جنرل کیانی اور نئے فوجی سربراہ کا انتخاب

جنرل اشفاق پرویز کیانی 42 سال پاکستانی آرمی میں رہنے کے بعد اس سال کے آ خر میں ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔خود انہوں نے اس بات کا اعلان اکتوبر2013ء کوکیا۔جنرل اشفاق پرویز کیانی20اپریل1952ء کو گوجر خان کے ایک گاؤں منگھوٹ میں پیدا ہوئے۔ملٹری کالج جہلم میں داخل ہونے کے بعد کاکول ملٹری اکیڈمی ٹرانسفر کر الیا جہاں سے انہوں نے 1971ء میں 45ویں’ پی ایم اے ‘ لانگ کورس میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔29اگست1971ء کو بلوچ رجمنٹ کی ففتھ بٹالین میں سیکنڈ لیفٹنٹ کے طور پر کمیشن حاصل کیا اوربھارت کے خلاف 1971ء کی جنگ میں بھی شامل رہے۔1971ء کی جنگ کے بعد کمانڈ اینڈ سٹاف کالج کوئٹہ میں داخل ہوئے اور اس کے بعد ڈیپوٹیشن پر تعلیم کے لئے فورٹ لیون ورتھ میں قائم یونائیٹڈ سٹیٹس آرمی کمانڈ اینڈ جنرل سٹاف کالج اور فور ٹ بیننگ میں واقع یونائیٹڈ سٹیٹس انفنٹری سکول میں رہے۔امریکی فوجی اداروں سے گریجویشن کرنے کے بعد پاکستان آ کرنیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے وار سٹیڈیز میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔کوئٹہ سٹاف کالج سے وار کورس کرنے کے بعد نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں سٹریٹیجک سٹیڈیز میں پروفیسر مقرر ہوئے۔لیفٹنٹ کرنل کے طور پر انہوں نے ایک انفنٹری بٹالین اور ایک انفنٹری بریگیڈ کی کمان کی۔سابق وریز اعظم بے نظیر بھٹو کے پہلے دور حکومت میں وزیر اعظم کے ڈپٹی ملٹری سیکرٹری رہے۔ ٹو سٹار رینک کے میجر جنرل کے عہدے پر ترقی پا کر وہ جنرل آفیسر کمانڈنگ(GOC) 12انفنٹری ڈویژن مری تعینات ہوئے جو کشمیر کو مصنوعی طور پر تقسیم کرنے والی سیز فائر لائین(لائین آف کنٹرول) پر تعینات ہے ۔2000ء میں وہ ڈائریکٹر آف دی ڈائریکٹریٹ جنرل آف ملٹری آپریشنز(DGMO)اور اسی دوران پاکستان کی سرحد وں بھارتی فوج کی بڑی تعدادمسلسل کئی ماہ موجود رہی۔ستمبر2003ء میں تھری سٹارجنرل مقرر ہوئے اور اسی سال انہیں کشمیر میں متعین(x cops)راولپنڈی میں بطور فیلڈ آپریشنل کمانڈر مقرر کیا گیا۔اکتوبر2004ء تک اسی عہدے پر کام کے بعد انہیں آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گیا۔اسی دور میں انہوں نے نے نظیر بھٹو کے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے ساتھ شراکت اقتدار سے متعلق بات چیت کی سربراہی کی اورمارچ2007ء میں جنرل مشرف اور چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی ’’ بات چیت‘‘ کے موقع پر بھی موجود تھے۔اکتوبر 2007ء میں فور سٹار جنرل ترقیاب ہوئے اور انہیں وائس چیف آف آرمی سٹاف مقرر کیا گیا۔28نومبر2007ء کو جنرل پر ویز مشرف کی ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل اشفاق پرویز کیانی چیف آف آرمی سٹاف مقرر ہوئے۔7مارچ 2008ء کو جنرل کیانی نے مسلح افواج کو سیاست سے دور رہنے اور مشرف حکومت کی حمایت سے الگ رہنے کی ہدایت کی۔2008ء میں بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد الیکشن پیپلز پارٹی کامیاب ہوئی۔پیپلز پارٹی حکومت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے 24جولائی2010ء کو چیف آف آرمی جنرل اشفاق پرویز کیانی کی مدت عہدہ میں تین سال کی توسیع کی۔