ا ،ب ،پ، یقین

مجھے ایک شادی میں جانے کا اتفاق ہوا جہاں پر ایک خوبصورت بچے سے جس کی عمر 14،15سال تھی ملاقات ہوئی یہ بچہ دیکھنے میں بہت با صلاحیت،ملنسار۔ اور با اخلاق لگ رہا تھا۔ میں اس کے اخلاق سے متاثر ہوا اسے اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ آپ کس کلاس میں پڑھتے ہو وہ بچہ جسکا نام عمر تھا بولا پہلے میں پڑھتا تھامگر اب میں نے سکول چھوڑ دیا اس کے اس جواب سے میں حیران ہوا میں نے غور سے اس کی طرف دیکھا وہ سمجھ گیا کہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں اور میں اس کے اس جواب سے حیران ہوں۔اس نے بات کو دھرایا اور پھر سے کہا میں سچ کہتا ہوں کہ پہلے میں پڑھتا تھا مگر اب میں نے سکول چھوڑ دیا ۔میں نے اس سے سوال کیا کیوں؟ کیا کوئی مالی پریشانی ہے؟ گھر والے سکول نہیں جانے دیتے یا کوئی اور مسئلہ ہے وہ بولا ان میں سے ایک بھی نہیں ،کوئی مالی مسئلہ ہے نہ گھر والوں کا، بلکہ مجھے تو میرے استاد اور والدین آج بھی کہتے ہیں کہ سکول جاؤ۔مگر میں نہیں جاتا میں نے پھر پوچھا کہ ایسی کونسی وجہ ہے کہ تم نے سکول چھوڑ دیا تم نالائق بھی نہیں ہو پھر وجہ کیا ہوئی وہ بولا میرا آئیڈیل،میرا ہیرو، میرا،ماموں تھا جس سے میں بہت متاثر تھا میں نے جب سے ہوش سنبھالا ان کو ٹاپ کرتے ہوئے دیکھا وہ بہت غریب تھے، ان کے والد نے بہت محنت کی، زمانے کے ہر حالات کا مقابلہ کر کے ان کو تعلیم دی ان کا خواب تھا کہ وہ پڑھ لکھ کر بڑے آدمی بنیں گے، اور ان کی زندگی کی محنت کا پھل دیں گے ،میں جب سنتاکہ میرے ماموں نے میٹرک ٹاپ کیا،ایف ایس سی ٹاپ کیا،بی ایس سی ٹاپ کیا،ایم ایس سی اپنے میرٹ پر کیا،تو میرے اندر بھی تعلیم حاصل کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا اور میراخواب بھی تھا کہ میں ماموں کی طرح ہر کلاس ٹاپ کروں لوگ میری عزت کریں اور بڑا ہو کر اپنے والدین کا سہارا بنوں اسی خواب کو پورا کرنے کے لئے دن رات محنت کی اور میں اپنی کلاس میں سب سے لائق ہو گیا میں اپنے آئیڈیل کو فالو کرتا گیا میرے ماموں نے ایم ایس سی کرنے کے بعد بھی تعلیم جاری رکھی تمام تر مشکلات،مسائل،اور برے حالات کے باوجود بھی ایم فل کامیابی سے کیا ان کے ایم فل کرنے کے بعد یوں لگ رہا تھا کہ ان کی قسمت بدل جائے گی ،کیوں کی ایم فل کرنا کوئی آسان کام نہیں اور پورے ضلع میں صرف چار آدمی ہیں جنہوں نے ایم فل کیا ہے پانچویں میرے ماموں تھے جنہوں نے فزکس میں ایم فل کیا،باقی چار تو اچھے مالی حالات والے تھے وہ ایم فل کرنے کے بعد بڑی اچھی پوسٹوں پر اب کام بھی کر رہے ہیں ۔میرے ماموں نے ایم ایس سی سے ہی نوکری کی تلاش شروع کر دی تھی انہوں نے پرائیویٹ سکولوں،کالجز،اور ٹیوشن پڑھا کے اپنے حالات کا مقابلہ کیا ان کا خیال تھا کہ ایم فل کر نے کے بعد ان کو کسی قسم کی سفارش کی ضرورت نہیں پڑھے گی۔ایم فل کرنے کے بعد انہوں نے سنجیدگی سے اپنے شعبے یعنی ٹیچنگ میں بھاگ دوڑ شروع کی وہ جگہ جگہ انٹرویو دیتے رہے،مختلف سیاسی شخصیات سے ملتے رہے،مگر سب ان سے فائل لیتے،سی وی لیتے،ان کو تسلیاں دیتے رہے کام کرنے کو کوئی بھی تیار نہ تھااور وہ تاحال بے روزگار ہیں۔