نیلسن منڈیلا کی جدوجہد

18 جولائی 1918ء کو جنوبی افریقہ میں ایک ایسا شخص پیدا ہوا جس نے اس ملک کی تاریخ بدل کر رکھ دی۔ دنیا اس عظیم شخص کو نیلسن منڈیلا کے نام سے جانتی ہے۔ نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کے لئے ایک نجات دہندہ ثابت ہوئے جنہوں نے ایک مسلسل جدوجہد اور بے پناہ قربانیوں کے بعد اپنے ہم وطن سیاہ فاموں کو سفیدفام اقلیت کی غلامی سے آزادی دلوائی اور نہ صرف جنوبی افریقہ سے بلکہ پوری دنیا سے سیاہ فاموں سے ہونے والی نسل پرستی کا خاتمہ کروایا آج انہی کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ سیاہ فاموں کو پوری دنیا میں برابر کے حقوق حاصل ہیں اور امریکہ کا صدر ایک سیاہ فام ہے۔ اپنے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے انہیں بڑی جدوجہد کرنا پڑی‘ بہت سی قربانیاں دینا پڑیں اور بہت سے مصیبتیں اور تکالیف برداشت کرنا پڑیں۔ سیاہ فام اکثریت کے حقوق کے لئے آواز اُٹھانے پر انہیں 27 سال قید کی زندگی گزارنا پڑی۔ اس کے باوجود وہ اپنے مقصد سے ایک انچ بھی پیچھے نہ ہٹے۔

20 ویں صدی میں جنوبی افریقہ نوآبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑا ہوا تھا۔ اس سیاہ فام اکثریت کے ملک میں سفید فام اقلیت کی حکمرانی تھی۔ سیاہ فاموں پر ظلم کے پہاڑ توڑے جاتے تھے۔ ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کیا جاتا تھا۔ انہیں کسی قسم کا کوئی حق حاصل نہ تھا بلکہ انسانی بنیادی حقوق سے بھی محروم تھے۔ سیاہ فاموں سے اس سے بھی بدتر تعصب کیا جاتا تھا جو ہندو مذہب میں شودروں کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ سیاہ فام کسی سفید فام سے آگے نہیں چل سکتا تھا اور نہ ہی اس کے چہرے کی طرف دیکھ سکتا تھا۔ کسی جگہ پر سیاہ فام بیٹھا ہوتا اور وہاں اگر سفید فام آ جاتا تو سیاہ فام کے لئے ضروری ہوتا تھا کہ وہ کھڑا ہو جائے اور اپنی سیٹ سفید فام کے لئے خالی کر دے ورنہ اسے دردناک سزا دی جاتی۔ ظلم کا یہ عالم تھا کہ سیاہ فاموں کو باندھ کر انہیں غلام بنا کر بحری جہازوں کے ذریعے یورپ اور امریکہ بھجوایا جاتا تھا۔ سیاہ فام کی بطور غلام تجارت عام اور قانونی طور پر جائز تھی۔ انہیں کئی کئی دن بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا اور چھوٹی سی غلطی پر اذیت ناک سزائیں دی جاتی تھیں۔ اگر کوئی سیاہ فام بچہ کسی سفیدفام بچے کے ساتھ کھیلتا ہوا پایا جاتا تو گورے اس بچے کو بھی نہیں بخشتے تھے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ سب 20 ویں صدی کے وسط کی باتیں ہیں۔ یہ سیاہ فاموں پر ظلم اور بربریت کی انتہا تھی۔ بہت سے ظلم کی درد بھری داستانیں تاریخ کے اوراق کا حصہ بن چکی ہیں۔