جنرل اشفاق پرویز کیانی 1971ء کی پاکستان بھارت جنگ میں شریک رہے،بھارت کے ساتھ2002ء اور2008ء میں کشیدگی ،دہشت گردی کے خلاف جنگ اور طالبان کے خلاف فوجی آپریشن۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی پاکستانی فوج کے 14ویں سربراہ ہیں۔پاکستانی فوج کے پہلے سربراہ جنرل سر فرینک والٹر میسروی(15اگست1947سے10فروری1948ء)،2۔ جنرل سر ڈوگلس گریسی (11فروری1948سے16جنوری1951ء) ،3۔ جنرل ایوب خان(16جنوری1951ء سے26اکتوبر1958ء)،4۔جنرل موسی(27اکتوبر1958سے17جون1966ء)،5۔جنرل آغا یحی خان(18ستمبر1966سے20دسمبر1971ء)،6۔جنرل گل حسن (20دسمبر1971ء سے 2مارچ1972ء)،7۔جنرل ٹکا خان (3مارچ1972ء سے یکم مارچ1976ء)،8۔جنرل محمد ضیاء الحق (یکم مارچ1976ء سے17اگست1988ء)،9۔جنرل مرزا اسلم بیگ(17اگست1988ء سے 16اگست1991ء)،10۔جنرل آصف نواز جنجوعہ(16اگست1991ء سے 8جنوری1993ء)،11۔جنرل عبدالوحید کاکڑ(12جنوری1993ء سے12 جنوری1996ء)،12۔جنرل جہانگیر کرامت(12جنوری 1996ء سے 7اکتوبر1998ء)،13۔جنرل پرویز مشرف (7اکتوبر1998ء سے 28نومبر2007ء)،14۔جنرل اشفاق پرویز کیانی(نومبر2007ء سے )۔یوں پاکستانی فوج کے پہلے سربراہ چھ ماہ،دوسرے تین سال دو ماہ،تیسرے سات سال نو ماہ،چوتھے سات سال گیارہ ماہ،پانچویں پانچ سال تین ماہ،چھٹے تقریبا تین ماہ،ساتویں چار سال،آٹھویں بارہ سال پانچ ماہ، نویں تین سال،دسویں ایک سال پانچ ماہ،گیارھویں تین سال،بارھویں دو سال نو ماہ اورتیرھویں فوجی سربراہ نو سال ایک ماہ اس عہدے پر رہے۔

جنرل اشفاق پرویز کیانی کا تین سالہ معیاد عہدے مکمل ہونے کے بعد مزید تین سال کی توسیع 28نومبر2013ء کو ختم ہو رہی ہے۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے حوالے سے کئی مبصر ملک میں جمہوریت کو قائم رکھنے کو ان کا سب سے بڑا کار نامہ قرار دیتے ہیں ۔اس حوالے سے ایک سینئر تجزئیہ نگار نے یہ بھی کہہ دیا کہ ’’جنرل اشفاق پرویز کیانی کی جگہ کوئی بھی دوسرا ہوتا تو ملک میں جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی‘‘۔کیا منظر ہے کہ ملک سے جمہوریت کی بساط نہ لپیٹنا کار ہائے نمایاں کے طور پر بیان ہو رہا ہے ۔جنرل اشفاق پرویز کیانی نے فوج کو سرکاری اداروں،محکموں سے واپس بلایا ، سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی بحالی میں ’’فیصلہ کن‘‘ کردار ادا کیا۔ان کے دور میں طالبان سمیت مختلف دہشت گرد گروپوں کے خلاف قبائلی علاقوں میں آپریشن وسیع و تیز ہوا،اسی دور میں جی ایچ کیو سمیت مسلح افواج پاکستان کی مختلف تنصیبات پر دہشت گردوں کے حملوں میں شدید نقصان ہوا۔افغانستان میں متعین امریکی فوج نے ہوائی راستے سے ایبٹ آباد میں آ پریشن کیا اور اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا دعوی کیا۔دہشت گردی کے خلاف جنگ ہو یا بھارت کے ساتھ حساس و خطرناک معاملات،بادی النظر میں جنرل اشفاق پرویز کیانی سابق فوجی سربراہ جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں پر ہی کار بند نظر آتے ہیں ،تاہم موجودہ وزیر اعظم نواز شریف کے دور حکومت کے بعد ان حوالوں سے بعض تبدیلیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔جنرل اشفاق پرویز کیانی کے دور میں ہی فوج کا نیا ’’وار ڈاکٹرائن‘‘ تشکیل دیا گیا جس میں پاکستان کے لئے روائتی مشرقی سرحدوں کے خطرات پر مغربی سرحد اور دہشت گردی وغیرہ سمیت دوسرے اندرونی خطرات کو مقدم قرار دیا گیا۔پاکستانی فوج میں ایک فل جنرل،26لیفٹنٹ جنرل اور تقریبا150میجر جنرل ہیں۔26لیفٹنٹ جنرل میں سے 8لیفٹنٹ جنرل 2014ء میں،8 لیفٹنٹ جنرل2015ء کو اور 10لیفٹنٹ جنرل2017ء کو ریٹائرڈ ہونے ہیں۔

