مغربی ثقافتی سونامی:اخلاقی بنیادیں اورہمارا کل

ہر قوم، ملک، علاقے اور مذہب سے وابستہ لوگوں کی اپنی ایک تہذیب ہوتی ہے ۔یہ ضروری نہیں کہ وہ ایک دوسرے سے ملتے ہوں۔کسی کے نزدیک قوم اہم ہے اور اسی سے وابستہ روایات کی اہمیت و افادیت ہے۔یہی حال مذہب کا بھی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان جیسے ممالک کے عوام کے نزدیک مذہب کی اہمیت کچھ زیادہ ہی ہے ۔میں اشرافیہ اور دین بیزار چند فیصد کی بات نہیں کر رہا بلکہ سواد اعظم کی بات کر رہا ہوں۔اور ظاہر سی بات ہے کہ نظریاتی بنیادوں پر قائم ایک ملک کے کلچر، تہذیب تمدن اور ثقافت کو بھی اسی سانچے میں ڈھالا جانا چاہیے لیکن آج تک یہ طے ہی نہیں ہو سکا کہ پاکستانی کلچر کس بلا کا نام ہے۔یہ کہاں سے پھوٹے گا اور کیا گل کھلائے گا۔اس کلچر کی بنیاد کیا ہو گی؟ اس میں مذہب اور ہماری روایات کا کتنا حصہ ہو گا۔ہماری وہ کون سے ثقافت ہے جس سے ہم دنیا کو روشناس کرانا چاہتے ہیں۔فنون لطیفہ کو لیجیے ۔علامہ اقبال نے اسے یوں بیان کیا
بے معجزہ دنیا میں ابھرتی نہیں قومیں
جو ضربِ کلیمی نہیں رکھتا وہ ہنر کیا

ہم نے دنیا کو کیا دیا ہے۔کبھی ہمارے فیملی ڈراموں میں جان ہوتی تھی اور ہندوستان تک میں پسند کیے جاتے تھے۔اب ان کا حال یہ ہے کہ جب سے میڈیا کو’ آزادی‘ ملی ہے نجی چینلز نے ان موضوعات کو چنا ہے جن پر بات کرتے ہوئے کبھی جھجکتے تھے۔وفا گالی بن کر اور بے وفائی ادا بنا کر سامنے لائے گئے ہیں۔شادی کے بعد عورت اور مرد دونوں کو خوبصورت مردوں اور عورتوں سے تعلقات قائم کرتے اور ان تعلقات کے لیے دلائل فراہم کرتے دکھائے جا رہے ہیں۔کسی دور میں دوپٹہ اور ٹوپی کلچر کے طور پر متعارف کروائے گئے۔ شاید اس دور تک قائد اعظم کی ٹوپی اور فاطمہ جناح کے دوپٹے سے محبت کرنے والے مرد و زن موجود تھے۔ نیا دور نئے نعرے لایا ۔ان کو نقش کہن کی طرح مٹا دیا گیا۔ نجی چینلز اور قومی ٹی وی پر میزبان خواتین و حضرات کو غور سے دیکھ لیں۔ آپ کو داڑھی، شلوار قمیص اور دوپٹے کی حوصلہ شکنی ملے گی۔دسمبر ہو یا جون مرد کا لباس پورا لیکن خواتین میزبان بغیر بازؤوں، آدھے بازؤوں، کھلے گلوں، چست قمیصوں اور تنگ پاجاموں نیزکٹے ہوئے بالوں اور بے باک گفتگو میں طاق ملیں گی۔ اب تو اس ملک کی مذہبی، دینی اور انقلابی جماعتوں نے اس بارے میں سوچنا ہی چھوڑ دیا ہے۔ حیرت ہوتی ہے جب کسی مذہبی راہنما کو کسی ننگِ سر خاتون اینکر سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کربات کرتے دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں’ خدا وندا یہ تیرے سادہ دل بندے کدھر جائیں‘۔کسی دور میں قومی ٹی وی پر کوئی خلاف ادب بات ہوتی تو ہزاروں خطوط لکھے جاتے، فون کیے جاتے، اخبارات میں کالم لکھے جاتے ۔