’’منشاء یاد‘‘افسوس دوسری برسی بھی خاموشی سے گذر گئی

اس خوب صورت دنیا کو تخلیق کرنے والے ارض و سماں کے مالک نے اس پر بسنے والوں کے لیے قانون بنائے یہاں آنے والے کوباور کروایا کہ تم مسافرہو، رخصت ہونے کا ایک وقت متعین ہے۔رب العالمین نے جب انسان کو تخلیق کیا تو فرشتوں نے کہا اے اﷲ ہم تیری عبادت کے لیے کافی نہیں جو آپ انسان کو تخلیق کر رہیں ہیں یہ تو دنیا میں جا کر فساد برپا کر یں گے، خدائے ذولجلال نے فرشتوں کو مخاطب کر کے فرمایا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔بعض انسان جسمانی طور پر اپنی زندگی کو انسانیت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔بعض سے قدرت مختلف طریقوں سے کام لیتی ہے۔انہیں میں سے ایک ممتاز افسانہ نگار منشاء یادجو 5ستمبر 1937کو ضلع شیخوپورہ کے قصبے ٹھٹہ نستر میں پید ا ہوئے اور 15اکتوبر2011کو اسلام آباد میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔
بچھڑا وہ کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا

ڈاکٹر غلام شبیر رانا کے مطابق منشاء یاد کی عمر تین برس تھی جب ان کی والدہ انھیں پنجابی لوک کہانیاں ،نعتیں،اسلامی واقعات اور داستانیں سناتی۔یہی وجہ تھی کہ داستان اور افسانے سے وابستگی ان کی گھٹی میں پڑی تھی۔ابھی وہ چھٹی جماعت کے طالب علم تھے کہ ان کی نظمیں،کہانیاں اور نعتیں ادبی مجلات میں شائع ہونے لگی تھیں۔ تاہم ان کا پہلا افسانہ 1955میں شائع ہوا۔میٹرک کے بعد وہ گورنمنٹ سکول آف انجینئرنگ(GSE) رسول میں داخل ہوئے اور وہاں سے1957میں ڈپلوما حاصل کیا، یہاں سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد وہ محکمہ پی ڈبلیو ڈی میں ملازم ہوگئے اور دو سال (1958-1960) اس محکمہ میں سب انجینئر کی حیثیت سے راول پنڈی اور مری میں خدمات انجام دیتے رہے۔ مئی1960میں انہوں نے وفاقی دارالحکومت کے ترقیاتی ادارے سی ڈی اے اسلام آبادمیں ملازمت اختیار کی اور اسی ادارے سے 1997میں ڈپٹی ڈائریکٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔

منشاء یاد کے درج ذیل افسانوی مجموعے معروف ہیں۔بند مٹھی میں جگنو 1957،ماس اور مٹی1980،خلااندر خلا1983،وقت سمندر 1986،وگدا پانی 1987،درخت آدمی 1990،دور کی آواز1994،تماشا1998،خوب سرائے 2005،جب کہ ایک پنجابی ناول ٹانواں ٹانواں تارامیں لکھا۔ان کوبہترین افسانہ نگاری پربابا فرید ادبی ایوارڈ2006،انٹرنیشنل پنجابی کانفرنس میں لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ2005،شارٹ سٹوری اور افسانہ نگاری پر پرائڈ آف پرفارمنس2004،رائٹر فورم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ2004،پنجابی ادبی کلچر سنگت ایوارڈ2004اور دیگر ایوارڈز سے نوازا گیا-

حیدر قریشی منشاء یاد کے بارے میں لکھتے ہیں منشا ء یاد اردو کے ممتاز افسانہ نگار تھے۔ ایک ادیب کی حیثیت سے انہوں نے لکھنے کے ساتھ پڑھنے کا عمل بھی جاری رکھا ،ان کا مطالعہ ادب اور ادیب ہر دو سطح پر جاری رہا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انہوں نے بعض ادیبوں کے خاکے لکھے ،بعض کتابوں کے ادبی جائزے لکھے،مضامین لکھے۔یوں مضامین کا مجموعہ ’’منشا ئیے‘‘ تیار ہو گیا۔میں ادب میں تنقید کا قائل ہوں ،نظری تنقید کی اہمیت کا معترف ہوں ،تاہم مجھے وہ تنقید اور نظری مباحث کھلتے ہیں جن میں پوری بحث کے آخر تک قاری کو یہی سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے کیا سمجھایا جار ہا ہے۔ایسی یبوست زدہ تنقید کے مقابلہ میں ادب کے قاری کی سیدھی سی رائے،اور کھلا تاثر زیادہ معتبر ہو جاتا ہے۔منشایاد نے ادبی شخصیات کا جائزہ لیا ہے یا ادبی کتابوں کا ،ہر دو قسم کے جائزوں میں انہوں نے ادب اور قاری کے رشتے کو صرف عام فہم نہیں بنایا، بل کہ دل میں اتر جانے والا بھی بنا دیا ہے ۔ممتاز مفتی ،عصمت چغتائی،ضمیر جعفری ،احمد ندیم قاسمی،قدرت اﷲ شہاب۔لطیف کاشمیری،اعجاز راہی ،ضیا جالندھری،ملک مقبول احمد،اکبر حمیدی،رشید امجد،احمد فراز اور متعدد دیگر معروف اور غیر معروف ادیبوں سے لے کر پروین عاطف اور فریدہ حفیظ تک منشا ء یاد نے کسی کی کتاب کا جائزہ لیا ہے، تو ساتھ ہی اس کی شخصیت کو بھی نمایاں کر دیا ہے اور شخصیت کا جائزہ لیا ہے تو اس کے ادبی قد وقامت کو بھی پیش کیا ہے۔

