پاکستان دشمنی یا کشمیر دوستی ،وزیراعظم اور پرنسپل ۔۔۔؟

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی ؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں کہ قریش کا ایک جوان حضورؐ کی خدمت میں آ کر کہنے لگا یا رسول اﷲ ؐ مجھے زنا کی اجازت دے دیں تمام لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے اور اسے ڈانٹنے لگے اور کہنے لگے ایسی بات نہ کہو ایسی بات نہ کہو حضورؐ فرمایا ذرا قریب آ جاؤ وہ حضورؐ کے قریب آگیا ۔حضورؐ نے فرمایا کیا تم زنا کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہواس نے کہا بالکل نہیں اﷲ کی قسم اﷲ مجھے آپؐ پر قربان کرے ۔حضورؐ نے فرمایا نہ ہی دوسرے لوگ اسے اپنی ماں کے لیے پسند کرتے ہیں پھر آپؐ نے فرمایا پھر تم اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتے ہو اس نے کہا بالکل نہیں ،اﷲ کی قسم یا رسول اﷲ ؐ اﷲ مجھے آپؐ پر قربان کرے ۔حضورؐ نے فرمایا اور نہ ہی اور لوگ اسے اپنی بیٹیوں کے لیے پسند کرتے ہیں پھر آپ ؐ نے فرمایا کیا تم اسے اپنی بہن کے لیے پسند کرتے ہو اسے نے کہا بالکل نہیں اﷲ کی قسم یا رسول اﷲ ؐ اﷲ مجھے آپ ؐ پر قربان کرے ۔حضور ؐ نے فرمایا اور نہ ہی دوسرے لوگ اسے اپنی بہنوں کے لیے پسند کرتے ہیں پھر آپؐ نے فرمایا کیا تم اسے اپنی پھوپھی کے لیے پسند کرتے ہو اس نے کہا نہیں بالکل نہیں اﷲ کی قسم یار سول اﷲ ؐ اﷲ مجھے آپؐ پر قربان کرے حضورؐ نے فرمایا اور نہ ہی دوسرے لوگ اسے پھوپھیوں کے لیے پسند کرتے ہیں پھر آپؐ نے فرمایا کیا تم اسے اپنی خالہ کے لیے پسند کرتے ہو اس نے کہا بالکل نہیں اﷲ کی قسم یا رسول اﷲ ؐ اﷲ مجھے آپؐ پر قربان کرے ۔حضورؐ نے فرمایا اور نہ ہی دوسرے لوگ اسے اپنی خالاؤں کے لیے پسند کرتے ہیں پھر حضور ؐ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھ کر یہ دعا مانگی اے اﷲ اس کے گناہ معاف فرما اور اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرم گاہ کی حفاظت فرما ۔حضرت ابو امامہ ؓ فرماتے ہیں حضورؐ کے سمجھانے اور دعا فرمانے کے بعد اس جوان کی توجہ اس طرف سے بالکل ہٹ گئی ۔

قارئین یہ دنیا بعض اوقات ہمیں ایک طلسم کدہ دکھائی دیتی ہے ایک ایسا طلسم کدہ کہ جہاں حیرتوں کے نت نئی باب ہر قدم پر کھلتے چلے جاتے ہیں اور نئی نئی حقیقتیں منکشف ہوتی چلی جاتی ہیں اگر مثبت معنوں میں اس بات کو دیکھیں تو یوں کہیں گے کہ جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے قرآن پاک میں فرمایا کہ ہم نے اس کائنات کو تمہارے لیے مسخر کر دیا ہے اس فرمان الہیٰ کی روشنی میں مغربی دنیا کی سائنس اور ٹیکنالوجی کے اندر کی جانے والی ریسرچ کے نتیجے میں دنیا اور کائنات کا یہ طلسم کدہ ہر روز نت نئی ایجادات اور انکشافات کے پردوں سے نئی نئی باتیں انسان کو بتا رہا ہے لیکن اگر ہم اسے اپنے وطن او ر بالخصوص آزاد کشمیر کے اندر اپلائی کر کے دیکھیں تو ’’ حیرتوں کا یہ طلسم کدہ ‘‘ افسو س ناک انداز میں بقول حکیم امت علامہ اقبال ؒ ،’’ وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا ‘‘،فکر کد ے میں تبدیل ہو جاتا ہے ہم اپنے ایمان کی روشنی میں یہ پختہ نظریہ اور یقین رکھتے