اب تو کالم نگار بھی اس مسئلے کو اہم نہیں سمجھتے، شاید ان کے نزدیک تہذیب و ثقافت مسئلہ ہے ہی نہیں۔جنرل ضیاء الحق کے دور میں تاریخی ڈرامے بنتے رہے ہیں اور سماجی و اصلاحی بھی۔ پاکستان میں فلم کا دور ختم ہو گیا ،اس لیے کسی اچھے موضوع پر فلم کا سوچنا ایک فضول کام ہے۔پاکستان کا وہ چہرہ دنیا کو دکھایے جس سے وہ نفرت کرے، آپ کو شہرت مل جائے گی۔اور آپ کی فلم اکیڈمی ایوارڈسے نوازی جائے گی۔دنیا واہ واہ کرے گی۔اس ملک کی بنیاد اسلام اور اردو زبان تھے یہ بتانے اور دکھانے کی ضرورت نہیں۔بلکہ اب تو اردو کش اردو بولی جاتی ہے ۔اہلیت کے سارے سوتے خشک تو نہیں ہوئے۔کیوں اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام کو موضوع نہیں بنایا جاتا۔موضوع بنتا ہے تو تیزاب سے جلے چہرے ،سوات کی وادیوں میں جاری رقص ابلیس ۔ صوفی محمد کی تحریک کو طاقت سے اور شیخ الاسلام کی تحریک کو بات چیت سے ختم کیا جاتاہے۔ اسلام کو بدنام کرنے کے لیے ہمارا میڈیا سب سے بڑھ کر کردار ادا کرتا ہے۔یقین نہ آئے تو اس میڈیامہم کو یاد کریں جو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں موسیقی ،مخلوط محافل اور کنسرٹ پر پابندی کے خلاف چلائی گئی۔ خواتین کو کوڑے مارنے کی فلمیں بنائی جاتی ہیں اور ہمارا میڈیا انہیں پوری دنیا تک پہنچاتا ہے۔ حالانکہ بعد میں اس طرح کی فلمیں جھوٹی ثابت ہوتی ہیں۔ آج تک کسی نے یہ کوشش کی کہ اپنی ثقافت ،اپنے حقیقی چہرے کو دنیا کے سامنے متعارف کروایا جائے۔ جو چہرہ دنیا کودکھایا جا رہا ہے وہ پاکستان کا چہرہ نہیں۔چند فیصد اشرافیہ اور چند فیصد فرقہ پرستوں نے پاکستان کا خوبصورت چہرہ گہنا دیا ہے۔پوری دنیا میں تعلیم اور صحت پر توجہ دی جاتی ہے ۔ ہمارے ہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے۔سب سے مہنگی تعلیم اور سب سے مہنگا علاج ہے۔مہنگے اداروں اور مہنگے علاج کے لیے اشرافیہ موجود ہیں۔ روایت ہے کہ ماؤزے تنگ کسی تقریب میں اپنی زبان میں تقریر کر رہے تھے اور جب انہیں کہا گیا کہ آپ کو اتنی اچھی انگریزی آتی ہے اس میں تقریر کیوں نہیں کرتے تو انہوں نے بڑا خوبصورت جواب دیا کہ چین گونگا نہیں۔جاپانی بھی گونگے نہیں ،لیکن ہم گونگے ہیں۔ غیر کی زبان، غیر کا کلچر ہمارا ہے۔ نہ زبان ہماری، نہ روایات ہماری، نہ کلچر اور نہ مذہب ۔ہمارے فرقے بھی اپنی سوچ نہیں رکھتے۔ان پر بھی بیرونی اثرات پڑتے رہتے ہیں۔یہ سب تو ایک نظام تعلیم سے پھوٹتے ہیں اور ہمارے ہاں نظام تعلیم ہی یکساں نہیں۔نہ نظام تعلیم ایک اور نہ تعلیمی پالیسیاں ۔ امیر کے لیے انگریزی اور غریب کے لیے اردو نصاب تعلیم ترتیب دیا جاتا ہے۔ طبقہ اشرافیہ کا کلچر اپنا ہے۔ ان کے نزدیک ریاست ،تہذیب ،روایات اور مذہب مسئلہ نہیں ۔مسئلہ ہے تو فرد کی بے لگام آزادی۔ جس پر وہ کوئی قدغن برداشت نہیں کرتے۔ اس لیے ان کے ہوٹل، کلب، تعلیمی ادارے، سیر گاہیں، گاڑیاں، موبائل ،عیاشی کے سارے سامان اور سہولیات لباس غرض ہر چیز جدا ہے۔ان کے بحث کے موضوعات سن لیں اور دیکھ لیں جیسے مرد کی مرد سے اور عورت کی عورت سے شادی اور تعلق ،شادی کے بعد بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا تصور وغیرہ۔ درمیانی طبقے کی نفسیات عجیب ہے۔اسے ایک طرف ایمان کھینچتا ہے تو دوسری طرف طبقہ اشرافیہ کا گلیمر۔وہ منافقت کی دنیا میں رہتا ہے۔ اسی لیے اس کا کلچر بھی تقسیم رہتا ہے ۔تاہم اس ملک میں کلچر کے مسائل درمیانی طبقے اور نچلے طبقے کے ہی ہیں۔اگر ہم پاکستانی ہیں تو ہمارا ایک کلچر ضرور ہو گا اور میرا یقین ہے کہ ہمارا کلچر اور اس کی بنیاد موجود ہے۔ کلچر کی بنیاد ریاست کی بنیاد پر ہی ہوتی ہے۔اس کے سارے مظاہر ریاست سے پھوٹتے ہیں۔یعنی زبان اور مذہب ۔دین اور ہنر دونوں یک جان کیے جا سکتے ہیں۔دین تو ویسے بھی ساری قدیم تہذیبوں میں روح کی طرح دوڑتا ہے۔علامہ اقبال کی ایک نظم ’دین و ہنر‘ کے ان اشعار کو غور سے پڑھ کر اپنا جایزہ لیں۔
سرود و شعر و سیاست ، کتاب و دین و ہنر
گہر ہیں ان کی گرہ میں تمام یک دانہ
اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین ِ حیات
نہ کر سکیں تو سراپا سکون و افسانہ
ہوئی ہے زیرِفلک امتوں کی رسوائی
خودی سے جب ادب ودیں ہوئے ہیں بے گانہ

اس میں شک نہیں کہ دنیا بین الاقوامی گاؤں میں تبدیل ہو چکی ہے ۔ بین الاقوامی کلچر توانا وجود رکھتا ہے۔۴ا فروری یعنی ویلنٹائن ڈے اور یکم مئی یوم مزدورکو سامنے رکھ کر اس کلچر کا مطالعہ کریں ۔دونوں جدید سرمایہ دارانہ نظام کی پیدا وار ہیں لیکن پوری دنیا کو انہوں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔پوری دنیا میں یہ منائے جاتے ہیں اور مذہب سے ماورا ہو چکے ہیں۔ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والوں کا ایک المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کی اقوام کی ہر چیز کو سوچے سمجھے بغیر اپنا لیتے ہیں۔مثلا ًہندی کلچر اور اس کے مظاہر۔ ساڑھی پاکستانی شہروں میں اشرافیہ اور مڈل طبقے کی خواتین کا مقبول لباس ہے۔ ڈھول پنجاب، کشمیر کے کچھ حصوں اور سندھ کی شادیوں کا مقبول کلچر ہے۔شادیوں میں رقص بلوچوں، پشتونوں، پنجابیوں اور سندھیوں کا مشترکہ کلچر ہے۔ لباس میں شلوار قمیص پورے ملک کا مقبول ترین لباس ہے اور دوپٹہ، سکارف، چادر یا برقعہ نوے فیصد خواتین کا لباس ہے۔عریانیت، بے لگام آزادی، اختلاط مرد و زن کو پاکستانی معاشرے میں پسند نہیں کیا جاتا۔