’’منشائیے‘‘ منشاء یاد کے ذاتی تاثرات پر مبنی مضامین ہیں ۔اس لحاظ سے کتا ب کا نام بہت بامعنی اور دلچسپ ہو جاتا ہے کتاب کے تمام مضامین میں منشاء یاد کا رویہ محبت آمیز رہا ہے، انہوں نے زیادہ تر وہ ادب پارے منتخب کیے ہیں،جن سے وہ اپنی ادبی محبت کے اظہار میں کوئی الجھن محسوس نہ کر سکیں۔اپنے ایمان دار انہ اظہار کی وجہ سے منشاء یاد کی تحریر بہت زیادہ دلچسپ ہو گئی ہے۔ اس میں جن شخصیات سے تعارف ہوتا ہے وہ ٓپ کی جانی پہچانی شخصیات ہو ں تب بھی ان کی شخصیت کے کئی نئے پہلو سامنے آتے ہیں ۔جو ایک طرح سے انکشاف کا درجہ رکھتے ہیں اسی طرح جن کتابوں کا جائزہ لیا گیا ہے اس سے متعلقہ کتب کو خود پڑھنے کی تحریک ملتی ہے۔

’’منشائیے‘‘روایتی تنقید کے مضامین کا مجموعہ نہیں ہے ،لیکن اپنے انداز بیان کی وجہ سے ہماری روایتی تنقید کی رہنمائی کرتا ہے۔ ان مضامین سے ہمارے ناقدین کرام سیکھنا چاہیں تو یہ سیکھ سکتے ہیں کہ کسی ادب پارے کے مطالعہ کا طریقہ کار کیا ہونا چاہیے قاری کو ادب سے قریب کرنا مستحسن ہے یاعلم بگھاڑنا جو صرف یبوست زدہ اور جارحانہ تنقیدکو سامنے لائے تنقید کے نام پر قاری کو ادب سے دور کرنے والے نقادوں کو ’’منشائیے ‘‘کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے ۔مجھے امید ہے کہ ایسے نقاد پھر اپنے لیے بہتر راہیں تراش سکیں گے۔ ذاتی طور پر مجھے’’ منشائیے ‘‘نے بہت ادبی مزہ دیا ہے میں ابھی تک منشاء یاد کے مضامین کی خوشبو میں گھر اہوا ہوں۔احمد علی برقی اعظمی نے منشایاد کے بچھڑ جانے پرایک نظم کہی جو قارئین کے لیے پیش خدمت ہے۔
نہیں رہے اب منشایاد ،رکھتے تھے جو سب کا شاد
ان کے سبھی افسانے تھے،جبر زمانہ کی فریاد
ان کے سبھی کرداروں میں ،تھے کچھ شاد تو کچھ ناشاد
لکھتے تھے روداد جہاں،نہیں تھا کوئی بغض و عناد
صفحہ ذہن پر ہیں وہ ثبت،ان کے نقوش رہیں گے یاد
سب کو یہاں سے جانا ہے،شیریں ہو یا ہو فرہاد
موت اسی کی ہے برقی ،جس کو کرے زمانہ یاد

منشا یاد اپنے افسانہ تیاری میں لکھتے ہیں ’’اقتدار اور دولت جب آتی ہے تو بہت سی چیزیں مفت میں ساتھ آ جاتی ہیں، جیسے مشورے دینے والے ،چاپلوسی کرنے اور ہاں میں ہاں ملانے والے۔اور زکاتوں،عطیوں اور چندوں سے کیموفلاج ناموں والی ایسی بندے مار تنظیمیں جو نوجوانوں کی کھوپڑیوں سے دماغ کی جھلی نکال کر اس کی جگہ بھس بھر دیتی ہیں ،اور وہ علم اور ٹیکنالوجی کے بجائے پرانے زمانے کے ہتھیاروں اور جذبوں سے گائیڈڈ میزائلوں کا مقابلہ کرنے نکلتے اور ان کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ چورا چکے ،اٹھائی گیرے اور پولیس اور ٹیکسوں کے مختلف محکمے بھی الرٹ ہو گئے تھے۔میرا ثی، کنجر،ڈوم،بھانڈ اور اس قسم کی دوسری برداریوں کے حاسدین اور فاسدین اس کے علاوہ تھے،جہاں گڑ وہاں مکھیاں،جہاں دولت و ہاں ٹھگ۔استاد کو اپنی اور اپنی دولت کی حفاظت کی خا طر ضرورت محسوس ہوئی کہ پولیس ،ٹیکسوں کے محکموں اور انتظامیہ سے تعلقات استوار کئے جائیں۔حکومت اور اقتدار پسند سیاسی پارٹیاں خود ایسے دولت مندوں کی تلاش میں رہتی تھیں،جو گھوڑوں اور گدھوں کی خریداری میں خود کفیل ہوں ۔چناں چہ استاد نفاست علی خان نے درجہ بہ درجہ اوپر تک رسائی حاصل کر لی اور حکومتی حلقوں میں اوپر تک بار پا گئے۔ڈاکٹر اقبال آفاقی کی نظر میں۔