یہ سب سیاہ فاموں پر بیتنے والے ظلم اور ناانصافی کی دھندلی سے تصویر ہے ورنہ ان پر ہونے والے ظلم کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ اس کا ادراک صرف وہی لوگ کر سکتے ہیں جن پر یہ سب بیتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ ظلم کو پسند نہیں کرتا ظلم ہمیشہ زوال پذیر ہوتا اور اس کا خاتمہ ہو کر رہتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کوئی قوم ایسے حالات سے گزرتی ہے تو اﷲ تعالیٰ اسی ظلم کے ستائے ہوئے معاشرے میں سے ایک شخص ایسا پیدا کرتا ہے جو اپنی قوم کو ظلم سے نجات دلاتا ہے۔ کہیں وہ بنی اسرائیل کو فرعون کے مظالم سے نجات دلانے کے لئے حضرت موسیٰ۱۱ؑ کو بھیجتا ہے اور کہیں سیاہ فاموں کو سفید فاموں کے ظلم سے نجات دلانے کے لئے نیلسن منڈیلا جیسے لوگ پیدا کئے جاتے ہیں۔ اسلام کی واضح تعلیمات کے مطابق کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی فوقیت حاصل نہیں ہے تمام انسان آدم کی اولاد ہیں اور تمام انسان برابر ہیں‘ کسی انسان کی نسل رنگ ذات مکتلف ہونے پر اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔
آخر سفید فام کی نسل پرستی اور ظلم کے خلاف نیلسن منڈیلا اُٹھ کھڑے ہوئے اور ایک نئی تاریخ رقم کی۔ منڈیلا کی زندگی ایک مسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ منڈیلا کی زندگی میں ان لوگوں کے لئے سبق موجود ہے جو اپنی قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے کسی قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں تمام لوگ سفیدفام کے سامنے سر اُٹھانے کی بھی جرأت نہیں کرتے تھے منڈیلا کا سفید فام کے سامنے سینہ تان کر کھڑا ہونا نہایت جرأت مندانہ عمل تھا۔ ظلم کے خلاف آواز اُٹھانے پر منڈیلا کو ہر طرح کا ظلم سہنا پڑا لیکن اس سیاہ فام نے سفیدفام کی غلامی سے صاف انکار کر دیا۔ بچپن سے ہی منڈیلا میں اپنے ہم وطنوں سے ہونے والی ناانصافی اور ظلم کی وجہ سے ان سے ہمدردی اور سفیدفام کے خلاف نفرت کے جذبات پیدا ہو گئے تھے جو بعد میں ایک تحریک بن گئے۔

منڈیلا کو نسل پرستی کا پہلا عملی تجربہ اس وقت ہوا جب سکول میں داخلے کے وقت ان کا نام بدل دیا گیا۔ ان کا خاندانی نام منڈیلا تھا جو کہ سکول میں نیلسن کے نام کے ساتھ بدل دیا گیا۔ چونکہ جنوبی افریقہ میں انگریز کا راج تھا اس لئے سکول میں داخلے کے لئے ضروری تھا کہ بچے کا نام بھی انگریزی ہو۔ کالج اور یونیورسٹی میں بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔

منڈیلا نے نسل پرستی اور ظلم کے خلاف تحریک کا باقاعدہ آغاز 1993ء میں کیا۔ اس وقت انتخابات میں ووٹ کا حق صرف سفیدفام کو تھا اور حالیہ انتخابات میں سفیدفام نیشنل پارٹی برسراقتدار آئی تھی۔ منڈیلا نے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس پر احتجاج شروع کیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ احتجاج ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیا۔ یہ پہلا موقعہ تھا جب سیاہ فاموں نے منڈیلا کی سرپرستی میں اپنے حقوق کی آواز اُٹھائی تھی۔ منڈیلا کو روکنے کے لئے انہیں طرح طرح کی سزائیں دی گئیں‘ سڑکوں پر مارا گیا‘ شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان پر بغاوت کا الزام لگا کر قید بامشقت میں ڈال دیا گیا۔ رہائی کے بعد انہوں نے سیاہ فاموں کے حقوق اور نسل پرستی کے خلاف عالمی سطح پر آواز اُٹھانے کی ٹھانی اور عالمی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی غرض سے سفر پر روانہ ہو گئے۔ 1962ء میں واپس آتے ہی انہیں غداری اور بغاوت جیسے سنگین الزامات میں گرفتار کر کے ایک ویران جزیرے پر قید کر دیا گیا۔ قید کے دوران بھی ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے اور شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ان کی قید کی کہانی ایک درد بھری داستان ہے۔ انہیں ایک چھوٹی سی کوٹھڑی میں قید کیا گیا تھا اور سونے کے لئے صرف ایک دری دی گئی تھی۔ کئی کئی دن بھوکا پیاسا رکھا جاتا تھا۔ قید کے دوران ان پر اخبار اور کتابیں پڑھنے پر مکمل پاندی تھی۔ دورانِ قید ان کے بھائی اور والدہ کا انتقال ہو گیا۔ انہیں ان کے جنازے میں بھی شرکت کی اجازت نہ دی گئی۔ ان کے خاندان کو بھی ان سے ملنے کی اجازت نہ تھی۔

1980ء میں ان کی رہائی کے لئے زبردست تحریک شروع ہوئی جس نے سفیدفام کی نیندیں حرام کر دیں۔ اس تحریک کا نعرہ تھا ’’منڈیلا کو آزاد کرو‘‘۔ اس تحریک نے حکومت کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور اس کے نعرے کی گونج اقوام متحدہ تک جا پہنچی۔ بیرونی دباؤ کے باوجود حکومت نے منڈیلا کو رہا کرنے سے انکار کر دیا۔ سفیدفام حکومت نے منڈیلا کو کمیونسٹ کا خطاب دیا۔ اس دور میں کمیونسٹ کا لفظ بالکل اسی اصطلاح میں استعمال کیا جاتا تھا جس میں آج دہشت گرد کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔

جنوبی افریقہ میں انتشار اور بدامنی پھیلتی چلی گئی اور حالات خانہ جنگی تک جا پہنچے۔ امن و امان کی صورت حال پر قابو پانے کے لئے 1985ء میں حکومت نے منڈیلا کو مشروط رہائی کی پیشکش کی جسے انہوں نے مسترد کر دیا۔ عوام کی اس تحریک کو روکنے کے لئے قوت اور طاقت کا بھرپور استعمال کیا گیا۔ سیاہ فاموں کو بلند ترین ظلم کا نشانہ بنایا گیا لیکن یہ تحریک نہ رکی۔ آخر سفیدفام حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پڑے اور 11 فروری 1990ء کو منڈیلا کو 27 سال کی طویل قید سے رہا کر دیا گیا۔ ان کی رہائی پر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے پورا جنوبی افریقہ ان کے استقبال کے لئے اُمڈ آیا ہے۔ طویل قید سے رہائی کے فوراً بعد ہی انہوں نے اپنی جدوجہد کا دوبارہ آغاز کر دیا۔ اس وقت تک وہ پوری دنیا میں مشہور ہو چکے تھے انہوں نے عالمی رہنماؤں سے ملاقاتیں کیں اور انہیں نسل پرستی کے خاتمے اور سیاہ فام اکثریت کے حق میں آواز اُٹھانے پر قائل کیا۔ انہوں نے حکومت سے فوری انتخابات کروانے‘ سیاہ فام کو ووٹ کا حق دینے اور نسل پرستی‘ ظلم اور ناانصافی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔ اس کے لئے انہوں نے ملک گیر تحریک چلائی۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور شدید احتجاج کیا۔ اس دوران جھڑپوں میں 28 سیاہ فام مارے گئے جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے۔ اب حکومت کے پاس منڈیلا کے مطالبات ماننے کے سوا کوئی راستہ نہیں تھا۔ آخر منڈیلا کی جدوجہد اور قربانیاں رنگ لائیں اور 27 اپریل 1994ء کو جنوبی افریقہ میں عام انتخابات ہوئے اور ان انتخابات میں پہلی مرتبہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فام اکثریت کو ووٹ کا حق دیا گیا۔ آخر سیاہ فام اکثریت نے اپنے ووٹ کے حق کو استعمال کیا اور ان انتخابات کے نتیجے میں نیلسن منڈیلا جنوبی افریقہ کے پہلے سیاہ فام صدر منتخب ہوئے۔ یہ جنوبی افریقہ کے سیاہ فاموں کی بہت بڑی کامیابی تھی۔ یہ تاریخی فتح منڈیلا کی بے پناہ قربانیوں اور انتھک جدوجہد کی مرہون منت تھی۔ منڈیلا نے صدر بننے کے بعد سیاہ فاموں کی خوشحالی اور ترقی کے لئے بہت سے اقدامات کئے۔ اس کے بعد نہ صرف جنوبی افریقہ میں بلکہ امریکہ سمیت پوری دنیا میں سیاہ فاموں کو برابری کے حقوق دیئے گئے اور نسل پرستی کا خاتمہ ہو گیا۔ آج سیاہ فام اوباما‘ منڈیلا کی جدوجہد کی وجہ سے ہی دنیا کی سپرپاور کا صدر ہے۔

منڈیلا کو بابائے قوم کا خطاب دیا گیا۔ منڈیلا کو امن کے نوبل انعام سے بھی نوازا گیا۔ اس کے علاوہ امریکہ‘ کینیڈا‘ بھارت‘ پاکستان‘ ترکی سمیت بہت سے ممالک نے بھی اپنے اعلیٰ ایوارڈز منڈیلا کو عطا کئے ہیں۔ منڈیلا کی زندگی پر بہت سی کتابیں لکھی جا چکی ہیں اور ڈاکومنٹریز اور فلمیں بھی بنائی گئی ہیں۔ منڈیلا آج کل گردوں کے مرض میں مبتلا جنوبی افریقہ کے ایک ہسپتال میں زیرعلاج ہیں ان کی حالت تشویش ناک ہے اﷲ انہیں صحت عطا فرمائے۔

منڈیلا نے تھوڑے عرصے میں وہ کام کر دکھایا جو بڑی بڑی تحریکیں صدیوں میں نہ کر سکیں۔ نیلسن منڈیلا ان لوگوں کے لئے بہترین نمونہ ہیں جو اپنے لوگوں کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن اس کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔

Harris Abrar
About the Author: Harris Abrar Read More Articles by Harris Abrar : 4 Articles with 4875 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.