ایک نئی اسلامی یونائیٹڈ نیشنز کی ضرورت

خبر ہے کہ سعودی عرب نے سلامتی کونسل کی رکنیت لینے سے انکار کر دیا ہے ۔وجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ اقوم متحدہ نے اسلامی ممالک کے ساتھ ہمیشہ امتیازی سلوک رو ا رکھا ہے ۔ اس لئے احتجاجا سعودی عرب نے یہ قدم اٹھایا ہے ۔

بادی النظر سے دیکھا جا ئے تو یہ ایک مستحصن قدم ہے اور اس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے ۔اس لئے کہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ نے آج تک اسلامی دنیا کے تشویشناک حالات کو کبھی سنجیدگی سے نہیں لیا اور نہ ہی اس کے حل کے لئے کوئی ٹھوس لا ئحہ عمل تجویز کیا ہے ۔ کشمیر کا 66 سالہ پرانا مسئلہ ہو یا افغانستان کی طویل خانہ جنگی ۔بوسنیا کے اندوہناک حالات ہوں یا ایران عراق کی گیارہ سالہ خانہ جنگی ۔اقوام متحدہ کا کردار ہمیشہ ہی منفی رہا ہے ۔اور اگر مداخلت کی بھی تو اس وقت جب پانی سر سے گزر گیا ، یاجب ہزاروں لاکھوں بے گناہ نہتے اور معصوم مسلمانوں کا قتل عام ہوچکا ۔

اس حقیت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ اقوام متحدہ کا نظام بوسیدہ ہو چکا ہے اور جہاں تک مسلم ممالک کے مفادات کا تعلق ہے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کا نظام نہ صرف بوسیدہ بلکہ ردی کی ٹو کری میں پھینکنے کے لائق بن چکا ہے ۔

جب تک روس کے ساتھ امریکہ کی مخالفت یا رقابت تھی اس وقت تک اقوام متحدہ کے نظام میں غریب ملکوں کو تباہ کرنے کی ایسی صلاحیت موجود نہیں تھی ،کیونکہ امریکہ بھی ویٹو کر کے کسی غریب ملک کی حفاظت کر سکتا تھااور روس بھی ویٹو کا حق استعمال کر کے کسی غریب ملک کی حفاظت کر سکتا تھا اور فیصلہ صرف اس بات پر ہوتا تھا کہ امریکہ کا دوست غریب ملک ہے یا روس کا دوست غریب ملک ہے ۔مگر جب سے روس کے ٹکڑے ہوئے ہیں اور امریکہ کی اجارہ داری قائم ہوئی ہے اس وقت سے ساری دنیا میں کسی غریب ملک کو سہارا دینے کے لئے کوئی باقی نہیں رہا ۔

قرآن کریم میں اﷲ تعالی کا فرمان ہے کہ تعاونوا علی البر و التقوی ( سورۃ مائدہ :۳)

اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف نیکی پر اکٹھے ہوا کرو ،بدی پر تعاون نہ کیا کرو ۔ مگر بدقسمتی سے اتفاق نیکی پر نہیں بلکہ بدی پر ہو چکا ہے ۔اور اب سیاسی دنیا کے تعاون اس بات پر ہوتے ہیں کہ نیکی یا بدی کی بحث نہیں ہے ،ہمارے مشترکہ مفادات میں جو بات ہو گی ہم اس پر ایک دوسرے سے تعاون کریں گے ۔اگر یہ صورتحال جاری رہی تو اقوام متحدہ اور اس سے منسلک تمام سیکورٹی کے ادارے کمزور ملکوں پر ظلم کے لئے استعمال کئے جائیں گے اور کئے جارہے ہیں ۔صرف ان کے فائدے کے لئے استعمال ہورہے ہیں جو ان کی غلامی کو تسلیم کر لیں اور ان کے پاؤں چاٹیں ۔ایک طرف تو یہ اپنی دولت کو غریب ملکوں میں لاتا ہے دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے ان کو عزت کے خطابات دیتا ہے دوسری طرف ذلت اور رسوائی کے نتیجے میں کمینگی سے جو فوائد حاصل ہو سکتے ہیں وہ بھی اٹھا رہا ہے او رحقیقت یہ ہی ہے کہ اگر عزت ،وقار اور سر بلندی کے ساتھ اس دنیا میں اس اقوام متحدہ کے ساتھ وابستہ رہ کر کوئی قوم زندہ رہنا چاہے تو اس کا کوئی امکان نہیں ہے ۔

