کراچی میں بجلی کا بحران 2015ء کے بعد بھی ختم نہیں ہوگا

جب صوبے کا وزیراعلیٰ اس بے بسی کا اظہار کرے کہ کے ایس سی حکام ہمارے فون تک نہیں اٹھاتے تو عام آدمی کیا کرے گا۔ اب تک تو بجلی کی وجہ سے پانی کا مسئلہ تھا۔ اب آٹے کا بھی بحران آنے والا ہے۔ فلور ملیں بھی آج کل بجلی سے چلتی ہیں۔ اگر انہیں بجلی پوری نہ ملی تو وہ پروڈکشن کہاں سے کریں گے۔ اب تو متحدہ قومی موومنٹ کے اراکین اسمبلی، سینٹرز ناظمین نے جو اسمبلیوں یا سینٹ میں اس بارے میں احتجاج کرسکتے تھے انہوں نے بھی عوام کے ساتھ سڑکوں پر احتجاج کرنا شروع کردیا ہے۔ اس بار بجلی کی ستائی ہوئی عوام اس قدر غضبناک ہے کہ بہت سے لیڈروں اور جماعتوں کی لیڈری خطرے میں ہے۔۸۱ جون کو جب کراچی اندھیروں میں ڈوب گیا تھا۔ تو وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھاکہ اگر کے ای ایس سی انتظامیہ نے صدر آصف علی زرداری سے کئے ہوئے وعدے کو پورا نہ کیا تو کے ای ایس سی کو حکومت کی تحویل میں لے لیا جائے گا، بجلی کا بحران سابقہ حکومت کا پیدا کردہ ہے لیکن ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کرتے ہوئے عوام کو ریلیف پہنچائیں گے۔ پیپلز پارٹی کی حکومت بجلی کے بحران کو دور کرنے کیلئے سنجیدہ ہے اسی لئے وفاقی وزیر پانی و بجلی سمیت صدر آصف علی زرداری نے اس مسئلے کے حل کیلئے خصوصی طور پر کراچی کا دورہ کیا اور کے ای ایس سی انتظامیہ کو ایک ماہ میں بحران ختم کرنے کیلئے اقدامات کرنے کی مہلت دی ہے، ابھی صرف دو ہفتے ہی گزرے ہیں، اگر کے ای ایس سی انتظامیہ نے وعدہ خلافی کی تو حکومت فیصلہ کرچکی ہے کہ کے ای ایس سی کو اپنی تحویل میں لے لے پھر چاہے حکومت کو نفع ہو یا نقصان۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 برسوں میں بجلی پیدا کرنے کا ایک بھی پلانٹ نہیں لگایا گیا جس کا خمیازہ آج پوری عوام بجلی کے بحران کی صورت میں بھگت رہی ہے، بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے دور حکومت میں 8000 میگاواٹ بجلی کا کے ٹی بندر پروجیکٹ شروع کیا جس کو بعد میں آنے والی نواز شریف حکومت کے وفاقی وزیر پانی و بجلی چوہدری نثار علی نے بجلی کی ضرورت نہ ہونے کا دعویٰ کر کے بند کرا دیا تھا اگر آج کے ٹی بندر پروجیکٹ مکمل ہوجاتا تو ملک میں بجلی کا بحران پیدا نہیں ہوتا۔ بجلی کا یہ بحران ایک کوئی ایک دن پیدا نہیں ہوا ہے۔ کے ای ایس سی ایک ہاتھی ہے ۔ جو مر کر بھی سوا لاکھ کا ہے۔۵۰۰۲ میں کے ای ایس سی کو جن وعدوں پر نجی شعبے کے حوالے کیا تھا۔ کیا وہ پورے ہوئے۔ جو حلقے کل تک اس ادارے کو نجی شعبے میں دینے کے حامی تھے۔ وہ آج کیوں فیس سیونگ کے لئے سڑکوں پر احتجاج کررہے ہیں۔ کراچی میں بدترین لوڈ شیڈنگ ۶۰۰۲ سے شروع ہوئی تھی۔ اس دوران لوگوں کے احتجاج کا رخ مشرف ہٹاﺅ تحریک کی طرف موڑ دیا گیا۔ ۷۰۰۲ میں زلزلے کے جھٹکے بجلی نہ ہونے کی بنا پر ریکارڈ نہ ہو سکے۔ شہر کی مصروف آئی آئی چندریگر روڈ پر مبینہ طور پر زلزلے کے جھٹکے محسوس کیے گئے اور جب محکمہ موسمیات سے رجوع کیا گیا تو معلوم ہوا کہ دفتر میں بجلی نہ ہونے کی وجہ سے جھٹکوں کو ریکارڈ نہیں کیا گیا۔

