مجاہد اور شہید

قوم کے درد مندوں کو مبارک ہو کہ طالبان نے حکیم اﷲ مسعود کی موت سے پیدا ہونے والا خلا پورا کر لیا ہے۔ طالبان کی شوریٰ نے مولانا صوفی محمد کے داماد اور سوات کے طالبان کے لیڈر ملا فضل اﷲ کو تحریکِ طالبان پاکستان کا نیا سربراہ چُن لیا ہے۔ مجاہد ملا فضل اﷲ کا کمال یہ ہے کہ اُس نے سوات کے علاقے میں پاکستان اور پاکستانی قوم کے خلاف ایک نفرت انگیز مہم چلائی۔ حکومتِ پاکستان کی رٹ کو چیلنج کیا اور سوات کے علاقے میں اپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ حکومت قائم کرلی۔ یہ سب کچھ اس قدر منظم تھا کہ 2009ء میں اگر فوج ایک بڑا آپریشن نہ کرتی تو سوات آج پاکستان کا حصہ نہ ہوتا۔ ملا فضل اﷲ سوات کے ایک چھوٹے سے گاؤں کی مسجد کا اِمام تھا مگر جرائم پیشہ افراد کی مدد سے اُس نے سوات میں حکومت کے خلاف بھرپور تخریبی کارروائی کی۔ مگر آپریشن کے بعد افغانستان کے صوبے نورستان چلا گیا۔ حکومت کی طرف سے اس عظیم مجاہد کے سر کی قیمت پہلے 50لاکھ تھی جو بعد میں بڑھا کر 5کروڑ کردی گئی۔ مجاہد ملا فضل اﷲ حکومتِ پاکستان کی انتہائی مطلوب افراد کی لسٹ میں شامل ہے۔ ملا فضل اﷲ کو مجاہد کہنے پر ہوسکتا ہے کچھ لوگ مجھ سے ناراض ہوں لیکن حکیم اﷲ مسعود اگر شہید ہوسکتا ہے ،تو ملا فضل کو مجاہد کیو ں نہیں کہا جاسکتا۔

مولانا فضل الرحمان بضدہیں کہ حکیم اﷲ مسعود شہید ہے۔ اُن کے بقول امریکا ایک کتا بھی مارے تو میں اُسے شہید ہی کہوں گا۔ ہمارے مذہبی راہنماؤں کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ وہ کچھ بھی کہہ دیں لوگ اُسے من و عن قبول کرتے ہیں یا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔ یہ اعزاز صرف مذہبی ہی نہیں کچھ اور مُعتبرلوگوں کو بھی حاصل ہے۔ یہی بات کسی اور نے کہی ہوتی تو اب تک کئی جلوس نکل چکے ہوتے اُس شخص کو کافر اور نہ جانے کیا کچھ قرار دیا جاچکا ہوتا مگر مولانا فضل الرحمان تو سراپا اسلام ہیں۔ اسلئیے اُن کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں معاملہ اُلٹا ہے۔ احتجاجاً کچھ کہنے والا شخص مذہب کی توہین میں قابو آسکتا ہے۔ اور کون بدبخت خود پر کوئی ایسا الزام لینے کا حوصلہ کر سکتا ہے۔

1947ء میں اس ملک کو آزادی ملی تھی۔ مگر اس آزادی کا فائدہ پوری طرح اگر کسی نے اُٹھایا تو وہ ہیں ہمارے مذہبی حلقے۔ ہمارے سیاسی لو گ۔ہمارے عدالتی لوگ۔ہمارے بااثر لوگ عام آدمی کی زندگی کل بھی تلخ تھی اور آج بھی بہت تلخ ہے۔اگر آپ بااثر نہیں ہیں۔ آپ کا تعلق عوام سے ہے آپ جو بات صحیح اور سچ سمجھتے ہیں اُسے پوری دیانتداری سے کہہ دیتے ہیں تو اس آزادی کی آپ کو قیمت ادا کرنی پڑتی ہے کیونکہ آزاد طبقے سے آپ کا تعلق نہیں ہے کہیں توہین ِ مذہب، کہیں توہینِ عدالت، کہیں توہینِ حکومت ان سب چیزوں نے آپ کو باندھ رکھا ہے۔ آپ کل بھی انگریزوں کے غلام تھے اور آج بھی کچھ کالے انگریزوں کے غلام۔