جس طرح پہلی جنگ عظیم کے بعد 1919ء میں لیگ آف نیشنز بنی پھر دوسری جنگ عظیم کے بعد 1945 ء میں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا ۔چاہیے تو یہ تھا کہ ایران ،عراق یا عراق اور کویت کی یا افغانستان کی خوفناک خانہ جنگی کے بعد ایک نئی اسلامی ممالک کی اقوام متحدہ وجود میں آجاتی ۔ اور مذہبی تعصبات کو الگ کر کے اسلامی ممالک کے مسائل کو حل کرنے کے ساتھ ساتھ جنگ کی مزید تباہ کاریوں سے بچا یاجاتا اور شام اور مصر کے کشیدہ حالات کی کوئی راہ نکالی جاتی ۔افسو س تو اسی بات کا ہے کہ اس وقت سعودی عرب کو اس کا خیال کیوں نہیں آیا ۔

اب بھی تمام مسلم ممالک کو چاہیے کہ آپس میں ایک دوسرے سے محبت کا تعلق رکھیں ، خالص بھائی چارے کی فضا کو برقرار رکھتے ہوئے اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرتے ہوئے مسلمان تشخص کو غیر مسلم تشخص سے لڑائیں نہیں ،اس لئے کہ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا ۔سوائے اس کے کہ غیر قومیں ہی اس سے فائدہ اٹھائیں گی اور مسلمانوں کا بری طرح سے استحصال کریں گی ۔

پس انصاف اور تقوی کے اس اصول تعاون پر تیسری دنیا کے ممالک کے وسیع تر اتحاد امن اور ترقی کے لئے ایک نئی طرز کی متوازن اقو م امتحدہ کی ضرورت ہے ۔جس کے منشور میں محض اسی حد تک اختیارات درج ہوں جس حد تک ان کے نفاد کی اس انجمن میں طاقت ہو اور ہر ممبر ملک کے اس لئے اس عہد نامہ پر دستخط کرنے ضروری ہوں کہ وہ اس ادارے سے منسلک رہتے ہوئے ہر حالت میں عدل کی بالا دستی کو تسلیم کرے گا ۔
نیز یہ کہ تیسری دنیا کے الجھے ہوئے معاملات اور قضیوں کو حل کرنے کے لئے اسی ادارہ کی سرپرستی میں دو طرفہ گفت و شنید کا منصفانہ اور مؤثر نظام قائم کیا جائے اور کمزور قوموں میں اس رحجان کو تقویت دی جائے کہ کوئی فریق اپنے فیصلوں کے حل کے لئے ترقی یافتہ قوموں کی طرف رجوع نہیں کرے گا اور انہیں دخل در معقولات کی ہرگز اجازت نہیں ہوگی ۔

آج اگر مسلم ممالک نے اقوام متحدہ کے خلاف علم بغاوت بلند نہ کیا یا یہ کہنا چاہیے کہ ان کو انصاف کے نام پر تعاون پر مجبور نہ کیااور اپنے قوانین بدلنے پر مجبور نہ کیا تو دنیا کی قومیں آزاد نہیں ہو سکیں گی اور یہ ادارہ مزید خطرات لے کر دنیا کے سامنے آئے گا اور اسے بار بار خوفناک مقا صد کو حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا رہے گا ۔
 

Maryam Samar
About the Author: Maryam Samar Read More Articles by Maryam Samar: 49 Articles with 48324 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.