ہیں کہ پاکستان کا قیام دو ر حاضر کی سب سے بڑی کرامت ہے اور پاکستان کا دنیا کے نقشے پر آجانا در حقیقت ’’ نشاۃ ثانیہ ‘‘کے ظہو رکی تیاریوں میں سے ایک اہم ترین تیاری ہے ہم یہ بھی اپنے خام ایمان کی روشنی میں دل سے سمجھتے ہیں کہ پاکستان دنیا کی قیادت کرنے کے لیے وجود میں آیا ہے اور جلد ہی انشاء اﷲ تعالیٰ وہ وقت آئے کہ جب پاکستان نہ صرف اسلامی دنیا بلکہ تمام دنیا کی قیادت کرے گا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ماضی کے 66سالوں کے سفر اور اس سفر کی گرد کا جائزہ لیتے ہوئے ہم افسوس کے ساتھ قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے اس قول کی سو فیصد تصدیق کرتے ہیں جو انہوں نے پاکستان بننے کے کچھ عرصے کے بعد کہی تھی کہ ’’میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں ‘‘قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ اقبال ؒ کی فلاسفی کی حفاظت کی ذمہ داری جن لوگوں کے سرتھی انہی لوگوں نے بد قسمتی سے ان کے اس تمام فلسفے کی نفی کرتے ہوئے پاکستان میں لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیا ،اخلاقی ،مالیاتی ،انتظامی کرپشن کے مرتکب ہونے کے ساتھ ساتھ ان لوگوں نے فکری سطح پر پاکستان کی بنیادوں اور نظریاتی اساس کو کھوکھلا کرنے کا ناقابل معافی جرم بھی کیا ۔تاریخ میں رقم واقعات کے مطابق چوہدری رحمت علی جنہوں نے لفظ ’’پاکستان ‘‘ تخلیق کیا کے مطابق ’’ پ سے مراد پنجاب ،ا سے افغانیہ ،ک سے کشمیر ،س سے سندھ ،سرحد اور تان بلوچستان سے لیا گیا ‘‘۔چوہدری رحمت علی وہ مرد مجاہد تھے جو ساری زندگی برصغیر میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے کام کرتے رہے او ر قائداعظم محمد علی جناح ؒ اور علامہ محمد اقبال ؒ سمیت تمام صف اول کی قیادت سے ان کے تعلقات انتہائی دوستانہ نوعیت کے تھے چوہدری رحمت علی ہندوستان کے اندر موجود مختلف ریاستوں کے متعلق بھی انتہائی انقلابی خیالات رکھتے تھے حیدرآباد سے لے کر بنگال تک مختلف علاقوں کے متعلق سوچتے ہوئے سب سے پہلے وہ مسلمانوں کا مفاد مد نظر رکھتے تھے ۔

قارئین آج سے چند روز قبل ہم نے آپ کی خدمت میں دو اہم ترین عرض داشتیں کالم کی شکل میں پیش کی تھیں ’’قائداعظم محمد علی جناح ؒ ۔۔۔۔پرنسپل گورنمنٹ کالج کے کٹہرے میں ‘‘اور ’’ اٹوٹ انگ یا شہ رگ ۔۔۔قائداعظم ؒ اور پرنسپل ‘‘کے عنوان سے تحریر کیے گئے کالمز میں ہم نے انتہائی دیانتداری اور نیک نیتی کے ساتھ مختلف واقعات اور ہوش ربا حقائق آپ کی نذر کیے تھے اور ان گزارشات کا خلاصہ یہ تھا کہ قومی نوعیت کے اہم ترین اداروں میں تعینات کیے جانے والے تمام افراد کی سکروٹنی ’’ نظریاتی اور فکری اساس ‘‘ کو مد نظر رکھتے ہوئے ’’ قومی سلامتی ‘‘ کے تقاضوں کے تحت ہونی چاہیے لیکن بد قسمتی سے ’’ سقوط ڈھاکہ ‘‘ سے لے کر ’’ کشمیر پالیسی رول بیک ‘‘ ہونے تک کے مختلف قومی سانحے اور حادثے چشم فلک نے دیکھے اور اس ملک و قوم سے محبت کرنے والے لوگوں نے سہے ۔

