سیرت ِ نبوی کا ایک قابل ِ غور پہلو

انسان کی زندگی عسر اور یسر، آسانیوں اور پریشانیوں کا ایک آمیزہ ہے، عام طور پر انسان کو دو مرحلوں سے واسطہ پڑتا ہے ، پہلے مرحلہ میں وہ کم زور، مالی طور پر غیر مستحکم ، اور دوسروں کی زیادتیوں کا ہدف ہوتا ہے، لوگ اسے ستاتے ہیں ،تنگ کرتے ہیں ،اس کی کم زوری اور بے سر و سامانی سے ناجائز فائدے لینے کی کوشش کرتے ہیں ،پھر ایک وقت آتا ہے جب اس کی حالت پلٹا کھاتی ہے، اس کے پاس پیسہ آجاتا ہے، اسباب و وسائل اس کے قبضے میں ہوتے ہیں، وہ معاشی اور معاشرتی طور پر ایک مضبوط حیثیت کا مالک بن جاتا ہے-کم و بیش انسانوں کی اکثریت کو ان دونوں مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے، اگر ہم ان دونوں مراحل کے متعلق تھوڑا غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دونوں طرح کی صورت ِ حال انسان کے لیے آزمائش ہوتی ہے، تنگی ، کم زوری، بے سر و سامانی ،فقر و فاقہ بھی امتحان ہے، اور قوت و طاقت،سرمایہ، مال و دولت، اختیار و اقتدار بھی ایک ابتلاء ہے -پہلی صورت ِ حال میں انسان اپنی غربت اور فقر و فاقہ کے لیے اپنی عزت ِنفس کو داؤ پر لگا دیتا ہے، بسا اوقات حلال و حرام اور جائز و ناجائز کا فرق مٹا دیتا ہے،صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتا ہے ،دشمنوں اور بد خواہوں کو گالی گلوچ سے نوازتا ہے ،جبکہ دوسرے مرحلہ میں اس کا جی چاہتا ہے کہ میں چن چن کر اپنے پہلے دور کے دشمنوں سے انتقام لوں ، جنہوں نے کل مجھے تنگ کیا،مجھے ستایا،مجھے ناحق تکالیف پہنچائیں ان کا جینا حرام کروں ،غرض یہ دونوں حالتیں ہی انسان کے حق میں ایک امتحان اور ابتلا ء کی حیثیت رکھتی ہیں -

نبیٔ رحمت ﷺ کی مکی زندگی اور مدنی زندگی کے ابتدائی سال آپ کے لیے اور آپ کے پیروکاروں کے لیے عسر، تنگی ،فقرو فاقہ کشی کے ایک لمبے سفر کے سال ہیں ،آپ کو گالیاں دی گئیں ،کانٹے بچھائے گئے، کوڑا پھینکا گیا، حالت ِ نماز میں آپ ﷺ پر اوجھڑی ڈال دی گئی، دندانِ مبارک شہید کیے گئے، پتھراؤ سے جسد اقدس کو زخمی کیا گیا، آپ کے جانثار صحابہ رضی اﷲ عنہم کو چٹائیوں میں لپیٹ کر، رسیوں سے باندھ کر اذیت کا نشانہ بنایا گیایہاں تک کہ آپ ﷺ کو اور آپ کے ساتھیو ں کوو طن چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا، نئے وطن مدینہ منورہ میں بھی سکھ کا سانس نہ لینے دیا گیا ، مکی زندگی میں کسی مسلمان کو انتقامی کارروائی کا یارا نہ تھا، دشمن با اثر بھی تھے اور احساس سے عاری بھی -

پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مکہ ،مدینہ اور ملحقہ علاقوں پر نبی ٔکریم ﷺ کو مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا، مکہ فتح ہو گیا، اسلام کی شوکت کا جھنڈا عرب میں لہرانے لگا، اس وقت نبیٔ کریم ﷺ کی حیثیت مکمل طور پر با اختیار حکم ران کی تھی، آپ ﷺکے اشارۂ ابرو پر کچھ بھی ہو سکتا تھا، آپ کے دیرینہ دشمن آپ کے رحم و کرم پر تھے، پتھر مارنے والے ،گالیاں دینے والے، سازشوں کا جال بچھانے والے، سگے چچاحمزہ رضی اﷲ عنہ کو شہید کر کے کلیجہ تک چباجانے والے سامنے تھے، آ پﷺ ان سے انتقام لے سکتے تھے، انہیں قصاص میں قتل کروا سکتے تھے، ان کی کھوپڑیوں کے مینار اور ہڈیوں کے ہار پرو سکتے تھے ،

لیکن ---------------
نبیٔ کریم ﷺ جنہیں اﷲ تعالی نے ساری انسانیت کے لیے رول ماڈل بنایا تھا ،ان دونوں مرحلوں میں آپ کی اور آپ کے تربیت یافتہ ساتھیوں کی زندگی اعلی ترین انسانی کردار کی کامل تصویر نظر آتی ہے، آپ ﷺنے ظلم و ستم کو استقامت سے برداشت کیا، حق پر ڈٹے رہے مگر ظلم بھی سہتے رہے، حالات کی بہتری کا انتظار کرتے رہے، اپنے پاس آنے والوں کی اخلاقی،علمی ،عملی تربیت کو مضبوط ترین بنیادوں پر استوار فرماتے رہے، انہیں بھی صبر و حوصلہ مندی کی تلقین کرتے رہے، اس وقت بھی آپ کا کردار ،آپ کا رویہ ایک معجزہ سے کسی طور کم نہیں تھا -پھر اقتدار ملا ،حکومت ملی، غلبہ حاصل ہوا تو آپ ﷺنے نامی گرامی دشمنوں کے گھروں کو جائے امن قرار دے دیا، جانی دشمنوں کے لیے آغوش ِ محبت کھول دی، عام معافی کا مژدہ سنا دیا اور یوں رہتی دنیا تک عسر و یسر کی دونو ں حالتوں میں زندگی گزارنے کا قرینہ سکھا دیا،مشکل وقت میں صبر ،حوصلہ، تربیت، منصوبہ بندی ،اور اختیار و اقتدار ملنے پر عفو ،درگزر،فراخ دلی ، ایسے نبی پر کروڑوں سلا م، اربوں سلام ، اتنا سلام جو کسی گنتی میں نہ سما سکے ،کسی شمار میں نہ آسکے -

Muhammad Sohail Ahmed Sialvi
About the Author: Muhammad Sohail Ahmed Sialvi Read More Articles by Muhammad Sohail Ahmed Sialvi: 8 Articles with 8867 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.