اندرون خانہ ان سے بھاری رشوت بھی مانگی گئی،مگر وہ ایم فل کرنے کے بعد اپنے میرٹ پر ہونے کی وجہ سے اپنے تمام تر امتحانات کو پاس کرنے کے با وجود، اب مایوس بے بسی اور پریشانی کی زندگی گزار رہے ہیں میرے ماموں اپنے آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ایم فل بعد اور کیا کیا جائے کے مجھے نوکری ملے ان کی ایم فل بھی ان کے حالات اچھے نہیں کر سکی،ان کو پہلے کہاگیا کہ تمارا میرٹ میں چوتھا نمبر ہے ، جب وہ فل ہوا تو کہا گیا کہ تمارا پانچواں نمبر ہے،وہ بھی فل ہو گیا تو اب کہا جا رہا ہے کہ تمارا نواں نمبر ہے ان کی جگہ ایم ایس سی والوں کو سیٹ کر دیا گیا مگر ان کو کہا جا رہا ہے کہ تم میرٹ پر نہیں ہو سوال تو یہ ہے کہ ایم ایس سی والا لگ سکتا ہے اور ایم فل میرٹ پر نہیں یہ کون سی میرٹ لسٹ ہے۔مگر حقیقت یہ نہیں سچ یہ ہے کہ ان کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا جاہا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں پر تعلیم حاصل کر کے والدین کا سہارا نہیں بنا جا سکتا ،تعلیم سے آپ یہاں پر کچھ نہیں کر سکتے کیوں کہ یہاں پر تو جس کی لاٹھی اس کی بھنس ہے جس کاخاندان بڑا ہے جس کی فیملی کے لوگ بڑے بڑے عہدوں پر ہیں وہی یہاں پر با عزت زندگی گزارنے کا حق رکھتے ہیں جن کے پاس رشوت دینے کے لئے خوب پیسے ہیں وہی کچھ پا سکتے ہیں جب میرا ماموں ایم فل کر کے بے روزگار ہے تو میں کیا کر پاوں گا زیادہ سے زیادہ ایف اے،بی اے، ایم اے،بس پھر میرا مستقبل کیا ہوگا میں بھی تو اسی فیملی سے ہوں جس سے میرے ماموں کا تعلق ہے۔ہمیں کون نوکری دے گا میں اپنے والدین کے لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی ان کو مایوس کروں گا بہتر ہے آج سے ہی اپنی محنت مزدوری کر کے کوئی ہنر سیکھ کے ان کا سہارا بن جاوں۔میں نے خاموشی سے اس کی کہانی سننے کے بعداس سے اس کے ماموں کا نام پوچھا تو اس نے بتایا کہ میرے ماموں کا نام اظہر سعید ہے وہ باغ کے گاوں چیڑان میں رہتے ہیں آج کل پرائیویٹ کسی سکول میں پڑھا کر اپنا وقت گزار رہے ہیں۔اب آپ بتائیں میں کیا کروں کیا اس معاشرے میں ،اس ملک میں جس میں انسان کی قدر و قیمت تعلیم سے نہیں،محنت سے نہیں بلکہ خاندان کے بڑے ہونے سے ہو تعلیم کا کوئی فائدہ ہے ؟ میں اس بچے کے اس طرح کے بہت سے سوالوں کا جواب نہیں دے سکا کیوں کہ میرے ہر سوال کے جواب میں اس کے پاس ایسی ہی ایک سچی تلخ کہانی تھی میں اس کو سمجھاتا بھی تو کیا کہ تم اپنے والدین کی جمع پونجی ختم کر وا کے بھی بے روزگار مارے مارے پھرو۔میرے پاس سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ مجھے افسوس ہوا یہ سب سن کر ۔ایک غریب والدین کیا کیا خواب اپنی آنکھوں میں سجا کر اپنے بچوں کو تعلیم دلاتے ہیں مگر جب وہ وقت کے فراعونوں کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں تو سوائے مایوسی کے ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا،لاکھوں روپے خرچ کرنے کے بدلے میں در در کی ٹھوکریں ملتی ہیں میں تو مبارک باد پیش کرتا ہوں ان بچوں کو، ان والدین کو جو یہ سب جانتے ہوئے بھی ،ا،ب،پ،یقین رکھتے ہوئے خود کو تعلیم یافتہ بناتے ہیں۔اظہر سعید کے لئے دعا گو ہوں۔

iqbal janjua
About the Author: iqbal janjua Read More Articles by iqbal janjua: 72 Articles with 69281 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.