قارئین یہ انتہائی بد نصیبی کی بات ہے کہ قومی اداروں میں ایسی شخصیات کو کلیدی نوعیت کی ذمہ داریاں تفویض کی گئیں کہ جو نا تو ان عہدوں کی اہلیت رکھتی تھیں اور نہ ہی نظریاتی اعتبار سے وہ یہ اعتبار رکھتی تھیں کہ ان پر کسی بھی نوعیت کا اعتبار یا اعتماد کیا جائے ہم نے اپنے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ ایف ایم 93میرپور ریڈیو آزادکشمیر کے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک ود جنید انصاری ‘‘ میں گزشتہ چند سالوں میں سات سو سے زائد شخصیا ت کے سینکڑوں انٹرویوز کیے ۔صدو ر مملکت ،وزراء اعظم ،وزرائے کرام سے لے کر مختلف قومی شخصیات کے ان انٹرویوز کا یہ سلسلہ انتہائی متنوع اور دلچسپ روئیداد رکھتا ہے اور اس کہانی یا کہانیوں کی کچھ جھلکیاں آپ احباب ’’ انصار نامہ ‘‘ کے ذریعے دیکھ چکے ہیں اور انشاء اﷲ تعالیٰ بشرط زندگی و عافیت آئندہ بھی دیکھتے رہیں گے یہاں ہم آج کے کالم کے موضوع کی مناسبت سے فخر امت مسلمہ بانی جوہری پاکستان ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان میں تعلیمی انقلاب کے بانی ڈاکٹر عطاء الرحمن سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خیالات دوبارہ آپ کو یاد دلاتے ہیں ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے انتہائی درد مندی سے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ آپ لوگ نہیں جانتے کہ پاکستان کیا ہے پاکستان کی قدر مجھ سے پوچھیے جو کئی میل ریگستان کی تپتی ریت پر ننگے پاؤں چلتا ہوا پاکستان میں داخل ہوا تھا پاکستان کی قدر مجھ سے پوچھیے کہ جس نے اپنی آنکھوں سے ہندوستان سے پاکستان میں داخل ہونے والی مہاجرین کی ریل گاڑیوں سے ہزاروں مسلمان شہیدوں کا ٹپکتا ہوا خون دیکھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ پاکستان کو کوئی بھی دشمن میلی آنکھ سے اب نہیں دیکھ سکتا اور انشا اﷲ تعالیٰ پاکستان تا قیامت قائم و دائم رہے گا لیکن ڈاکٹر عبدالقدیر خان فکر انگیز انداز میں کہنے لگے کہ میں قوم سے اپیل کرتا ہوں کہ کسی بھی ایسے لیڈر کو اپنے ووٹوں کے ذریعے منتخب نہ کریں جو کہ پاکستان کی نظریاتی اہمیت سے نا آشنا ہو اور چند ٹکوں کے لیے وہ پاکستان کو بیچ دے ۔ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان ،عزیزی محمد رفیق مغل اور راقم کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے آہنی لہجے میں اعلان کیا کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ،کمانڈ اینڈ کنٹرول انتہائی محفوظ ہاتھوں میں ہے اور جنرل قدوائی کی قیادت میں ایک انتہائی اہل ٹیم اس پروگرام کی حفاظت کر رہی ہے لیکن اگر قوم اپنے ووٹوں کے ذریعے کسی بھی ضمیر فروش کو کلیدی عہدے پر پہنچنے کا موقع دے دیتی ہے تو اس صورت میں یہ خطرہ موجود ہے کہ پاکستان کی ایٹمی طاقت کو ’’ نیوٹرالائز ‘‘ کر دیا جائے اور اﷲ نہ کرے کہ کبھی پاکستان پر وہ دن آئے ۔اسی طرح ڈاکٹر عطاء الرحمن سابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن و سابق وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نے انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان کی ترقی اور دنیا کی نقشے پر عزت کے ساتھ موجودگی کیلئے اس بات پر زور دیا کہ پاکستان میں اہل ترین سیاسی قیادت کا بر سر اقتدار آنا ضرور ی ہے جو تعلیم کو سب سے پہلی ترجیح بنا کر کام کرے ۔