قرآنی فریاد (قسط نمبر3)

جب میں اس عالمی قرآنی مقابلے کے بارے میں سوچ رہا تھا اور سوچ ہی سوچ میں اپنے سربراہانِ مملکت کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان کے سامنے اس کی سمری کو رکھ دی تو انہیں ہنسی آئی اور کہنے لگے کہ سامیؔ جی اس جدت پسندی، روشن خیالی اور نت نئی جذب ومستی کی محفلوں کے دور میں یہ تو رجعت پسندی اور فرسودہ خیالی سے کم نہیں ہے۔ ویسے بھی ہمارے پاس اتنا وقت بھی کہاں اور فحاشی وعریانی کی تقریبات سے فراغت مل گئی تبھی تو بات ہے۔ اور اس کا نتیجہ بھی بجلد ہمارے سامنے آشکار ہوا ہے کہ مملکت خداداد پاکستان کی سابقہ حکومت کی سب سے اہم پرسنلٹی اور روحِ رواں رکن وزیر داخلہ بابا رحمان نے یہ واضح کر کے دنیا کو دکھایا کہ ہماری قیادت کو کلامِ الٰہی کے ساتھ کتنا لگاؤ اور علاقہ ہے۔ جب عبدالرحمان صاحب نے کابینہ کے اجلاس میں تمام وزراء کے سامنے سورۂ اخلاص کی تلاوت شروع کی اور وہ کئی بار لقمہ دے کر دھکا سٹارٹ کرنے کے باوجود بھی (اس کے ہاں) اتنی لمبی اور مشکل سورت کی تلاوت لم یلد سے آگے مکمل نہیں کر سکا۔ ساتھ ہی بلا جھجک یہ ارشاد فرما کر مزید بے شرمی کا ثبوت پیش کیا کہ (میں حافظ قرآن تھوڑا ہوں کہ سورۂ اخلاص کی تلاوت مکمل کروں)۔ گویا اس کے ہاں یہ بالکل مقبول عذر ہے، حالانکہ تین چار سال کے بچوں کو بھی اس جیسی چھوٹی سورتیں ازبر یاد ہوتی ہیں۔

پاکستانیو! اس پر ستم ظریفی دیکھیں کہ ایک افغانی لڑکے نے اسی ویڈیو کو فیس بک پرکویت میں مقیم سکالر شپ سٹوڈنٹس کے گروپ میں شیئر کیا تھا اور اس پر مستزاد یہ لکھا تھا کہ اسلامی مملکت پاکستان کے وزیر داخلہ کو سورۂ اخلاص تک یاد نہیں ہے اور ایک لمبا قہقہہ بھی حروف میں لگایا تھا، اس کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آیا اور اس حقیقت سے انکار کی کوئی راہ نہیں ملی۔ اس طرح مجھے وزیر صاحب کے اپنی قوم کی پیشانی پر لگایا ہوا کالک کا ٹیکا نمایاں طور پر نظر آیا اور اسے دھو کر اس کا کوئی جواب نہیں دے سکا۔ بابا رحمان کے بعد اعتزاز احسن جیسے دانشور سیاست دان بھی "سورہ اخلاص" کی تلاوت مکمل نہ کر سکا، اس کے بعد تیسری اہم شخصیت نے بھی ایسا ہی کارنامہ سر انجام دیا۔ اس کے ساتھ پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی تین وکٹیں "سورہ اخلاص" پر گر گئیں اسے پی پی پی کی تاریخ میں شرمناک" ہیٹ ٹریک "کے نام سے یاد رکھا جائے گا۔

یہاں پر ایک اور بات ذہن کے دروازے پر دستک دے رہی ہے اسے بھی آپ کے ساتھ شیئر کرتا چلوں، وہ یہ ہے کہ" أعمالکم عمالکم" جیسے تمہارے اعمال ہوں گے ویسے ہی تمہارے حکمران ہونگے۔ ہمیں اپنے اعمال پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ مگر جب یہ مثل سامنے آئی " الناس علی دین ملوکھم" عوام اپنے حکمرانوں کے دین پر ہوتے ہیں، جیسی لیڈر شپ ویسی قوم ۔ تو جسم میں خوف وہراس کی سرسراہٹ سی دوڑ گئی، اور سراپا دست بدعا ہو گیا کہ یا اللہ! ہمارے ایوانِ بالا کے مکینوں کی یہ حالتِ زار ہے، مگر تو ہمارے سفہاء کے کرتوت کی وجہ سے عذابِ عام میں ہم سب کو مبتلا نہ کریں، ہماری اور ہمارے اہلِ حل وعقد کی اصلاح فرمائیں۔

