نئے صوبوں کا قیام کیوں ضروری

نواز لیگ حکومت کب کی قائم ہو کر اب معمول پر آچکی، غریب عوام کو اپنی معاشی حالت تبدیل ہوتے تو نظر نہیں آرہی کیونکہ غریب اپنے معاشی معاملات میں پھنسے انہیں غرض ہی نہیں کہ ملک کا صدر و وزیر اعظم کون ہے ،وزیر و مشیر کون اور کس جماعت کے ہیں کیونکہ یہ تو آٹا ،دال چاول کے بھاؤ تاؤ ، بجلی ،گیس ،پانی و دیگر بلات تلے دبے ہوئے ہیں۔ یہ غرض تو انکو ہوتی ہے جنہوں نے سیاسی بنیادوں پر بنکوں سے بھاری قرضے لے رکھے ہوتے ہیں یا جن کی ایڈجسٹمنٹ سیاسی وابستگیو ں سے مشروط ہوتی ہیں ۔عام تاثر یہ ہے کہ نوا لیگ حکومت کے ان تین،چار ماہ میں جہاں ملک میں موجود مسائل جن میں دہشت گردی ،مہنگائی ،بے روزگاری شامل ہیں میں مزید اضافہ دیکھنے کو آیا وہاں نئے صوبے بنائے جانے جیسے اہم قومی ایشوز پر بھی حکومت اب تک کوئی اہم قدم اٹھاتے ہوئے نظر نہیں آرہی ۔ عام انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب میں سرائیکی صوبہ اور خیبر پختونخوا میں ہزارہ صوبہ بنانے کا عوامی مطالبہ سامنے آیا تھا ، تب مسلم لیگ ن نے لسانی بنیادوں پر کوئی بھی صوبہ بنانے کی مخالفت کی تھی اور انتظامی بنیادوں پر ہزارہ اور جنوبی پنجاب کے صوبوں کے قیام کو قابل عمل قرار دیا تھا۔ پنجاب سے دویا تین صوبے بنائے جا سکتے ہیں کیونکہ بہاولپور اور ملتان وغیرہ کے علاقوں سے صوبائی دارالحکومت لاہور کافا صلہ بہت طویل ہے اور ملتان یا بہاولپور کو وہاں کا نیا صوبہ بنانے کے بعد اسکا دارالحکومت بنانے سے وہاں دور دراز علاقوں کے لوگوں کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ پھر ان علاقوں میں قائم ہونے والی نئی صوبائی حکومت اپنے ان علاقوں کی تعمیر و ترقی پر الگ سے بہتر طور پر توجہ بھی دے سکتی ہے۔ پنجاب کو تقسیم کرکے اسے دو یا تین نسبتا چھوٹے صوبوں میں تقسیم کرنے کا جواز یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ اس طرح پنجاب کے بڑا صوبہ ہونے سے اس کی طاقت اور غلبے کا احساس دوسرے صوبوں پر ختم ہوجائے گا۔ہزارہ صوبہ بناؤ تحریک کے دوران ہزارہ کے لوگ ایبٹ آباد کو اپنا صوبائی دارالحکومت بنا کر اپنی ترقی اور سہولت کو بنیاد بناتے ہوئے علیحدہ صوبے کا مطالبہ کر تے آئے ہیں ۔ ہزارہ کو صوبہ بنائے جانے کا مطالبہ کرنے والوں کا موقف یہ سامنے آتا رہا ہے کہ انکے موجودہ صوبے کے نام کے ساتھ پختونخوا ہ لگا کر صوبے میں ایک لسانی گروہ کا تسلط و غلبہ تسلیم کرلیا گیا ہے جبکہ ان کے علاقے غیر پختون ہیں جن پر مشتمل ہزارہ کے نام سے ایک الگ صوبہ قائم ہونا چاہیے تاکہ یہاں کے لوگ احساس کمتری سے آزاد ہوسکیں۔ لسانی بنیاد پرصوبے کا قیام شاید اس وقت ممکن نہیں لیکن وہاں عوامی مطالبہ پر انتظامی بنیادوں پر صوبہ قائم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں بلوچوں کے علاوہ پختونو ں کی ایک بڑی تعداد بھی آباد ہے ، بعض علاقوں میں دوسری نسلوں کے لوگ بھی بڑی تعداد میں موجود ہیں ،یہاں ایک رائے یہ بھی دی جارہی ہے کہ بلوچستان کے اندر پختونوں کی اکثریت والے علاقوں کو ملا کر الگ صوبہ قائم کردیا جائے۔ یہاں ایک بات یہ بھی سامنے آتی ہے کہ لسانی بنیادوں پر نئے صوبوں کے قیام کی مخالفت میں ایک بہت مضبوط رائے بھی موجود ہے، مخالف آراء والوں کے مطابق پاکستان میں نسلی یا لسانی بنیاد پر الگ صوبوں کے قیام کو قومی اتحاد و یک جہتی اور ملکی استحکام کے لئے نقصان دہ قرار دیا جاتا ہے ۔ یہاں ایک بات اور بھی اہم ہے کہ نئے صوبے بنانے کے مطالبات اکثران لوگوں کی طرف سے کیے جاتے ہیں جو قومی سطح کی بجائے علاقائی سطح پر اپنی سیاسی اہمیت چمکائے رکھنا چاہتے ہیں اور نئے صوبے بننے کی صورت میں انہیں اپنی بہتر ایڈجسٹمنٹ ہوتی دکھائی نظر آتی ہے۔ان مفاد پرستوں کو دیکھتے ہوئے عوامی مفاد کو سائیڈ لائن بھی نہیں کیا جا سکتا۔ ایک اور رائے یہ بھی سامنے آتی ہے کہ پاکستان سے چھوٹے ملک افغانستان میں اگر پچاس سے بھی زیادہ صوبے موجود ہیں تو ہمارے ہاں انتظامی سہولت کے لئے زیادہ صوبے بنانے میں کیا ہرج ہے۔ ؟ سوال اٹھایا جا سکتا ہے کہ کیوں نہ موجودہ تمام ڈویژنوں کو صوبوں میں تقسیم کردیا جائے۔؟ اس طرح سے صوبائیت کا مسئلہ ہی ختم ہوجائے گا۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ زیادہ صوبے بنانے سے صوبائیت کی کوئی اہمیت نہیں رہے گی عوام کو زیادہ سہولیات دہلیزز پر حاصل ہو جائیں گی اور اسکے بعد عوامی سطح پر صرف پاکستانیت اور قومیت کو اہمیت حاصل ہوجائے گی۔ ہر علاقے میں اپنی صوبائی حکومت قائم ہونے سے لوگوں کو حکومت اپنے زیادہ قریب محسوس ہوگی اورمسائل زیادہ بہتر طریقے سے حل ہوسکیں گے۔اس تصور کو عملی جامہ پہنانے کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں بھی بتائی جاتی ہیں ۔ نئے صوبے نہ بنائے جانے کا جواز اس وقت ملک کے موجودہ مشکل حالت بتائی جا رہی ہے کہا جا رہا ہے کہ ڈرون حملے ،سیز فائیر لائن کی خلاف ورزیاں ، دہشت گردی کے واقعات اور جرائم کی بڑھتی ہوئی موجودہ صورتحال میں نہ تو مالی طور پر ملک ایسی کسی بڑی تبدیلی کا متحمل نظر آتا ہے نہ ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبے قومی معاشی بد حالی اس کی اجازت دے رہی ہے اس کی وضاحت اس طرح کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ نئے صوبوں کی نئی انتظامیہ ، پولیس ، محکموں کی تقسیم اور پھر ان کے الگ الگ ہیڈ کوارٹرز اور سیکرٹریٹ اور تمام صوبوں میں صوبائی وزراء، اسمبلیوں اور سیکرٹریز وغیرہ کے شاہانہ قسم کے نئے اخراجات و پروٹوکول برداشت کیے جا سکتے ہیں۔ جب صوبے تعلیم، پولیس اور صحت وغیرہ کے الگ محکمے قائم کریں گے تو ہر صوبے کو اپنی پولیس اوردیگر ادارے الگ سے قائم کرنے پڑیں گے۔جبکہ نئے صوبوں کا قیام اس لیے بھی ضر وری ہے کیونکہ دہشت گردی او ر جرائم کی بڑھتی ہوئی تعدا داب معمول بن چکی،ڈرون حملوں کو نئے صوبے بننے سے فرق نہیں پڑتا، دہشت گردی کی روک تھام اور معاشی بد حالی کے دور میں نئے روزگار کے پیش نظرآبادی کو انتظامی طور پر سنبھالنے کیلئے نئے صوبے بنا کر مقامی انتظامیہ کے ذریعے کنٹرول کرنا اور روزگار فراہم کرنا قدرے آسان ہو سکتا ہے۔ ملکی حالات اس وقت جیسے بھی ہوں لیکن عوامی سہولت اور انتظامی بہتری کے لئے نئے صوبوں کا قیام ضروری ہے ۔ اس کے لئے ہماری معیشت کو خوب مضبوط اور وسیع ہوناتو پڑے گا لیکن اس سے بھی اہم اداروں کو باہم تعاون اور روابط میں روانی اور اثر پذیری پیدا کرنا ہوگی۔ عوام اور حکومتی اداروں میں تعاون اور ہم آہنگی بڑھائی جانا ضروری ہے۔اس کیلئے معاشی خوش حالی اْس حد تک اہمیت نہیں رکھتی جوکہ بتائی جا رہی ہے کیونکہ اگر مسائل کم کرنے کیلئے مخلصی سے قومی مفاد میں کام کیا جائے تو نئے صوبوں کی نئی انتظامیہ ، پولیس ، محکموں کی تقسیم اور پھر ان کے الگ الگ ہیڈ کوارٹرز اور سیکرٹریٹ اور تمام صوبوں میں صوبائی وزراء، اسمبلیوں اور سیکرٹریز وغیرہ کوکسی قدر قربانی تو دینا ہو گی اور انہیں کم وسائل میں افسر شاہی سے نکل کر کام کرنا ہو گا ۔معاشی مسئلہ اہم ضرور ہے لیکن جس صوبے سے یہ الگ ہونگے وہاں سے اپنی آبادی و رقبے کے لحاظ سے فنڈز ان کو حاصل ہو جائیں گے جبکہ نئی بھرتیاں کرنے کی بجائے اپنی علاقائیت کی بنیاد پر ملازمین کو بھی اپنے کنٹرول میں لے سکتے ہیں ۔اس لیے معاشی مفلوجی کو رونا روتے ہوئے عوام کو نئے صوبوں کی سہولیات سے محروم رکھنا درست نہیں۔اس کیلئے ضروری ہے کہ مختلف سیاسی جماعتوں کے ممبران جو قومی و صوبائی اسمبلیاں میں موجود ہیں نئے صوبے بنانے کیلئے آئینی معاملات بہتر طور پر مل بیٹھ کر حل کریں اور نئے صوبوں کی راہ میں رکاوٹیں دور کرتے ہوئے قومی و عوامی مفاد میں نئے صوبوں کو آبادی کے تناسب سے انتظامی طور پر پرکھتے ہوئے بنانے کے اقدامات کریں کیونکہ ملک کے مسائل تبھی حل ہونگے جب عوام کو انصاف دہلیز پر ملے گا ۔

Kh Kashif Mir
About the Author: Kh Kashif Mir Read More Articles by Kh Kashif Mir: 74 Articles with 59227 views Columnist/Writer.. View More