ڈاکٹر عطاء الرحمن نے انتہائی افسوس کے ساتھ اس حقیقت کو منکشف کیا کہ پاکستان کی تاریخ میں ایک بھی ایسی حکومت بر سر اقتدار نہیں آئی جس نے تعلیم کے لیے سب سے زیادہ بجٹ مختص کیا ہو اور اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آج پاکستان باوجود اﷲ کے عطا کردہ وسائل اور نعمتوں کے عالمی برادری میں آخری نشستوں پر براجمان ہے ڈاکٹر عطاء الرحمن نے انتہائی ٹھوس لہجے میں اس یقین کا اظہار کیا کہ اگر اہل ترین نظریاتی قیادت برسراقتدار آجائے تو دس سال میں پاکستان کا نقشہ بدل سکتا ہے اور پاکستان دنیا کی عظیم ترین معاشی ،تعلیمی ،مالیاتی اور فوجی طاقتوں میں شامل ہو جائے گا ۔

قارئین یہاں سے ہم کالم کا دوسرا حصہ شروع کر رہے ہیں یہ بات طے ہے کہ ٹیم لیڈر اپنی ٹیم کا انتخاب کرتا ہے ہم نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا بھی ایک تاریخی انٹرویو کیا تھا اس انٹرویو میں عمران خان نے 1992کا ورلڈ کپ جیتنے اور پاکستان میں سیاسی ٹورنامنٹ جیتنے کے حوالے سے ڈھیر ساری باتیں کی تھیں اور اس بات کا واضح اظہار کیا تھا کہ جس طرح کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے میں ٹیم ورک انتہائی اہمیت کا حامل تھا اسی طرح سیاست کے میدان میں بازی مارنے کیلئے ٹیم کا انتخاب سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس حوالے سے عمران خان نے انتہائی دلچسپ اور فکر انگیز انداز میں اس حقیقت پر بات کی کہ پاکستان میں گزشتہ چھ دہائیوں کے سفر میں سیاسی قیادت ،فوجی ڈکٹیٹر ز اور دیگر قوتوں نے استحصال کرتے ہوئے نہ صرف قیام پاکستان کے انقلابی مقاصد کی نفی کی بلکہ پاکستانی نوجوان نسل کا استحصال بھی کیا عمران خان نے اس عزم و ارادے کا اظہار کیا کہ تحریک انصاف ان تمام قوتوں کا مقابلہ کرے گی اور ایسے نوجوان اور اہل ترین قیادت سامنے لائی جائے گی جو پاکستان کی نظریاتی اساس کی حفاظت بھی کرے گی اور قیام پاکستان کے وسیع تر مقاصد کو پور اکرنے کے لیے کام بھی کرے گی کشمیر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ جب تک کشمیریوں کا وکیل پاکستان خود مضبوط نہیں ہو گا تب تک کسی بھی بین الاقوامی فورم پر کشمیریوں کے موقف کو مضبوطی کے ساتھ نا تو پیش کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی اسے پذیرائی مل سکتی ہے ۔عمران خان نے یہ بھی کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی چھاؤنیاں لاکھوں کشمیریوں کے قتل عام میں ملوث ہیں اور تحریک انصاف عالمی برادری سے مطالبہ کرتی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کو بھارتی آرمی سے پاک کیا جائے جو کشمیریوں کی شہادت کی اصل وجہ ہے عمران خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ تحریک انصاف یقین رکھتی ہے کہ کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل ہی جنوبی ایشیاء کے امن کی ضمانت دے سکتا ہے ۔