جنرل ایوب خان کے خطوط پر استوار آج کا پاکستان جمہوری حکومت کے قیام کے باوجود فوج کے سربراہ کی واضح حاکمانہ برتری کا انداز لئے ہوئے ہے۔ملک کے آئین کو توڑنے والی حکومتوں کو جائز قرار دیکر حکومتی سلسلہ آگے چلانے کے’’ طریقہ کار‘‘ کی بدولت وزیر اعظم اور صدر چیف آف آرمی سٹاف کی فیصلہ کن طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہیں۔پاکستان کی آئینی حکومتوں کے خلاف بغاوت کر کے ملک پر قبضہ کرنے والے فوجی آمروں میں جنرل ایوب خان،جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کانام آتا ہے جبکہ جنگ میں شکست کھانے والوں،ملک کے حصے گنوانے والوں میں جنرل ایوب خان 1965ء کی جنگ،جنرل یحی خان 1971ء کی جنگ،جنرل ضیاء الحق، سیاچن اور جنرل پرویز مشرف ،کرگل شامل ہیں ۔فوجی حکومتوں کی پالیسیوں نے سیاسی جماعتوں کا وہ حال کیا کہ اب پاکستان کی سیاست ’’ آب زم زم کی بوتل میں شراب ‘‘ کی مانند ہے‘‘۔یوں ملک میں جمہوری نظام آنے کے باوجود چیف آف آرمی کی فیصلہ کن برتری بدستور قائم و دائم ہے۔آئندہ ماہ پاکستانی فوج کے 15ویں سربراہ آنے کو ہیں۔پاکستانی فوج کی حکمت عملی پر امریکہ کی پالیسیاں گہرے طور پر اثر انداز ہوتی ہیں یعنی پاکستانی فوج کی پالیسیاں امریکہ کے انداز فکر و عمل سے شدید متاثر ہوتی ہیں۔یوں جنوبی ایشیا سمیت تمام خطے میں امریکی پالیسیاں نا صرف گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں بلکہ امریکہ کی پالیسیاں ہی اس خطے کے رجحانات کے رخ کا تعین بھی کرتی ہیں۔آج امریکہ اور پاکستان کو اپنے ہی ہاتھوں تیار کئے گئے طالبان کی عسکریت کا سامنا ہے جو امریکہ کے لئے تو نہیں لیکن افغانستان اور پاکستان کے لئے خانہ جنگی کی سی صورتحال لئے ہوئے ہے۔

فوج کے سینئر ترین پانچ تھری سٹار جنرلز میں سے نئے فوجی سربراہ کا انتخاب ہونا ہے۔ وزیر اعظم کسی کو بھی اس عہدے پر فائز کرنے کا اختیار رکھتے ہیں تاہم کسی جونئیر کی تقرری پر اس سے سینئر فوجی افسران کو ریٹائرڈ ہونا پڑے گا۔نئے فوجی سربراہ کے لئے سامنے آنے والے ناموں میں بلحاظ سینارٹی ، سپیشل سروسز گروپ کے کمانڈر لیفٹنٹ جنرل ہارون اسلم( آزاد کشمیر رجمنٹ)،لیفٹنٹ جنرل راشد محمود، لیفٹنٹ جنرل راحیل شریف( بھائی شبیر شہید نشان حیدر)لیفٹنٹ جنرل طارق خان اور لیفٹنٹ جنرل ظہیر الاسلام شامل ہیں۔نئے فوجی سربراہ کا انتخاب وزیر اعظم نواز شریف کا اختیار ہے لیکن یقینا اس حوالے سے بھی وزیر اعظم کے اختیارات چند حدود و امور کے پابند ہوں گے۔ پسند کی بنیاد پر فوجی سربراہ کے انتخاب کا معیار ذولفقار علی بھٹو کی طرف سے جنرل ضیاء الحق اور نواز شریف کی طرف سے جنرل پرویز مشرف کی صورت ناکام اور ملک کے لئے ثابت ہوا ہے۔اس وقت تو نئے فوجی سربراہ کے تقرر کا اختیار وزیر اعظم محمد نواز شریف کے اختیار میں ہے لیکن اس اہم ترین عہدے پر تقرری کے بعد فائز ہونے والے جنرل کا بھی ملک کا موثر ترین عہدیدار ہونا شک و شبہ سے بالا تر ہے اور یہ کہ ملک میں اب ایسے لوگ ہی نہیں بلکہ ایسے طبقات بھی ہیں جن کی امیدوں کا محور و مرکز پاکستانی فوج کا سربراہ ہی ہوتا ہے-
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613056 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More