بلاول بھٹو زرداری کا جوشیلا خطاب، ایک تقری سے تین شکار کرنے کی ناکام کوشش

 پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلی بلال بھٹو کچھ عرصے کی خاموشی کے بعد ایک بار پھر گرج برس کر بول پڑے ہیں اور انہوں نے پاکستان کے عوام کو ظلم سے نجات دلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ جیالے عوام کا خون پینے والے شیر کا شکار کریں گے، پتنگ کو کاٹ دیں گے اور خیبر پی کے عوام کو سونامی سے نجات دلائیں گے، ہم بزدل خان کی پارٹی نہیں جو کہ چر چ پر حملے کے بعد دہشت گردوں کی حمایت میں دلائل دے۔ نو ڈیرو میں عید منانے کے بعد کراچی میں سانحہ کارساز کے شہد ا کی یاد میں ہونیوالی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بلال بھٹو زرداری نے کہا کہ 2018 ء کے انتخابات میں آصف زرداری جیالوں کی کمان ہوں گے اور میں تیر، ہم اکٹھے ہوکر شیر کا شکار کریں گے۔ سانحہ کارساز کے 6 سال مکمل ہونے پر بلال بھٹو زردای نے کارکنوں سے جوشیلا خطاب کیا۔ بلال بھٹو کا کہنا تھا کہ بے نظیر جب وطن آئیں تو پورا ملک خوشیاں منا رہا تھا لیکن انکی واپسی پر دھما کہ کردیا کر دیا گیا۔ کارکنوں نے اپنی لیڈر کیلئے جان قربان کردی۔ پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جمہوریت کیلئے قربانیاں دیں، پیپلز پارٹی ایک سیاسی جماعت نہیں ایک جنون ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ طاہر القادری نے اسلام آباد میں ڈرامہ ر چایا اور اسلام آباد کو یر غمال بنایا، موجود ہ حکومت میں بھی ایک شخص نے پورے اسلام آباد کو یرغمال بنایا، پیپلز پارٹی کے جیالے نے ہزاروں افراد کی جان بچائی، بلال بھٹو کا کہنا تھا کہ آج دہشت گردوں سے پناہ لینے والی جماعتیں جشن منارہی ہیں۔ کراچی آج بھی لندن کی کالونی ہے۔ بے نظیر بھٹو نے عوام کیلئے قربانی دی میں بھی ہمیشہ عوام کیلئے لڑوں گا۔ کراچی آج بھی لندن کی کالونی ہے، فون پر اڑنے والی پتنگ کو ہمیشہ کیلئے کاٹ دیں گے، خیبر پی کے کے عوام کو سونامی کے سیلاب سے بچائیں گے۔ مذہب کے ٹھیکیداروں کے خلاف اعلان جہاد کرتے ہیں، پیپلز پارٹی بزدل خان کی جماعت نہیں، پیپلز پارٹی جماعت نہیں ایک جنون کا نام ہے۔ پیپلز پارٹی نے گزشتہ عام انتخابات میں اپنے کارکنوں کی زندگی بچانے کیلئے 100 نشستیں گنوا دیں، دہشت گردوں کو پناہ دینے والے جشن منا رہے ہیں۔ تقریب سے پیپلز پارٹی کے رہنما رضا ربانی، پیپلز پارٹی سندھ کے صدر و وزیراعلی سندھ سید قائم علی شاہ، پیپلز پارٹی کراچی ڈویژن کے صدر عبدالقادر پٹیل نے بھی خطاب کیا۔

وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید نے بلاول زرداری کی جوشیلی تقریر پر اپنے ردعمل میں کہا کہ بلاول بھٹو زرداری کی تقریر پوری طرح سیاسی تھی جس میں مخالفین پر کھل کر تنقید کی گئی، سیاسی تقاریر میں ایک دوسرے پر الزامات ہوتے ہیں، ابھی 2018ء کے الیکشن بہت دور ہیں جب وقت آئے گا دیکھا جائے گا۔ جس طرح کی مسلم لیگ(ن) کی پا’’لیسیاں ‘‘ہیں عوام ضرور مسلم لیگ (ن)کو ہی ’’دوبارہ منتخب‘‘ کریگی۔ اندرونی اور بیرونی مسائل سے گھرا ہوا ملک ہمیں ملا جس کو آہستہ آہستہ ان تمام مسائل سے چھٹکارہ دلائیں گے۔ وزیراعظم نوازشریف ملک کو انتہائی مشکل حالات سے نکالنے کیلئے دانشمندی اور بصیرت سے ملکی مفاد میں مشکل فیصلے کر رہے ہیں ملک کو متعدد چیلنجز کا سامنا ہے اور تمام مسائل نوازشریف کی قیادت میں ہی حل ہونگے۔مہنگائی کی وجہ سے حکومت پر کی جانیوالی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ماضی میں جو حکومتیں اقتدار میں رہیں انہوں نے مشکل فیصلے کرنے سے گریز کیا جس کی وجہ سے یہ فیصلے کرنا پڑ رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے رہنما واسع جلیل نے کہا کہ بلاول نے الیکشن کی لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر سنائی جو 1988ء سے پتنگ نہیں کاٹ سکے وہ اب کیا کاٹیں گے۔ بلاول بھٹو نے پچھلے الیکشن کی لکھی ہوئی تقریر پڑھ کر سنائی ہے وہ پہلے پتہ کر لیں ان کی والدہ کے قاتل کہاں ہیں۔ مسلم لیگ(ن) کے سیکرٹری اطلاعات سینیٹر مشاہد اﷲ خان نے کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری تنقید کرنے کی بجائے اپنی پارٹی پر توجہ دیں تو بہتر ہو گا ان جیسی تقریر کھلونوں سے کھیلنے والے بچے کرتے ہیں، بلاول ہمارے لئے بچہ ہے۔ بلاول ہمارا بچہ ہے اور بلاول جیسی تقاریر کھلونوں سے کھیلنے والے بچے کرتے ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی پر توجہ دیں، پہلے یہ پتہ کریں کہ ان کی والدہ بے نظیر بھٹو شہید کے قاتل ابھی تک کیوں نہیں پکڑے گئے پھر دوسروں پر تنقید کریں، جن کے بڑے کچھ نہیں کر سکے ان کے بچے کیا کریں گے۔ پاکستان تحریک انصاف کی ترجمان شیریں مزاری نے کہا کہ بلاول بھٹو ڈر ڈر کے تقریریں کرتے ہیں ان کی حیثیت ہی کیا ہے، وہ اور آصف زرداری تو کبھی ڈرائینگ روم سے باہر نہیں نکلے۔ بلاول بھٹو کہاں سو رہے تھے سونامی تو آچکی ہے۔ عمران خان کے لئے بزدل کا لفظ استعمال کرنے پر بلاول بھٹو کو شرم آنی چایئے۔ بلاول بھٹو بچہ ہے وہ کبھی عوام سے ملا ہی نہیں۔ بلاول اور آصف علی زرداری بزدل ہیں وہ کسی کو کیا طعنہ دے سکتے ہیں، عمران خان عام لوگوں میں گھلتے ملتے ہیں اور بڑے سیاسی لیڈر ہیں۔ سونامی پیپلز پارٹی کی کرپشن سے عوام کو بچا رہی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان نے کہا ہے کہ لانگ مارچ حقیقی جمہوریت کے قیام کے لئے تھا اسے ڈرامہ کہنے والے بلاول کی ساری قیادت تو اسلام آباد چھوڑ کر بھاگ گئی تھی۔ بلاول کی طرف سے منفی بیانات پیپلز پارٹی کی قیادت کی فرسٹریشن کو ظاہر کر رہے ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف بولنے کی جرات نہ رکھنے والے پیپلز پارٹی کے بڑوں نے بلاول کا کندھا استعمال کیا، یہ کسی اور نہیں ڈاکٹر طاہرالقادری کی سیاسی بصیرت تھی کہ لانگ مارچ کے لاکھوں شرکا سلامتی سے لوٹ گئے تھے۔ بلاول جیسے نوزائیدہ کے بیان کی حیثیت چاند پر تھوکنے کے سوا کچھ نہیں۔ الیکشن سے قبل ڈاکٹر طاہرالقادری نے جو کہا درست ثابت ہوا، بلاول کے جھوٹ کی اس سے بڑی گواہی کوئی نہیں، بلاول بھول گئے کہ ان کی والدہ تحریک منہاج القرآن کی لائف ممبر تھیں۔ پانچ سال تک جمہوریت کے نام پر ملک اور عوام کو یرغمال بنانے والی بلاول کی پارٹی قصہ پارینہ بن چکی ہے۔مشاہد اﷲ خان نے کہا ہے کہ زرداری اور بلاول بھٹوکی تقریر سے ایسا لگتا ہے کہ باپ بیٹوں میں کوئی اختلاف ہے، میں نے تو آج تک کسی کو شیر کا شکار کرتے ہوئے نہیں دیکھا البتہ ویڈیو گیم میں ایسا ضرور ہو سکتا ہے۔ بلاول نے عملی سیاست میں حصہ لیا ہے وہ محترمہ کا بیٹا ہے اسے خیال کرنا چاہئے۔

بلاول زرداری کو جس نے بھی تقریر لکھ کر دی ہے اس کے ایک تیر سے تیں شکار کرنے کی ناکام کوششی کی ہے اور پارٹی کے لیڈر آصف علی زرداری کی نواز شریف سے صلح اور قدم بڑھایر نواز شریف ہم تمھارے ساتھ ہیں ،کی حقیقت کا بھانڈہ بیچ چورایے میں پھوڑ دیا ہے۔’’ طفل مکتب کار نیست‘‘ کے مصداق بچے کو سامنے رکھ کر اس تقریر نویس نے اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے اور خوب نکالی ہے۔ ابھی تو محترمہ بے نظیر بھٹو کے لہو کی سرخی تازہ ہے اور ان کی بے چین روح اپنے قاتلوں کی تلاش میں سر گرداں ہے اور خود نواز شریف کئی بار کہہ چکے ہیں کہ وہ محترمہ کے قاتلوں کو اقتدار میں آکر سزاء دلوائیں گے اب انہیں چاہئے کہ وہ اپنا وعدہ پورا کریں اور قاتلان بے نظیر کو قانوں کے کٹہرے میں لائیں ۔جوشیلی تقریروں سے زمینی حقائق نہیں بدل سکتے اور حقیقت یہی ہے کہ کارکنوں کو تنہاء چھوڑنے والی پی پی قیادت کو ان کی پارٹی کے کارکنوں اور عوام نے سیاسی میدان میں تنہاء چھوڑ دیا تھا 2018ء کے الیکشن میں ابھی بہت وقت پڑا ہے ۔بلاول پارٹی کارکنوں سے ملیں اور ان کا دل جیتیں،پھر عام کے پاس جائیں اور اپنے بڑوں کی غلطیوں کی موافی مانگ کر ازالہ کریں پھر تنقید کریں تو لوگ ان کی باتوں پر توجہ دیں گے اب اس تقریر کے بعد چھ ماہ خاموش بیٹھ جانے یا بیرون ملک جانے سے سے ان کا امیج نہیں بن پائے گا ۔

Hanif Lodhi
About the Author: Hanif Lodhi Read More Articles by Hanif Lodhi: 51 Articles with 51523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.