محکمے کے عہدے دار نے کہا کہ، انہیں نہیں معلوم کہ زلزلہ آیا بھی تھا کہ نہیں؟۔ ۷۰۰۲ میں بھی شہر میں اوسطاً چھ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی تھی۔ جب کہ نظام میں خرابی کے باعث یہ دورانیہ اکثر زیادہ ہوتا ہے۔

سخت گرمی اور لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے شہری راتیں جاگ کر گزارتے تھے۔ اور اکثر مختلف علاقوں میں ہنگامے ہوتے تھے۔ صورت حال کی سنگینی کا نوٹس لیتے ہوئے سپریم کورٹ کی کراچی رجسٹری نے ’کے اِی ایس سِی‘ کے عملے کو طلب کرکے حالات 20 دِن میں بہتر بنانے کی ہدایت کی تھی۔ روشنیوں کا شہر کہلانے والے کراچی کی سڑکیں اور آبادیاں اندھیروں میں ڈوبی رہتی ہیں۔ اکثر ہسپتالوں میں آپریشنوں کا ملتوی کر دینا معمول بن گیا تھا۔ جون ۹۰۰۲ کر اچی میں بجلی کا بدترین بحران جاری رہا، شام سات بجے کراچی کو بجلی سپلائی کرنے والی جامشورو، حبکو اور دادو ٹرانسمیشن لائن ٹرپ ہونے کی وجہ سے بن قاسم پاور پلانٹ، کورنگی تھرمل پاور پلانٹ، کورنگی اور سائٹ گیس ٹربائن بند ہوگئے جبکہ کے ای یس سی کا نظام درہم برہم ہونے سے کراچی ایٹمی بجلی گھر اور ٹپال، گل احمد سمیت تمام نجی پاور پلانٹس بھی اپنی سپلائی جاری نہ رکھ سکے اسں طرح سارا شہر بجلی سے محروم ہوگیا۔ بن قاسم پاور پلانٹ کے دو یونٹ بند ہونے سے بجلی کا شارٹ فال چھ سو پندرہ میگا واٹ تک پہنچ گیا، اس وقت شہر میں بجلی کی طلب چھ سو پچاسی میگا واٹ اورپیداوار سترہ سو اکتہر میگا واٹ تھی۔ دوسری طرف ’کے اِی ایس سِی‘ اس بات کا شور مچاتی رہی ہے کہ تقسیم کے نظام پر برداشت سے زیادہ بوجھ ہونے کی وجہ سے بڑے بڑے بریک ڈاؤن ہونا معمول بن گئے ہیں۔ ابھی کراچی میں مزید حالات خراب ہوں گے۔ کیوں کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں بجلی کا بحران 2015ء کے بعد بھی ختم نہیں ہوگا۔ ماہرین کے مطابق کے ای ایس سی کی نجی انتظامیہ 2012ء تک کراچی میں بجلی کا بحران ختم کرنے کا دعویٰ کررہی ہے یہ سراسر غلط ہے۔ اس وقت تک بجلی کی طلب میں 20 فیصد سالانہ اضافہ کی شرح سے 60 فیصد اضافہ ہوجائے گا۔ پیداوار میں مشکل سے 15فیصد اضافہ ہوگا۔ ماہرین کے مطابق 2012 تک پیداوار میں 500 میگا واٹ سے کم اضافہ ہوگا۔ اس وقت طلب 2400 میگا واٹ ہے جس میں ایک ہزار میگا واٹ کی کمی ہے جو پوری ہونے کی توقع نہیں ہے۔ کے ای ایس سی کے سینئر انجینئرز کی رائے میں بجلی کے بحران سے کراچی کو آئندہ چھ سال تک نجات نہیں ملے گی۔ اس صورتحال میں جو کچھ ہورہا ہے۔ وہ طفل تسلیاں ہیں۔ موسم بہتر ہوگا۔ لوگ بجلی اور کے ایس سی کو بھول جائیں گے، اگلے برس پھر یہی ہوگا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 392014 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More