منشاء یادد اکثر ’خواب سرائے‘میں محفل سجاتا۔فکشن خواب سرائے کا کھیل ہی تو ہوتا ہے خوابوں کی دنیا کے بغیر یہ کھیل اپنا رنگ نہیں جما سکتا تاہم وہ اپنے خوابوں کو حاضر اور موجود کے آس پاس ہی رکھنے کا قائل ہے وہ کسی نظریے تھیوری یا World-Viewکا دالدہ نہیں ہے۔وہ خاصا Pragmaticہے ۔حاضر دماغ اور حقیقت پسند۔زندگی کے سنگلاخ حقائق کا سامنا وہ اوائل عمر سے ہی کرنے کا عادی ہو چکا ہے۔اس لیے سرمستی ،عشق اور پوجا کا قائل نہیں ہے اور نہ ہی وہ لفظوں کے اندر سبھا سجانے کا قائل ہے other selfاس کے لیے ہمیشہ چیلنج رہا ہے اس نےf other selکے بارے میں مثبت یا منفی صورتحال کے مطابق کھلے بندوں رد و قبول کا مظاہر ہ کیا ہے اس نے اپنی پسند کے مطابق چیزوں کو لکھا ہے اور ان سے تعلقات استوار کیے ہیں وہ کہانی کو جیسا کہ زندگی ہے کی صورت میں بازیافت کرتا ہے۔

ڈاکٹر غلام شبیر رانانے گذشتہ روز منشاء یاد کے یاد میں ایک تحریر میں لکھا’’ بعض اوقات شگون بھی انسانی زندگی اور فکر و خیال پر گہرے اور دوررس اثرات مرتب کرتے ہیں ۔ابن انشاء نے جب اپنی غزل ’’انشاجی اٹھو اب کوچ کرو،اس شہر میں دل لگانا کیا‘‘ کہی تو ستم ظریف لوگوں کو اپنی درفنطنی چھوڑنے کا ایک موقع مل گیا، کالی زبان والے یہ کہتے ہوئے سنے گئے کہ اب ابن انشا کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔اب یہ صبح گیا کہ شام گیا۔خود ابن انشاء کو اس بدشگونی کا شدت سے احساس تھا اور وہ کہا کرتے تھے کہ یہ بدشگونی شاید ان کی زندگی کی شمع گل کر دے۔ بعض توہم پرست لوگوں کی رائے ہے کہ ابن انشاء اس غزل کی تخلیق کے بعد جلد ہی عدم بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے۔ منشاء یاد کے ساتھ بھی تقدیرنے عجب کھیل کھیلا۔اور اس غزل کی تحریف اور اس کے ممکنہ اثرات کے بارے میں لکھتے ہیں۔ہمارے بعض بدخواہ احباب جو اندر سے ہمیں جلد از جلد ابن انشاء مرحوم کے پاس بھیجنے کی خواہش رکھتے ہیں ،مذاق کے بہانے ان کی معروف غزل میں تھوڑی سی تحریف کر کے ’’منشاء جی اٹھو اب کوچ کرو‘‘گنگنانا شروع کر دیتے ہیں۔پتا نہیں ہمارے نام میں کیا خوبی یا خرابی ہے کہ بہت سے شاعر دوستوں نے اس کو خوب تختہ مشق بنایا۔منشاء یاد کو ہم سے بچھڑے دو سال بیت گئے لیکن وہ آج بھی ادبی محفلوں میں یاد کیے جاتے ہیں ۔ کتاب بین کہ دلوں میں آج بھی راج کیے ہوئے ہیں ۔ستم ظریفی تو یہ ہے کہ اس سال بھی ان کی برسی خاموشی سے گذر گئی۔حکومتی سطح پر کوئی تقریب منعقد ہوئی نہ ہی کوئی بیان جاری کیا گیا۔اس معاشرے پرماتم کرنا کا دل چاہتا ہے جہاں قلم دوستوں کی عزت نہ ہو جہاں منشاء یاد جیسی عظیم شخصیات دنیا سے رخصت ہو جاتیں ہیں ۔مگر ان کی نظریے،سوچ اور فکر کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا جاتا۔
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 51128 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More