ہم اپنے معاشرے پر ایک سرسری سی نظر دوڑائیں تو آپ کو اس غیرِ متوقع امر سے دوچار ہونا پڑے گا، کہ اس مسلم معاشرے میں قرآن کریم کے ساتھ ایک سلوکِ ناروا اپنایا ہوا ہے جو کہ اس کے شایانِ شان نہیں ہے۔ ہر گھر میں والدین اپنی اولاد کی تعلیم وتربیت میںہمہ تن مصروف رہتے ہیں اور یہ مستحسن امر ہے، ہر سبجیکٹ کی ٹیویشن کے لئے خواہ انگلش کا ہو یا ٹیکنالوجی کا، کیمسٹری کا ہو یا بیالوجی کا، ریاضی کا ہو یا سیکولوجی کا، فزکس کا ہو یا سوشیالوجی کا المختصر ہر مضمون کے لئے تجربہ کار ٹیوٹر کو سلیکٹ کرتے ہیں اور ان کو منہ مانگی تنخواہیں ماہانہ ادا کرتے ہیں۔ مگر صد افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جب اس عظیم کلامِ ربانی کی باری آتی ہے تو اسے اس طرح سے پڑھایا اور سکھایا نہیں جاتا ہے، جس طرح دوسری کتابیں پڑھائی اور سکھائی جاتی ہیں، اسے پڑھانے کے لئے شیڈول میں ٹائم بھی نکالنا مشکل ہو جاتا ہے اور اسے پڑھانے والے قاری اور استاد محترم کو دینے کے لئے چند کوڑیاں بھی نا قابلِ برداشت حد تک ایک چٹی سمجھی جاتی ہے جو کہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔

ہونا تو یہ چاہئے کہ والدین اپنے بچوں کو قرآن حمید کی تعالیم سے روشناس کرانا اولین دینی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے اسے خاص اہمیت اور وقعت دیں۔ اس پر کافی انرجی صرف کریں۔ دوسرے مضامین پر فوقیت نہیں دے سکتے ہیں تو کم از کم جس طرح فزکس، کیمسٹری اور بیالوجی سکھائی جاتی ہے، اسی طرح فرقانِ مجید کو بھی سکھائیں، اس کے معانی ومطالب سمجھائیں۔ تاکہ کل کلاں کو یہی بچے دنیا میں لوگوں کے سامنے اور آخرت میں رب کریم کے سامنے ان کی سرخروئی کا باعث اور کامرانی کا سبب بن جائیں۔ بصورتِ دیگر کل سزا وجزا کے دن گتھم گتھی اور کشتم کشتی ہو گی اولاد کے ہاتھ ہوں گے اور آپ کے گریباں، فیصلہ آپ کے خلاف صادر ہو گا کیونکہ اولاد کو اسلامی تعلیم دلوانا والدین کے فرائض میں سے ہے، جس سے غفلت برتنے پر سزا تو بھگتنا ہی پڑے گی۔