پاکستان بننے سے کچھ پہلے کا واقعہ ہے کہ دو کرسچین ایک سڑک پر جھاڑو دے رہے تھے کہ ایک جلوس آزادی کے نعرے لگاتا ہوا سامنے کی سڑک سے گزرا۔ جھاڑو دینے والوں میں سے ایک نے حیران ہو کر پوچھا کہ یہ کیا نعرے لگا رہے ہیں اور جلوس کیوں نکلا ہوا ہے؟ دوسرے نے مسکرا کر کہا: ’’ پاگل ہیں، ہم سے آزادی مانگ رہے ہیں۔‘‘ اُس جھاڑو دینے والے کا جتنا تعلق انگریزوں کی اُس حکومت سے تھا۔ بس تقریباً وہی تعلق ہمارا ابھی موجودہ حکومتوں سے ہے۔ عملاً کچھ لوگ ہیں جو ملک کے تمام وسائل پر قابض ہیں اور یہ ملک اُن کے لئے جنت ہے۔ باقی لوگ اس جہنم میں زندگی کے دن ہیں کہ بس پورے کر رہے ہیں۔

ملک کی موجودہ ابتر صورتحال کی سب سے زیادہ ذمہ داری ہمارے مذہبی حلقوں پر ہے کہ وہ لوگ حقیقت کا اِدراک ہی نہیں کرتے۔ آج تحمل، بردباری اور برداشت کی بہت زیادہ ضرورت ہے مگر ہم نفرتوں کو ہوا دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ کا ارشاد ہے کہ صوبے کے بہت سے حصوں میں حکومت کی کوئی رٹ نہیں۔ میں سلام پیش کرتا ہوں کہ اک شخص نے سچ کہنے کی ابتدا کی۔ اسلئیے کہ کسی بھی چیز یا مسئلے کا حل اُسی صورت میں ممکن ہوتا ہے کہ ہم پہلے اُس مسئلے کو مسئلہ مانیں اورپھر اُس کا حل تلاش کریں۔ مسائل کو لوگوں کی نظروں سے چھپانا مسائل کو ہوا دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ کراچی کے علاقوں میں حکومت کو اپنی رٹ دوبارہ قائم کرنے کے لئے ایک لمبا چوڑا اپریشن کرنا پڑ رہا ہے۔ اﷲ کرے ہم سرخرو ہوں۔ خیبر پختونخواہ میں بھی بہت سے علاقے ایسے ہیں جہاں حکومتی رٹ بہت کمزور ہے۔ پنجاب میں بظاہر حکومت بہت توانا ہے مگر چھوٹ چھوٹے علاقوں میں بدمعاشوں نے اپنا تسلط اس طرح قائم کررکھا ہے کہ عام آدمی کا وہاں جانا محال ہے۔ ان ساری چیزوں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹا جاتاہے۔ مگر ہمیں پرواہ نہیں۔ بہت سے علاقے ہاتھ سے نکلا چاہتے ہیں مگر ہم کشمیرکو آزاد کرانے میں مگن ہیں۔

حکومت طالبان سے مذکرات کرنا چاہتی ہے طالبان ہمارے بھائی ہیں تو بتایا جائے کہ بھائیوں نے، ہم سے بھائیوں والا کیا سلوک کیا ہے؟ طالبان اگر باغی ہیں تو باغی کس چیز کے حصہ دار ہوتے ہیں اس سلسلے میں دنیا کے کچھ مسلمہ اصول ہیں۔ باغیوں سے وہی سلوک کیا جائے تو دنیا بھر میں اقوام اپنے باغیوں سے کرتی ہیں۔ ڈرون حملے وزیرستان میں ہو رہے ہیں جہاں حکومت پاکستان کی فی الحال کچھ حیثیت نہیں۔ ماسوائے اس کے کہ جغرافیائی لحاظ سے یہ علاقہ پاکستان کا حصہ ہے۔ جنگ امریکا اور پاکستان میں نہیں امریکا اور طالبان میں ہو رہی ہے۔ اگر طالبان جیت گئے ،تو یہ علاقہ طالبان کا علاقہ ہوگا۔ طالبان کی آزاد مملکت۔ حکومت ِ پاکستان اگر مذاکرات کرتی ہے تو وہ موجودہ حالات میں ایک کمزور فریق ہوگی۔ جبکہ طالبان ایک طاقتور اور منہ زور فریق۔ کیا حکومت اُن کی آزادی مان لے گی۔ اُن کے مطالبات کے آگے سرجھکا دے گی؟ بہر حال حکومت کے ارسطو اس صورتحال کو بہتر سمجھتے ہونگے۔ میرے خیال میں حکومتیں جرأت ، طاقت اور حکمت کے اصول پر چلتی اور قائم رہتی ہیں۔جن میں سے کوئی بھی جوہر موجودہ لوگوں میں نظر نہیں آتا۔ کمزوروں کا آخری حربہ دعا ہے۔ بس رب العزت سے دعا ہی کی جاسکتی ہے۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 447597 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More