فوج میں مسلمانوں کو نمائندگی کی باتیں

اردو اسکولوں میں اردو ٹیچر دستیاب نہیں

مکرمی ۔مرکزی حکومت کی جانب سے مسلم طبقہ کو فوج میں نمائندگی کی باتیں زور و شور سے کہی جارہی ہیں۔مرکزی سرکار و صوبائی سرکاریں مسلم اقلیت کیلئے کتنی سنجیدہ ذرا ملاحظہ فرمائیے۔ دہلی میں کانگریس نے اردو کے تئیں اپنی ذمہ داری ایمانداری سے ادا نہیں کی۔ مرکزی سرکار نے مسلمانوں کے تئیں ایک رسم ادا کرتے ہوئے ایک دباؤ بنایا جس کے تحت دہلی میں کانگریس کی شیلاحکومت نے ’’اردو‘‘ کودوسری سرکاری زبان کا درجہ صرف سیاسی طور پر دیا۔ جس سے اردو کو فائدہ ہونے کے بجائے کافی نقصان پہنچا۔حالانکہ جب دہلی میں اس زبان کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل نہیں تھا۔ تب اردو زیادہ ترقی کررہی تھی۔جب سے اس زبان کو سرکاری زبان کے ’’سرکاری تغمہ‘‘ سے نوازہ گیا۔ تب سے اردو کے ساتھ اور محبان اردو کے ساتھ زیادتی میں مذید اضافہ ہونے لگا۔اب حالت یہ ہے کہ جن سرکاری اردو میڈیم اسکولوں کی نگرانی دہلی حکومت کرتی ہے۔ ان میں اردو سے ناواقف افراد کی تقرری تب سے زیادہ ہونے لگی۔اب فوج میں مسلمانوں کی نمائندگی کا ایک نیا خواب منظر عام پر ہے۔اس کیلئے وعدے اور دعوے بہت زیادہ کئے جاتے ہیں۔مگر زبانی جمع خرچ کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتا۔ دہلی جوکہ ہندوستان کی راجدھانی ہے۔ یہاں شیلاجی کی حکمرانی میں چلنے والے مذکورہ اسکولوں کی تعداد 24 ہے۔ان میں 2 (دو)اردو میڈیم اسکول ایسے ہیں۔جن کے پرنسپل اردو جانتے ہیں۔ باقی 22 ۔اردو اسکولوں کے پرنسپل وہ ہیں جو اردو جانتے ہی نہیں۔باقی اسٹاف کا حال خود عیاں ہوجاتا ہے۔جب شیلاجی آج سے 18سال قبل دہلی کا اقتدار ملا تھا تو اس وقت اردو اسکولوں میں اردو سے واقف کار پرنسپلوں کی تعداد 19تھی۔ مگر اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ دئے جانے کے اعلان کے بعد اردو سے اردو اسکولوں میں ہی زیادتی ہونے لگی ، اردو سے واقف کار ٹیچروں کا تقر ر ان اسکولوں میں تقریباً بند کردیا گیا۔اردو جاننے والے پرنسپلوں سلسلہ وار ہٹادیا گیا۔یہ ایک سچائی ہے کہ مذکورہ اسکولوں میں پڑھنے والے طلباء وطالبات ان اسکولوں میں داخلہ اس وجہ سے ہی لیتے ہیں۔ کہ ان کو اردو سے عقیدت ہے۔ اور وہ معیاری اردو پڑھنا چاہتے ہیں۔مگر شیلاحکومت کے د ور اقتدار میں اردوسے عدم وقف کار لوگوں کا تقرر،مذکورہ اسکولوں میں کرکے وہاں طلباء و طالبات پر سلسلہ وار ظلم کیا گیا جو ابھی بھی جاری ہے۔ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اردو اسکولوں میں جہاں اردو ٹیچر کی حد درجہ ضرورت ہے۔وہاں اردو ٹیچر دستیاب نہیں۔اردو اسکولوں میں اردو کو کچلنے کیلئے درسی کتابوں کی دانشتہ عدم موجودگی ہے ۔اردو کتابوں کی عد م فراہمی سے اردو طلباء کو حد درجہ پریشانی سے روبرو ہونا پڑرہا ہے۔ہمارے لیڈران مسلمانوں کی فوج میں بھرتی کرنے کی باتیں کرکے اس پر پردہ ڈال رہے ہیں۔ پہلے تو دہلی کے اردو میڈیم اسکولوں پر توجہ ڈال کر مسلم اقلیت کی واجب ضرورت کو پورا کیا جائے۔ جو مسائل شیلاجی کی اٹھارہ سالہ حکمرانی میں اردو کو دوسری سرکاری درجہ ملنے کے بعد دشوار گزار حالات کی وجہ سے التوا میں پڑے ہیں ۔ہیں۔ان کی حکمرانی میں اردو اسکولوں کو ایک طویل عرصہ میں ایک بھی نیا اردو ٹیچر نہیں ملا ہے۔ان کے افسران اردو اسکولوں سے اردو ٹیچر وں کو ریٹائر کرکے ان کو اپنے گھر بھیجنے میں تو بڑے ماہر ہیں مگر ان کو اردو داں پرنسپل و ٹیچر محیہ کرنے میں قطعی دلچسپی نہیں ۔اس کیلئے نہ ہی وہ سنجیدہ ہیں مرکزی سرکار کے مسلمانوں کے تئیں ہمدرد لیڈران حالات کا خود جائزہ لیں۔تو حقائق از خود واضح ہوجائیں گے۔