آج کل قرآنِ کریم کو اکثر مسلمان بہت قیمتی ریشمی غلافوں میں پیک کر کے کمرے کی سب سے اونچی جگہ پر رکھتے ہیں اور بھول کر بھی اس تلک ہاتھ نہیں پہنچتا ہے اور دل ہی دل میں خوش ہوتا ہے کہ میں نے اپنی محبت کا بھرم رکھا ہے۔ شعبہائے زندگی میں اسے پس پشت ڈالتا ہے مگر جب کوئی فرد بیمار ہو جائے یا کسی کی فوتگی ہو جائے تو فورا قرآن کی یاد آجاتی ہے۔ مختلف پروگرامز اور فیسٹیولز کا آغاز تبرکا تلاوت کلام پاک سے کیا جاتا ہے اور بزعم خویش یہ سمجھ بیٹھتا ہے کہ اس نے قرآن کا کما حقہ حق ادا کر دیا ہے، یہی وجہ ہے کہ یوم جزا وسزا کو رسول مکرم ﷺ اپنی امت کے خلاف استغاثہ دائر فرمائیں گے کہ انہوں نے کتاب مقدس کو چھوڑ رکھا تھا: {وقال الرسول یا رب اٖن قومي اتخذوا ھذا القرآن مھجورا} (الفرقان:30) قرآن پر ایمان نہ لانا، اسپر عمل نہ کرنا، اس کو نہ سیکھنا، تلاوت نہ کرنا، اسپر غور وفکر نہ کرنا اور اسکے اوامر و نواہی کی پاسداری نہ کرنا بھی ہجرانِ قرآن میں شامل ہے۔ معروف شاعر منظور حسین ماہرؔ القادری نے اپنی شاہکار نظم " قرآن کی فریاد" میں انہی حالات کی خوب تصویر کشی کی ہے اور قرآنی فریاد کو ہم تلک پہنچا دی ہے۔ جسکا مطلع ہے ؎
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں، آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں

آج کل ہم محرم الحرام کے ایام گزار رہے ہیں،یہ مہینہ چار اشہرِ حرم (حرمت والے مہینوں) میں سے ہے، اسے شہر اللہ المحرم کہا گیا ہے۔ اس میں تجدیدِ عہد کرنا چاہئے کہ ہر مسلمان اپنی حیثیت اور طاقت کے مطابق قرآن کی خدمت کرے۔ روزانہ تلاوت کو اپنا معمول بنانا چاہئے، گھروں میں بچوں کے ما بین مقابلہ کرانا چاہئے۔ ہمارے سکولز، کالجز اور یونیورسٹیز میں قرآن کے مضامین سلیبس میں شامل کرنا ضروری ہے۔ ہر لیول پر تعلیماتِ قرآنی عام کرنا چاہئے۔ ہر گاؤں، قصبوں، دیہاتوں، شہروں اور صوبوں میں قائم تحفیظ القرآن کے مراکز کی ہر ضروریات کو پوری کرنے میں کوشاں رہنا ہو گا۔ ملکی قانون، آئین اور لاء کی تمام شقیں، آرٹیکلز اور آرڈیننس کو قرآن کے احکامات اور تعلیمات کے مطابق بنانا چاہئے تاکہ پاکستان کا مطلب کیا لا اٖلہ اٖلا اللہ کا شرمندہ تعبیر ہو سکے۔ کوئی بد خواہ بھول کر بھی سرزمین پاک کے کسی بھی کونے میں ایسی کتاب لکھنے کی جرات نہ کر سکے جس میں قرآن کے متعلق شکوک وشبہات پھیلانے کی مذموم کوشش کی جائے، بصورتِ دیگر ایسے بدخواہوں کو کڑی سے کڑی سزا ملنی چاہئے۔

یہاں پر میں اپنے گلگت بلتستان کے عہدیداران بالخصوص وزیر اعلی مہدی شاہ صاحب سے بھی استدعا کرتا ہوں کہ گلگت بلتستان لیول پر بھی سالانہ قرآن کے حفظ وتلاوت اور تجوید کے ایک مقابلے کا اہتمام بالضرور کیا جائے، تاکہ علاقے میں طالبانِ قرآن اور عالمانِ فرقان کی حوصلہ افزائی ہو سکے۔ ساتھ ہی درخواست ہے کہ اسلامی خصوصا قرآن کے چینلز کو کیبل پر براڈ کاسٹ کرنے کی نوٹیفکیشن جاری کریں، کیونکہ جب مجھے یہ پتہ چلا کہ سکردو میں "Peace TV"چینلز کو کیبل سے ہی ڈیلیٹ کیا گیا ہے تو شسدر وحیران رہ گیا، آخر ایسا کیوں کیا ہے؟! اگر کوئی غلط بیانی کی ہو تو علمی دلائل وبراہین کے بل بوتےتفنید وتردید کی جا سکتی ہے۔ لہذا ذمہ داران سے گزارش ہے کہ اس علاقے میں اقلیات بھی رہتی ہیں، کم از کم ان کے حقوق کا خیال رکھنا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے۔