پھر ہمارا میڈیا جس کلچر کو دکھا رہا ہے ،جو بے ہنگم اچھل کود ،ذومعنی الفاظ اور جملے، انگریزی اردو کا ملغوبہ زبان اور خواتین و حضرات کا لباس :یہ کون سی ثقافت ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ گلیمر کا اثر معاشروں پر اور خاص طور پر غریبوں پر پڑتا ہے۔غرباء کے نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہوتا ہے۔ وہ خواب تو دیکھتے ہیں لیکن ان خوابوں کو عملی جامع پہنانے کی ان میں سکت نہیں ہوتی تو وہ مختلف حربے استعمال کرتے ہیں۔ لڑکیوں کی خودکشی کے واقعات میں اضافہ، گھروں سے بھاگنا، موبائل پر ایک سے زیادہ دوستیاں ،جال میں پھنسانا یا پھنس جانا جیسے واقعات آج کل عام ہیں۔اسی طرح کے مسائل کا شکار ہندوستانی معاشرہ بھی ہے۔ ان کے تمام نجی چینلزپر یہی موضوعات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔انہی پر فلمیں بنتی ہیں، سیمینار ہوتے ہیں اور گفت و شنید کے پروگرام کروائے جاتے ہیں۔ہمارے ہاں ان کی نقالی تو کی جاتی ہے لیکن حل کی طرف نہیں جایا جاتا۔ہمارے حکمران مخلوط محافل اور اداروں کی حوصلہ افزائی میں لگے ہیں حالانکہ تمام سروے اس کے خلاف ہیں۔ اندرون سندھ ،کراچی ،بلوچستان، پختون خواہ ،پنجاب اور کشمیر میں لوگوں کی اکثریت مخلوط تعلیم کے خلاف ہے۔لیکن نجی شعبے کے ذریعے والدین کو مجبور کر دیا گیا ہے ۔غیر سیاسی تنظیمیں اس کلچر کی حوصلہ افزائی کر رہی ہیں اور ہماری حکومت ان غیر سرکاری تنظیموں کے آگے بند باندھنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ایک نیا کلچر اور ایک نیا نعرہ آج کل میڈیا پر متعارف کروایا جا رہا ہے۔ تعلیم کے بغیر پاکستان کا مطلب کیا؟یعنی بنیادوں ہی کو کھودا اور ڈھایا جا رہا ہے اور یہ سب حکومتی چھتری کے نیچے ہو رہا ہے۔ علماء کے احتجاج کے باوجود پاکستان کے قومی ٹی وی اور دیگر نجی چینلزپر ڈرامے، فلمیں اور بے ہودہ پروگرام چل رہے ہیں ۔کیا اس ملک کے علماء اس بات پر سر جوڑ کر بیٹھنے کو تیار ہیں کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو؟ ہمارے ہمسائے میں ایران ڈرامے اور فلمیں بنا رہا ہے اور اس کے ذریعے اپنی تہذیب و ثقافت کو دنیا میں متعارف کروا رہا ہے۔اسی طرح سعودی عرب میں خواتین ٹی وی پر کام کرتی ہیں۔ مصر میں خواتین کا باقاعدہ ایک چینل موجود ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ اس تہذیبی جنگ میں علماء اپنا کردار ادا کریں؟اپنے مذہب اور کلچر کو میڈیا کے ہتھیار کے ذریعے پوری دنیا میں متعارف کروائیں۔علماء اگر مل بیٹھیں تو محرم اور ربیع الاول کو ایک کلچر کے استعارے کے طور پرپوری دنیا میں متعارف کروا سکتے ہیں یعنی محرم کو فلسفہ شہادت، ہرطرح کے باطل کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار جبکہ ربیع الاول کو امن ،برداشت، رواداری، اخوت، اتحاد امت، فرقہ پرستی کے خاتمے اور بین الامذاہب ہم آہنگی کے طور پر متعارف کروایا جا سکتا ہے۔