حالانکہ یہ دہلی میں کانگریس کی شیلا حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ مرکزی ہدایات کا اقتدار کے حصول کے بعد احترام کرتیں اردو میڈیم اسکولوں کیلئے ایک ضابطہ مرتب کرتی۔۔ اردو میڈیم اسکولوں میں اسٹاف کا تقرر کر نے کیلئے اردو سے واقف کاری کی شرط کو لازمی طور پر لاگو کرایا جاتا۔مگر خود انہوں نے اور ان کے افسران نے اپنی منصبی فرائض کو پورا نہیں کیا۔ اس کیلئے محترمہ نے نا صرف مرکزی سرکار کو اندھیرے میں رکھا بلکہ اردو داں طبقہ کو گمراہ کیا۔ اب مسلم علاقوں میں اردو کو کچلنے کی تیاری کی جارہی ہے اردو کو سیاسی طور پر کچلنے کیلئے مسلم حلقوں سے ایسے لوگوں کو ٹکٹ دئے جانے کی باتیں سامنے آرہی ہیں ۔ جو اردو کے تئیں غیرذمہ دار ہیں اورجو اردو بولنے سے بھی دانشتہ گریزکرتے ہیں۔ ایسے مسلم لیڈروں ٹکٹ دیا جائے گا۔ جائے۔ جو کانگریس کے سیاسی فائدے کے مدنظر کام کریں۔کانگریس میں مسلم دشمن ایسے مسلم لیڈر بھی ہیں جو مسلمانوں کو نقصان پہنچارہے ہیں۔جو ابھی بھی مسلم پرسنل لاء میں مداخلت سے بھی گریز نہیں کررہے۔ راشن کارڈکی تجدید کاری کے سہارے غریب مسلمانوں کا ووٹ بٹورنے کیلئے خاتوں کو مسلم خاندان کا اور مردو ں کا سرپرست بنارہے ہیں۔ مسلم پرسنل کے تحت مسلم خاندان کی سر پرستی کا حق مرد کو ہے۔ لیکن ایک صوبائی وزیر کی شرارت و رضا مندی سے مسلم خاتون کو دربہ در کی خاک چھاننے پر مجبور ہونا پڑرہا ہے۔مسلم خاتون گھر کی زینت ہے۔ مگر آج چند لیڈروں اپنی شرارت سے ان کو اپنے گھروں کے باہرنیکالا ان کو سستی خوراک کا لالچ دے کر لمبی قطار میں سیاسی دفتروں کے سامنے بھیکاری کی طرح کھڑا کردیا۔مسلم خواتین کی ایسی درگتی ہندوستان کی تاریخ میں شاید پہلے کبھی نہیں ہوئی ہوگی۔ جو سرکار مسلم اقلیت کے بچوں کو اردو ٹیچر دستیاب نہیں کراسکتی۔1976 ؁ء میں ڈی ڈی اے کے ہاتھوں مسمار کئے گئے ایک اردو میڈیم کو اڑتیس سال گذرنے کے بعداس کو جگہ اس وجہ سے فراہم نہیں کرتی کہ وہ ایک اردو میڈیم اسکول ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے حج ہاؤ س کیلئے تعین کردہ وقف بورڈ کی املاک خسرہ نمبر 142، جس کے بغل میں ایک صوبائی مسلم وزیر کی کوٹھی ہے۔اس وقف املاک کے ایک بہت بڑے حصہ کو وقف بورڈ سے چھین کر، مسلمانوں سے چھین کراردناچل بھون کے سپرد کردیا گیا۔جہاں اس خسرہ نمبر 142 کے اس حصے پرناجائز قبضہ کرکے علی الاعلان اردناچل بھون کی تعمیر مسلم لیڈروں کی رضا مندی سے کی جارہی ہے؟۔اس طرح کی باتوں کے مدنظر مسلم اقلیت کے تئیں وفاداری میں دم بھر رہے ہیں۔اب دہلی کی مسلم عوام کو صاف نظر آرہا ہے۔کہ بات توفوج میں مسلمانوں کی بھرتی کی کی جارہی ہے۔ مگر جن چیزوں پر ان کا حق ہے۔جب وہ ہی ان سے چھین لی جائیں تو پھر فریادی کس سے شکوہ کرے۔مسلم پرسنل لاء میں مداخلت ،غریب مسلم خاندانوں کی مسلم خواتین کے ساتھ مذاق ، وقف املاک پر قبضہ، اردو ٹیچروں کی اردو میڈیم اسکولوں میں عدم فراہمی،قومی اردو اسکول کو جگہ کی عدم دستیابی،حج ہاؤس کی جگہ سے بے توجہی،ا س کے ایک حصہ پر ناجائز قبضہ کو منظوری، جس سیاسی جماعت کو مسلمانوں نے اپنا سمجھا۔مگر اس جماعت نے مسلم اقلیت پر اپنی اٹھارہ سالہ دور حکمرانی میں مذکورہ مسائل کا بوجھ لادھ دیا۔آخراس بے توجہی کا سلسلہ اب کہاں تک جاکر روکے گا۔مسائل کے اس بوجھ کو اب کون ہلکا کرے گا۔افسوس ہے کہ مسلم اقلیت اب انصاف کہاں ڈھونڈھے ۔ بس یہ اشعار
ٹوٹے ہوئے تاروں میں ضیاء ڈھونڈ ھ رہے ہیں
مانگی ہوئی جنت میں ، ــ’پناہ ‘ ڈھونڈ ھ رہے ہیں
مجھ کو آتی ہے۔۔۔۔ ’ دَیا ‘ یارانِ جہاں پہ
مٹی کے کھلونوں میں ۔’’ خدا ‘‘ ڈھونڈ ھ رہے ہیں

Ayaz Mehmood
About the Author: Ayaz Mehmood Read More Articles by Ayaz Mehmood: 98 Articles with 73940 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.