بایں ہمہ ودیگر اسبابِ غیرِ مذکور چند مندرجہ ذیل امور اور (Most Important Achievements) کے حصول کے لئے انفرادی اور اجتماعی سطح پر تگ ودو کرنا ناگزیر ہے تاکہ زندگی کے ہر شعبے میں قرآن وسنت کی بالا دستی ہو جائے اور اللہ رب العزت کی خوشنودی اور رضامندی کا حصول ممکن ہو سکے۔ چند ایک ضروری نکات آپ کی خدمت میں بطورِ تجویز حاضر ہیں:
٭ مختلف مراحلِ عمری، علمی اور زندگی والوں کے دلوں میں قرآن پاک کی تلاوت اور حفظ کرنے کا لگن اور شوق پیدا کرنا۔
٭ وحی الہی کی تعلیمات پر غور وفکر اور تدبر وتفکر کرنے کا جذبہ اورذوق پیدا کرنا۔
٭ اس میں موجود اسلامی اقدار واخلاق کو عملی زندگی میں رسوخ واستقلال بخشنا۔
٭ اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو اس کے سانچے میں ڈھالنے کی حتی الوسع کاوش کرنا۔
٭ حکومتی اور نجی سطح پر قرآن کریم کے حفظ کو فروغ دینا، گاؤں اور قصبوں میں حفظ کے مراکز کا قیام عمل میں لانا ۔
٭ قرآن کی معنوی اور مادی طور پر تعلیمات اور احکامات کی تبلیغ اور نشر واشاعت کرنے میں حکومتی اور نجی اداروںکے ما بین تعلقات مضبوط کرنا۔
٭ کتاب وسنت کی صحیح معنوں میں خدمات سر انجام دینے والے اداروں اور مدارس کے ساتھ مادی اور معنوی تعاون کرنا، اور ان کی راہوں میں حائل رکاوٹوں کو ہٹانا۔
٭ عالمی سطح پر جید اور ممتاز قراء اور حفاظ کی ایک ٹیم تیار کرنا۔
٭ آیاتِ قرآنی کا ترجمہ، تشریح اور تفسیر فرموداتِ نبوی اور فہمِ صحابہ کرام کی روشنی میں کرنا۔
٭ سنت ِ نبوی کو کتاب اللہ کے بعد شریعت کے مصدر ثانی کا درجہ دینا، اس سے انکار قابل بازپرس گرداننا۔
٭ اہلِ قرآن کو معاشرے میں ان کا مقام دینا، اور بے جا ان کے خلاف طعن وتشنیع سے بچنا۔
٭ سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے (Syllabus) میں قرآن کریم کو بطورِ (Compulsory Subject) شامل کرنا سب سے اہم اور نہایت ضروری امر ہے۔
٭ میڈیا ( پرنٹ، الیکٹرانک، انٹرنیٹ، سوشل نیٹ ورکس، فیس بک اور ٹیوٹر وغیرہ) میں ہر سطح پر کتاب وسنت کا پرچار کرنا۔

تب جا کر نظریہ پاکستان اور آئین پاکستان کلامِ ربانی کی تعلیمات اور محمد عربی ﷺ کے فرمودات کے موافق ہو سکے گا۔ کیونکہ قرآن پاک اس کرۂ ارض پر ہر مسلمان پر اللہ اور رسول ﷺکے قانون کے نفاذ کی ذمہ داری عائد کرتا ہے، اور اسلامی قوانین کی روشنی میں ہی پاکستان کو اسلامی ریاست ہونے کا درجہ مل سکتا ہے۔ پاکستان وہ واحد ملک ہے جسے کتاب وسنت کے قانون کی بالادستی کے لئے حاصل کیا گیا ہے۔ لہذا اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ یہاں پر رائج قوانین بھی کتاب وسنت کے عین مطابق ہوں۔آخر میں ایک بار پھر اقبال کا شعر دہرانا چاہتا ہوں جو کہ ہم پر صادق آتا ہے ؎
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کو قرآن وحدیث کی تعلیمات کی روشنی میں گزارنے اور اپنی پوری زندگی کو شرعی قالب اور اسلامی ڈھانچے میں ڈھالنے کی توفیق مرحمت فرمائے، آمین ثم آمین۔
 
Yasin Sami
About the Author: Yasin Sami Read More Articles by Yasin Sami: 9 Articles with 9036 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.