مسلمانوں کو ایک نبیؐ اور پوری دنیا کو ایک خدا کے اصول پر متحد کیا جا سکتا ہے اور اس کلچر کو ہم عام کر سکتے ہیں۔اسی طرح رمضان اور جمادی الثانی کو قربانی، ایثار، عالم گیر بھائی چارے کے طور پر سامنے لایا جا سکتا ہے۔ عید الفطر اور عید الاضحی کے تہوار ثقافتی اثرات رکھتے ہیں اور ساری مسلمان دنیا کو ان کی بنیاد پر قریب لایا جا سکتا ہے۔ کیا ان موضوعات پر ڈرامے، سٹیج شوز، ٹاک شوز اور فلمیں نہیں بن سکتیں؟کیا ہندوستان کے غلیظ گلیمر کو اس لیے قبول کر لیا جائے کہ دنیا کے غیر مذہب معاشرے اسے قبول کر رہے ہیں۔ صرف انٹرٹینمنٹ کو لے لیں چین جیسا لا مذہب ملک بھی اپنے معاشرے کو نقصان پہنچانے والی ویب گاہوں پر پابندی عائد کرتا ہے ۔پھر ملکوں کے اندر کچھ شخصیات بھی اہم ہوتی ہیں۔جن کی عزت و احترام کو اپنی ثقافت کا حصہ بنایا جاتاہے۔قائد اعظم اور علامہ اقبال اور ان کی تعلیمات کا اس ملک میں وہ احترام نہیں جو ہونا چاہیے۔اسلامی یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے دوران ایک ایسے محقق ڈاکٹر سے ملا جن کا کہنا تھا کہ یہ دور بھٹو کے پاکستان کا ہے، قائد اعظم کے پاکستان کا نہیں۔اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھٹو نے تو اس ملک کو چلانے کے لیے ایک آئین دیا تھا۔ یہاں تو ہر چیز سے،’ طاقت کا سرچشمہ عوام‘ کے نعرے کے ذریعے بغاوت سکھائی جا رہی ہے۔مذہب، اخلاقیات، روایات ،قانون ہر چیزسے بغاوت ۔ ہم اپنی روایت اور ثقافت کی ہر چیز چھوڑدینے پر تلے بیٹھے ہیں۔ یہی بڑی بات ہے کہ پٹھان اپنی روایات ساتھ لے کر جاتے ہیں۔یعنی برقعہ، زبان اور مذہبی روایات۔ سکھوں نے یورپ اور امریکہ جا کر اپنی پگڑی ترک نہیں کی نہ داڑھی اور نہ روایات۔کینیڈا میں بھی شادی بیاہوں پر ویسے ہی بھنگڑے ڈالتے ہیں جیسے امرتسر کی معاشرت میں بندھے ہوں۔ہندوؤن کا رام، سیتا، دیوی، ایشور، ہاتھ جوڑ کر پرنام کرنا، عورتوں کاساڑھی پہننا ،منگل سوتر، تلک، بندیا، مہندی، پتی ورتا، ارتھی غرض تمام روایات ہر جگہ موجود ہیں۔ سات پھیرے لینا تقریبا ُہر فلم میں دکھایا جاتا ہے اورجو کچھ ان کی فلموں میں دکھایا جاتا ہے وہ ان کے معاشرے میں کم ہی نظر آتا ہے تاہم جو نظر آتا ہے وہ ان کی روایت ہے ۔ ان کا ’چھوٹا بھیم‘ ہمارے بچے بڑی شوق سے دیکھتے ہیں ۔ان کی ساڑھی ہماری خواتین بڑی شوق سے پہنتی ہیں۔ ان کی شادی بیاہ کی رسومات ہمارے کلچر کا حصہ ہیں۔یہی بڑی بات ہے کہ نکاح کی رسم باقی ہے۔بعض دفعہ تو ایسا لگتا ہے یہ رسم بھی اٹھا لی جائے گی اور پھر پھیرے لینا ہی رہ جائے گا۔حالانکہ نکاح ،ولیمہ،عقیقہ،ختنہ،رسمِ بسم اﷲ،ختم قرآن جیسی رسومات ہمارے کلچر کا جزو ہیں اور ان کو منایا جانا چاہیے اور ہمارے میڈیا کو انھیں کوریج دینی چاہیے۔