قارئین یہاں پر ہم کالم کا تیسرا اور اختتامی حصہ آپ کے سامنے پیش کر رہے ہیں آزادکشمیر کی سب سے اہم درسگاہ میں ایک ایسے صاحب پرنسپل کی حیثیت سے تعینات ہیں جنہوں نے فیس بک پر موجود ویڈیو میں تحریک پاکستان کے ہیرو ماہر اقبالیات ڈاکٹر فتح محمد ملک کی موجودگی میں انتہائی تمسخرانہ انداز میں ہنستے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے اس بیان کی واضح نفی کی کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے قائداعظم ؒ کے اس بیان کو جھٹلاتے ہوئے گورنمنٹ کالج میرپور کے پرنسپل پروفیسر ڈاکٹر محمدعارف اس ویڈیو میں واضح طور پر ہنستے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی چالیس سالہ ریسرچ میں کہیں پر بھی یہ بات نہیں دیکھی کہ قائداعظم ؒ نے کبھی کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا ہو ۔گزشتہ ہفتے وزیراعظم آزادکشمیر چوہدری عبدالمجید کشمیر پریس کلب میرپور کی ایک ’’ طوفانی اور انقلابی دورے ‘‘ پر تشریف لائے اور راقم کے ایک انتہائی سنجیدہ سوال پر ایسے لال پیلے ہوئے کہ پریس کانفرنس کا موضوع ہی راقم کی ذات بن گئی ۔وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے ’’ تقریبا گالیوں ‘‘ کی زبان میں گفتگو کرتے ہوئے راقم کو مخلصانہ القابات سے نوازا اور کہا کہ راقم کا تعلق ایسے خاندان سے ہے جو منگلا ڈیم بنانے کی مخالفت کرتا تھا اور راقم احسان فراموش ہونے کے ساتھ ساتھ زبانی بیماریوں کا شکار ہے اس پر راقم صرف یہی کہتا ہے کہ ہر انسان اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے اور راقم فخر سے اعلان کرتا ہے کہ اس کا تعلق بانی نظریہ خود مختار کشمیر و بانی صدر جموں کشمیر محاذ رائے شماری عبدالخالق انصاری ایڈووکیٹ مرحوم کے خاندان سے ہے عبدالخالق انصاری مرحوم ہر گز پاکستان دشمن نہ تھے لیکن عبدالخالق انصاری مرحوم کا سب سے بڑا جرم کشمیر سے ان کی والہانہ محبت و عقیدت تھی عبدالخالق انصاری مرحوم نے راقم اور استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان مرحوم کو دیئے گئے زندگی کے آخری انٹرویوز میں اس سچائی کا اظہار کیا کہ کشمیری قوم کی آزادی کے لیے پوری دنیا میں کشمیریوں کا کیس ’’ ایک قوم کی آزادی ‘‘ کے طور پر پیش کرنا ضروری ہے اور پاکستانی پالیسی سازوں اور کشمیریوں سے محبت رکھنے والے پاکستانیوں کو بھی یہ بات سمجھنی ہو گی کہ آزادی حاصل کرنے کے بعد منطقی طو رپر کشمیر نے پاکستان ہی سے یاتو اپنے رشتے استوار کرنے ہیں یا پاکستان کا حصہ بن جانا ہے ۔عبدالخالق انصاری نے کبھی بھی پاکستان یا قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بارے میں منفی خیالات کا اظہار نہیں کیا بلکہ وہ پاکستان کی سلامتی اور ترقی کے لیے دعا گورہتے تھے یہاں سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمیں احسان فراموشی اور زبانی کمزوری کا طعنہ وہ صاحب دے رہے ہیں جو دشنام طرازیوں اور گالم گلوچ میں سیاسی جماعتوں ،بیوروکریسی اور اپنی ہی پارٹی کے کارکنوں میں ’’ ایک خاص شہرت ‘‘رکھتے ہیں یہاں ہم کشمیر کی تاریخ پر اتھارٹی رکھنے والی شخصیت پروفیسرخان زمان مرزا مرحوم کا ذکر بھی کرتے جائیں جنہوں نے متعدد کتابوں میں کشمیر ،پاکستان ،قائداعظمؒ اور متعدد دیگر شخصیات کے حوالے سے سیر حاصل مواد چھوڑا ہے ۔