خون شامل کرنے کے مثبت اور حقیقی اقدامات کیے جائیں اور منافقت اور منافرت کی سیاست کے بجائے معاملات کو سیاسی اور تعمیری انداز میں حل کیا جائے تاکہ ملک کو ان اندرونی اور بیرونی بحرانوں سے نجات دلوائی جا سکے اس کے لئے کسی ایک فرد کو اکیلے کھبی بھی کامیابی نہیں مل سکتی بلکہ تمام سیاسی جماعتوں خواہ وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں خواہ وہ اسمبلی کے اندر ہوں یا اسمبلی سے باہر اپنا اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہو گا کیونکہ اگر ہم نے اب دیر کر دی تو پھر بہت دیر ہو جائے گی ۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206773 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More