توبہ کیجئے ،سچے دل سے

اپنے پچھلے گناہوں اور فریب کاریوں سے بھری زندگی کا احساس پرویز صاحب کو جب ہوا توانہوں نے حج کا ارادہ کیا اورانہیں کسی قسم کی رکاوٹ اورپریشا نی کا سامنا بھی نہیں ہوا۔دولت ان کے پاس بہت تھی۔ سرکاری اورپرائیویٹ دفتروں سے آج کل اپنے کام کس طرح کرائے جاتے ہیں، اس طریقے سے وہ اچھی طرح واقف تھے۔ کہتے تھے کہ دفتروں میں رشوتیں نہیں دوگے توکام کبھی نہیں ہوں گے۔ جب کام نہیں ہوں گے تو روپیہ کس طرح کمایا جائے گا اور پھر بال بچوں کا پیٹ کس طرح بھرا جائے گا؟ ان کی پرورش اورتعلیم کس طرح ہوگی ؟ بوڑھے ماں باپ اوربیوی کی بیماریوں کا علاج کس طرح ہوگا؟ ملک کی بڑی اقلیت یعنی میرے بھائی اسی لیے تو مفلس، بے روزگار اورپچھڑے ہوئے ہیں کہ وہ رشوتیں نہیں دیتے اورلیتے ہیں، چار سو بیسی اور دھوکا دھڑی نہیں کرتے ہیں، دوسروں کا حق نہیں مارتے ہیں۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ بڑی اقلیت کے لوگوں کے پاس رشوتیں دینے کے لیے روپیہ ہی نہیں ہے تو وہ جواب دیتے ہیں کہ غلط طریقے اور غلط پیشے اپنا کر روپیہ جمع کرو۔ اْن سے پھر کہاجاتاہے کہ کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں تو پولیس ان پر خاص نظر رکھنے کی وجہ سے فوراً دبوچ لیتی ہے اور ذرا سے جرم کو بڑھا کر اتنا بڑا کردیتی ہے کہ ان کا انکاؤنٹر کردیتی ہے یا پھانسی پر لٹکوادیتی ہے یا عمر قید کرو ادیتی ہے، تو وہ کہتے ہیں، تو پھر کیا بھیک مانگوں ، مجھے بھیک مانگنا گوارہ نہیں ہے، اس لیے چار سوبیسی، دھوکا دہی اور نقلی دھندہ کرتا ہوں۔ اپنے انھیں نظریات کے سبب انہیں ویزا بآسانی مل گیا تھا۔ ان کا حج پر جانے کا نمبر بھی جلدی آگیاتھا۔ نمبر اور ویزا آتے ہی پرویز صاحب نے اپنی داڑھی بڑھانا شروع کردی تھی۔ ملک میں آج کل بڑھتی قیمتوں کی طرح ان کی داڑھی بھی تیز ی سے بڑھنے لگی۔ چند ہفتوں میں ان کی داڑھی ایک مشت ہوگئی۔ تین ماہ بعد ان کی فلائٹ تھی۔ اس درمیان ان کی داڑھی ایک بالشت بھر ہوگئی تھی۔ کئی بار وہ داڑھی کی تراش خراش کرواچکے تھے۔ اب وہ داڑھی پر فخر یہ انداز میں ہاتھ پھیرتے رہتے تھے۔ روانگی کا وقت قریب سے قریب آتا جارہا تھا۔ جس روز روانگی تھی، اس دن ان کا بنگلہ برقی قمقموں سے جگمگا رہا تھا۔ مہمانوں سے ہر کمرہ کھچا کھچ بھرا تھا۔ تل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔ وہ سبھی مہمانوں سے انتہائی تپاک اور خوش مزاجی سے مل رہے تھے۔ شام کو ایک شاندار اور پرتکلف دعوت کا بھی اہتمام کیاگیاتھا۔ ہار پھولوں سے لدے پرویز صاحب سبھی کی مبارکباد قبول کررہے تھے۔انہیں باربار خیال آرہا تھا کہ اب واپسی پر ان کے نام سے پہلے حاجی کا اضافہ ہوجائے گا۔ وہ اس اضافے پر دل ہی دل میں خوشی سے پھولے نہیں سمارہے تھے۔ ایسی شاندار دعوت دی گئی تھی کہ لوگ حیران اوران سے مرعوب سے ہورہے تھے۔ دوسرے روز ہار پھولوں سے لدے پھندے پرویز صاحب ایئر پورٹ کے لیے روانہ ہوگئے، جس جگہ حاجیوں کا ایک بڑا قافلہ روانگی کے لیے تیار تھا اورلوگ سبھی سے الوداع ہونے کے لیے مصافحہ کررہے تھے۔ہر طرف انسانوں کا جم غفیر دور دور تک نظر آرہا تھا۔ چند گھنٹوں کے بعد جہاز کی پرواز کاآغاز ہوا اورپرویز صاحب اسی روزاپنے دیگر ہم سفروں کے ساتھ کچھ گھنٹوں کی ہوائی جہازی مسافت کے بعد سرزمین عرب پر اتر گئے۔ اب وہ احرام باندھے ہوئے تھے۔ انہوں نے اﷲ رب العزت کا شکریہ اداکیا اور رہائش گاہ کی طرف ڈیلکس بس میں بیٹھ کر روانہ ہوگئے۔ حج کے ارکان وہ ترتیب سے روزبروز اداکر رہے تھے۔ فرض، سنت اور نفل نمازیں پابندی سے ادا کر رہے تھے۔ نفل نمازوں میں اضافہ ہوگیاتھا۔ اس کے علاوہ وہ ہر روز بلاناغہ بعد نماز عشاء کچھ دیر کے لیے اپنے وطن میں بذریعہ موبائل گھر والوں اور نمبر دو کے کاروبار کے حالات ضرور معلوم کرتے تھے۔ اپنی خیریت اور حج کے مناظر خوش ہو کر وہ سب کو بتاتے تھے اوران سب کی خیریت دریافت کرتے تھے۔ واپسی کے وقت خریداری کے لیے بچوں اور دیگر متعلقین کی فرمائش کی فہرست ان کی جیب میں بحفاظت رکھی ہوئی تھی۔ انہوں نے ہاتھ سے ٹٹول کر فہرست کے موجود ہونے کی تصدیق کی اور جیب کے اوپر سے ہاتھ ہٹاکر وہ مطمئن ہوگئے۔ نماز پنجگانہ کے وطن میں وہ پابند کبھی نہیں رہے۔ کبھی نماز پڑھی کبھی نہیں پڑھی، لیکن جب سجدہ کرتے تو ماتھے پر خوب زور دیتے اور اسے آہستہ آہستہ صف پر رگڑ تے تاکہ سجدے کا نشان ماتھے پر بن جائے اور واقعی ان کے ماتھے پر سجدے کا نشان بن گیا تھا۔ حج کے آخری ایام میں اپنے گروپ کے ساتھ پرویز صاحب منیٰ پہنچے، کنکریاں مارنے کے لیے سبھی دوڑ رہے تھے اوربے تحاشہ دوڑ رہے تھے۔ پرویز صاحب کے ہاتھوں میں سات کنکریاں تھیں۔ وہ سبھی کے ساتھ دوڑنے لگے۔ ایک کنکری پوری قوت سے انہوں نے پتھر کے بنے اس نشانے پر ماری، جہاں پہلی بار شیطان نے حضرت ابراہیم کو خدا کی نافرمانی کے لیے ورغلایا اور بہکایا تھا۔ کنکری پتھرکے نشان کی طرف گئی اور ہوا ہی میں پلٹ کر ان کی طرف تیزی سے آئی اور زور سے ان کے لگی۔ وہ حیران وپریشان ہوکر ادھر اْدھر دیکھنے لگے کہ کس شخص نے ان کے کنکری ماری ہے؟ اسی وقت ان کے اوپر فضا میں ایک زور دار قہقہہ گونجا۔ انہوں نے جلدی سے اوپر دیکھا، لیکن کوئی نظر نہیں آیا۔ اسے اپنا وہم سمجھ کر پرویز صاحب نے دوسری کنکری ماری۔ کنکری ہوا میں گئی اورتیزی سے پلٹ کر پھر ان کے آکر زور سے لگی۔ اس کے فوراً بعد زور کا قہقہہ اوپر فضا میں گونجا۔ انہوں نے بے اختیار اوپر دیکھا اور پھر اپنے دا ئیں بائیں لوگوں کو دیکھنے لگے، یہ معلوم کرنے کے لیے کہ کیاکنکریاں ان لوگوں کے بھی آکر لگ رہی ہیں؟ اور کیا وہ لوگ بھی قہقہے کی آواز سن رہے ہیں، لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔ وہ سمجھ گئے کہ میری پھینکی ہوئی کنکریاں ہی واپس آکر میرے لگ رہی ہیں۔ صرف میں ہی اوپر فضا میں گونجنے والے قہقہے کو سن رہا ہوں۔ وہ بہت زیادہ فکر مند ہوگئے۔ ’’کیا شیطان میری پھینکی ہوئی کنکریوں کو واپس کرکے مجھے ہی مار رہا ہے؟‘‘ ان کے ذہن میں سوال ابھرا۔پرویز صاحب کے ہاتھ میں اب آخری کنکری تھی۔ تذبذب ، کشمکش ،الجھنیں، سستے ہوئے غمگین چہرے اورکانپتے دائیں ہاتھ سے زور لگاکر اس کنکری کو آخری نشان کی طرف پھینکا، لیکن وہی کنکری تیزی سے واپس آئی اور زور سے ان کے لگی۔ فوراً ہی ایک کم وقفے کے لیے فضا میں قہقہہ گونجا اورآواز آئی’’ کیوں پرویز ! توبھی مجھے کنکریاں مار رہا ہے۔ تو تو مجھ سے بھی بڑا شیطان ہے، تواشرف المخلوقات ہے، ریاکاری، مکاری، کینہ پروری، اﷲ کی نافرمانی ،دغا، دھوکہ، حق تلفی، اپنے مفاد کے لیے قتل کر ادینا تومجھ سے بھی زیادہ تجھ میں ہے۔ تیرے دل میں اب بھی ہے کہ وطن جاکر یہی سب کچھ پھر کروں گا۔ تواپنے نام کے آگے صرف حاجی لکھنا اورکہلوانا چاہتا ہے۔‘‘ یہ سن کر پرویزصاحب نے جلدی سے اپنے دائیں بائیں لوگوں کو دیکھا کہ کوئی اور تویہ جملے سن نہیں رہا ہے، لیکن ایسا نہیں تھا۔ سب رمی جمارات میں مصروف تھے۔انہوں نے سرگوشی کے لہجے میں کہا ’’میں اپنے حالات سے مجبور تھا۔تو نے مجھے ورغلایا میں تیری باتوں میں آگیا۔ تیرے سبز باغ دکھانے میں آگیا۔‘‘ اس کے بعد پھر آواز آئی ’’جھوٹ! مجھ سے زیادہ خود تیرانفس ذمہ دار ہے۔ تو اپنے بگڑے ماحول اورحالات سے ہجرت بھی کر سکتا تھا۔ ضروری نہیں تھا کہ ہجرت تو ملک سے باہر ہی کرتا، ملک کے اندر ہی ہجرت کی جاسکتی تھی، سارے ملک کے حالات تو بگڑے ہوئے نہیں ہیں۔‘‘شیطان اوراپنے جاگتے ہوئے ضمیر کی آواز ایک ساتھ سن کر پرویزصاحب کو چکر آگیا اور وہ دھڑام سے اڑدھام کے درمیان گرپڑے۔ ان کے اردگرد لوگ بے اختیار جھکے اورایک شخص نے انہیں اٹھاکر اپنے کاندھے سے لگالیا اور چلنے لگا۔ تھوڑی ہی دیر بعد پرویز صاحب کو ہوش آگیا۔ انہیں ایک طرف بٹھا کر پانی پلایا گیا۔ پانی پیتے ہی وہ بے اختیار وہیں سجدے میں گرگئے اور صدق دل سے اﷲ سے توبہ کی۔ وہ تو بہ ان کی توبہ النصوح یعنی سچی توبہ تھی، پھر سجدے سے اٹھ گئے اورلوگوں کے ساتھ آگے بڑھ گئے۔ وہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی توبہ قبول ہوئی ہے یا نہیں، لیکن انہیں اﷲ کی ذات سے قوی ا مید تھی کہ ان کی صدق دل سے کی گئی یہ توبہ اﷲ رب العزت ضرورقبول فرمالے گا۔

M A TABASSUM
About the Author: M A TABASSUM Read More Articles by M A TABASSUM: 159 Articles with 154016 views m a tabassum
central president
columnist council of pakistan(ccp)
.. View More