خان زمان مرزا مرحوم وزیراعظم چوہدری عبدالمجید کے استاد رہے ہیں ان کے صاحبزادے چیئرمین ہیومن رائٹس کمیشن ہمایوں زمان مرزا کا کہنا ہے کہ آج خان زمان مرزا مرحوم کی روح یقینا تڑپ رہی ہو گی کہ وہ تعلیمی ادارہ کہ جہاں سے چیئرمین جائنٹ چیف آف سٹاف جنرل عزیز سے لے کر متعدد فوجی جرنیل ،متعدد صدور و وزرائے اعظم سے لے کر سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں اہم شخصیات نے تعلیم حاصل کی آج وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے وہاں کس طرح کی شخصیت کو ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے تعینات کر رکھا ہے کہ جو قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے واضح اقوال کا مذاق اڑانے کے ساتھ ساتھ ادارے کی ساکھ تباہ کر رہی ہے ہمایوں زمان مرزا کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے اداروں کو وزیراعظم چوہدری عبدالمجید اور پرنسپل گورنمنٹ کالج میرپورڈاکٹر عارف کی مختلف سرگرمیوں کا نوٹس لینا چاہیے اور قومی مفادات میں اہم ترین فیصلے کرنے چاہیں کیونکہ اگر ایسی شخصیات اداروں اور ریاست کی سربراہ کی حیثیت سے موجود رہیں تو اس سے نہ صرف تحریک آزادی کشمیر کے لیے خطرات پیدا ہو سکتے ہیں بلکہ پوری دنیا میں کشمیریوں کی جگ ہنسائی بھی ہو رہی ہے کشمیر و پاکستان کا آپس میں تعلق انتہائی سنجیدہ اور نظریاتی نوعیت کا ہے مجاورانہ اعلانات اور ڈاکٹر عارف کی طرف سے قائداعظم ؒ کے پالیسی بیان کی نفی تمام قومی قوتوں کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے امید ہے وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف ،وزیرامور کشمیر برجیس طاہر ،قومی سلامتی کے ادارے اور دیگر متعدد قوتیں اہم ترین ایشو ز کا نوٹس لیں گی یہاں ہم سابق وزیراعظم بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے مجاور حکومت پر لگائے جانے والے مبینہ کرپشن کے الزامات کے حوالے سے بھی سوال پوچھتے ہیں کہ ان کا جواب وزیراعظم چوہدری عبدالمجید خود دینا پسند کریں گے یا قومی سلامتی کے ضامن ادارے ان سے یہ بات دریافت کریں گے ۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
ایک جیب کترا ایک رسالے میں جدید فیشن کے کپڑے دیکھ رہا تھا اس کے ساتھی جیب کترے نے اس سے پوچھا
’’کیوں استاد کیا ریڈی میڈ کپڑے خریدنے کا ارادہ ہے ‘‘
جیب کترے نے جواب دیا
’’ نہیں یار میں دراصل یہ دیکھ رہا ہوں کہ نئے ملبوسات میں جیبیں کہاں کہاں لگتی ہیں ‘‘

قارئین نیا جال لائے پرانے شکاری کے مصداق ہمیں یہ لگتا ہے کہ پاکستان اور کشمیر کا نظریاتی استحصال کرنے والے سیاسی مجاور اور قائداعظم ؒ کے کشمیر اور پاکستان کے اٹل رشتوں کی نفی کرنے والے نام نہاد ماہر تعلیم ایک ہی ٹیم کا حصہ دکھائی دیتے ہیں اور یقینا اصلاح احوال وقت کی سب سے بڑی آواز ہے آواز حق اٹھانے کی پاداش میں ہمیں گالیوں سے بھی نوازا جا رہا ہے اور دیگر سختیاں بھی شاید ہماری منتظر ہیں لیکن ہم اہل حق کے راستے پر قائم رہنے کا عزم رکھتے ہیں اور بقول قتیل شفائی
دنیا میں قتیل اس سا منافق نہیں کوئی
جو ظلم تو سہتا ہے بغاوت نہیں کرتا

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 336885 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More