ہمارے ہاں ولیمہ شاندار اور نکاح کی محافل بے جان سی ہوتی ہیں۔ان سب کو پاکستانی کلچر کا لازمہ ہونا چاہیے۔قومیں جب کمزور ہو جاتی ہیں تو ان پر ثقافتی یلغار کس کس طریقے سے ہوتی ہے اس کا ایک مظاہرہ آپ سے شیئر کرتے ہیں۔ہمارے برادر مسلمان ملک ترکی نے گزشتہ دس سالوں میں معاشی میدان میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ترکی کی فی کس آمدن پندرہ ہزار ڈالر تک جا پہنچی ہے۔ترکی کے اعلیٰ تعلیمی ادارے ہر سال پانچ لاکھ طلبہ و طالبات کو فارغ کر رہے ہیں۔ہر سال تیس ملین سیاح ترکی آ رہے ہیں۔سیاحت کے حوالے سے ترکی دنیا کا ساتواں بڑا ملک بن چکا ہے۔اس سب پر ہم کشمیریوں کو خوشی ہے۔ترکی نے زلزلے کے بعد کشمیری عوام کی انتھک خدمت کی ہے۔دس سالہ جمہوریت نے ترکی میں سیاسی اور معاشی استحکام لایا ہے اور ہماری پانچ سالہ جمہوریت نے غریب کے تن سے کپڑا اور منہ سے نوالہ تک چھین لیا ہے۔اس استحکام کے بعد دنیا پر ترکی ثقافت کی یلغار جاری ہے۔ہمارے ملک میں یہ یلغار ترکی ڈراموں کی شکل میں ہے۔’عشق ممنوع‘ اس کی مثال ہے۔اس ڈرامے کا موضوع اخلاق سے عاری اور اس کا ماحول ہمارے سماج سے لگا نہیں کھاتا۔ترکی ایک سیکولر ملک ہے اور اس نے کمالی سیکولر ازم کے زیر سایہ سات عشرے گزارے ہیں۔وہاں مذہب پابند اور فرد آزاد رہا۔ترکی کی ثقافت کا کوئی ایک پہلو ایسا نہیں جس سے ہم فائدہ اٹھا سکیں۔ترکی نے ترقی کیسے کی اس پر ہمارا میڈیا بحث نہیں کرتا۔اس کی عریانیت،اس کے ڈراموں کے ماحول ،اس کے لباس اور اس کی خوبصورتی پر بحثیں کی جاتی ہیں۔’عشق ممنوع‘ ڈرامہ ’اردو - 1 ‘نے ترکی سے حاصل کیا۔اس ڈرامے نے مقبولیت کے تمام ریکارڈ توڑ دیے۔اس ڈرامے کے موضوع پر کوئی غور نہیں کرتا البتہ پاکستانی سماج کو ایک اور خوبصورت ہیرو اور ہیروئن مل گئے۔محرمات کے درمیان تعلق پر اس انداز میں ڈرامے بنانا اور ان کو دوسرے ملکوں کو فروخت کرناکیا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں۔ہمارا بے حس میڈیا اس ڈرامے سے کیا ثابت کرنا چاہتا ہے۔کیا اس طرح کے موضوعات پر ڈرامے درآمد کرنا اور اپنی عوام کو دکھانا غداری نہیں اور اس آئین کی خلاف ورزی نہیں جس کا راگ ہمارا میڈیا الاپتا رہتا ہے۔اس ڈرامے نے پاکستان میں ترکی کا امیج خراب ہی کیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی بتایا ہے کہ ذہنی غلامی کس بلا کا نام ہے۔اس ڈرامے کے واضح اثرات پاکستانی سماج میں تلاش کیے جا سکتے ہیں اور میں نے تو خود اپنی آنکھوں سے یہ اثرات اپنے سماج میں بھی دیکھے اور سنے ہیں۔اس سب کا ذمہ دار کون ہے۔کیا مادر پدر آزادی کا نعرہ میڈیا اسی لیے لگا رہا ہے۔آزادی آپ سے ذمہ داری کا تقاضا بھی کرتی ہے۔سوال یہ بھی ہے کہ ہم شخصی آزادی کی حدود وقیود کا تعین کیسے کرتے ہیں اور ہمارا فرد اس آزادی سے کیا فائدہ اٹھا رہا ہے۔اپنے آس پاس موبائل،کیبل،انٹرنٹ اور سنوکر و شیشہ کلب وغیرہ کا مطالعہ کریں،آپ کو اندازہ ہو جائے گا۔ ہم سوچتے کیوں نہیں۔بے حس کیوں ہو گئے ہیں؟ہمارا سماج کن کے سپرد ہے اور ہم نے اپنے کل کی حفاظت کے لیے کن کو تیار کیا ہے۔ترکی سے ڈرامے درآمد کرنے والے اور ان کو اردو کے قالب میں ڈھالنے والے باہر سے تو نہیں آئے۔اسی سماج کے ہیں۔اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ جس غیر اخلاقی کام سے آمدنی ہو رہی ہواسے ملک کے لیے جائز قرار دے دیا جائے،تو کل جسم فروشی اور شراب کے لائسنس ببانگ دھل بکیں گے۔یہ جاننے کے باوجود کہ غربت ہمارے کلچر کا لازمہ ہے ہم نے کبھی اس پہلو پر غور کیا؟اپنا موازنہ بھارتیوں سے ہی کر لیں۔سویرے اٹھ کر ٹی وی آن کریں۔اکثر ہندوستانی چینلوں پر آپ کو پنڈت،پروہت اور مرد وزن پجاری گیتا پڑھتے اور رام ،سیتا،کرشن وغیرہ کی مورتیوں کے سامنے ہاتھ باندھے پرارتھنا کرتے نظر آئیں گے۔ہمارا قومی ٹی وی جانے کیسے عشاء کی اذان برداشت کر رہا ہے۔ہم رمضان کے مسلمان ہیں اور بس۔میڈیا کے طوفان میں ایک ہندو ریاست نے اپنے دھرم کو نہ خود روندھا اور نہ کسی کو روندھنے دیا۔مہا بھارت سے لے کر گیتا تک کی تعلیمات پر ڈرامے اور فلمیں بنتی ہیں۔چند ماہ قبل کامیاب ہونے والے شیوا سیریل کے ہر ڈرامے کو اس خوب صورتی سے مذہبی روایات و رسومات سے جوڑا ہے کہ ان کی نئی نسل سے زیادہ ہماری نئی نسل شادی بیاہ سے لے کر مرنے تک کی تمام رسموں اور اشلوکوں سے واقف ہو چکی ہے۔سوال یہ ہے کہ ہمارا میڈیا اپنے عوام کو مسجد اور اسلامی روایات ،تہذیب وثقافت اور تمدن کے ساتھ جوڑنے کے لیے کیا کر رہا ہے۔یاد رکھیں بے روح کلچر معاشروں کو بے روح کر دیتا ہے۔ہمارا موجودہ کلچربے روح ہے۔ہمارے ڈرامے،سٹیج شو،ثقافتی طائفے،موسیقی،ادب،فلم،شاعری یہ سب بے روح ہیں۔ہر ایک چیز کو ہم نے افاداتی بنا دیا ہے۔ہر چیز میں بے مقصدیت۔ہی چیز قاعدے،قانون،آئین،دستور،اخلاق،روایت اور مذہب سے عاری۔ایک قوم کی تشکیل میں جہاں ایک زبان اور ایک نظام تعلیم اہم ہیں وہیں کلچر کی اہمیت مسلم ہے اور کلچر میں سرایت کیے ہوئے صدیوں کے مذئبی روایات کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا۔ان سب کے بغیر کسی توانا کلچر کو کھڑا کرنااورقوموں کی برادری میں اسے پیش کرنا ایک فضول مشق ہے اور اسی لیے ہم پر بیرونی ثقافتی یلغار جاری ہے۔زندہ قومیں اپنی روایات کی پاسدار ہوتی ہیں۔آئیے مل کر کم از کم اس ریاست اور ملک سے بے حسی کے کلچر کو تو ختم کریں۔یہ ہم پر فرض بھی ہے اور قرض بھی۔

abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51736 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More