اساتذہ کا عالمی دن عملی اقدامات کی ضرورت

الف سے اﷲ ب سے بسمہ اﷲ وہ الفاظ ہیں جو ہمیں پہلے دن سکول میں جاتے وقت سکھائے جاتے ہیں اور اس کے بعد انسان اپنی زندگی کے باب آہستہ آہستہ طے کرتا جاتا ہے اور اپنے استاد کے سکھائے ہوئے علم کی بدولت زندگی کی منزلوں کو طے کرتا ہے استاد کو روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے جو انسان کو انسان ہونے کا پتا بتاتا ہے جو اس کے ذہنی نشونماء میں اہم کردار ادا کرتا ہے کچھ ایسی ہی باتیں اور یادیں جب انسان اپنی علمی زندگی میں پہنچتا ہے تو بہت یاد آتی ہیں خصوصا اساتذہ کی وہ نصیحتیں جو انمول موتیوں کی طرح تھیں بہت کارآمد اور مددگار ثابت ہوتی ہیں اپنے سکول اور کالج کے زمانے کے متعلق ہر شخص بڑے جوش و جذبے سے اپنے اِن بیتے دنوں کے قصے سناتا نظر آتا ہے یہ وہ لمحات ہیں جو انسان پوری زندگی نہیں بھول سکتا -

کچھ لوگ اس وقت اساتذہ کی باتوں کا اثر نہیں لیتے اور ہوش اس وقت آتا ہے جب اپنے اس قیمتی وقت کو جو ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے اچھا وقت تھا اپنی نادانی کی وجہ سے کھو چکے ہوتے ہیں ایسے لوگوں کے پاس سوائے پچھتاوئے کے کچھ بھی نہیں بچتا جب ہمارے پاس وقت ہوتا ہے کچھ کرنے کا تو ہم اس کی قدر نہیں کرتے اور اپنے لیے اس قیمتی وقت کو جس میں ہم اپنی صلاحیتوں کومنوا سکتے ہیں اور مستقبل کے لیے کچھ کر سکتے ہیں ضائع کر دیتے ہیں اور جب سب کچھ لٹ چکا ہوتا ہے تو اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو کوستے ہیں یا اپنے اساتذہ کو لیکن ؟اس میں قصور ہمارے گھر والوں کا یا اساتذہ کا ہر گز نہیں ہوتا بلکہ ہمارا اپنا ہوتا ہے بنیادی سا نقطہ یہاں سمجھنے کا یہ ہے کہ کیا ہمارے گھر والوں نے ہمیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکول نہیں بھیجا تھا ؟کیاہمارے اساتذہ نے ہمیں وقت کی قدر کے بارے میں نہیں بتایا تھا ؟تقریبا تما م لوگوں کا ایک ہی جواب ہو گا کہ :ہاں: بتایا تو تھا مگر ہم نے ان کی بات سنی ان سنی کر دی تھی استاد کا رتبہ بہت ہی بلند ہوتا ہے اور استا د بھی تو اس تمام مرحلے سے گزرا ہوتا ہے اس لیے وہ آنے والے برے دنوں کے بارے میں اپنے تجربے کی بنیاد پر ہمیں آگاہ بھی کرتا ہے لیکن وہ جو عمر ہوتی ہے وہ نادانی کی عمر ہوتی ہے سو ہم ان کی باتوں کو روزانہ کے معمول کی باتیں قرار دے کر ان کو ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں لیکن ان کا اصل نچوڑ ہمارے سامنے اس وقت آتا ہے جب ہماری عمرچالیس ،پینتالیس سال کو چھو رہی ہوتی ہے لیکن اس وقت ہم بے بس ہو چکے ہوتے ہیں ہمیں رہ رہ کر اپنے والدین اور اساتذہ کی باتیں یاد آتی ہیں پھر ہم سوچتے ہیں کہ کاش ہم نے ان سے تھوڑا سا سیکھ لیا ہوتا اس وقت بہت شدت سے اپنے اساتذہ کی باتیں یاد آتی ہیں کہ جن کا قول ہوتا ہے کہ علم کے بغیر انسان ادھورا ہے انسان کی شخصیت اسی وقت مکمل ہوتی ہے جب اس میں علم کی شمع کا اجالا ہو جاتا ہے آج کہ ہمارے جتنے بھی وہ نوجوان جو تعلیم حاصل کرنے والی اس عمر میں اپنا قیمتی وقت ضائع کر چکے ہیں اور ان کے پاس سوائے زمانے کی ٹھوکریں کھانے اور زمانے کی سختیاں سہنے کے بجائے کوئی اور دوسرا آپشن نہیں ہے ان کو یہ بات اچھی طرح یاد ہو گی کہ ان کے کس، کس استاد نے ان کو تعلیم کے حصول اور اس وقت کی اہمیت کا بتایا ہو گا اس وقت کی عمر میں عموما طلبہ کو سکول سے زیادہ سکول سے چھٹی کی پڑی ہوتی ہے یہ بات عموما پاکستان کی دیہات میں بہت ہی عام ہے کہ وہاں کے طلبہ استاد کی باتوں کو اس طرح نہیں سمجھتے جس طرح ان کو سمجھنا چاہیے اب تو بچوں کو گورنمنٹ کے سکولوں میں ڈالنے کے بجائے پرائیویٹ سکولوں میں ڈالنے کا رجحان خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے اساتذہ میں اپنے طالب علم کو کچھ ڈیلور کرنے کا جزبہ انتہا کی حد تک پایا جاتا ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ ان کے طلبہ ان کے نام کو رہتی دنیا تک قائم رکھیں آج بھی بہت سے لوگ آپ کو ملیں گے جن کی عمریں ستر،اسی سال ہوں گی مگر ان کو ان کے اساتذہ کی باتیں ایسے یاد ہیں کہ جیسے یہ کل کی ہی باتیں ہوں جس وقت اساتذہ ہمیں اپنے تجربے کی باتیں بتا رہے ہوتے ہیں تو ہمارے ذہنوں میں ایک ہی سوال ہوتا ہے کہ ان کو کیا پتامستقبل کے بارے میں مگر ہم اس لمحے یہ بات بھول رہے ہوتے ہیں کہ استاد بھی کھبی شاگرد تھا اور وہ ان تمام مرحلوں سے نکل کر آیا ہے اور ہمیں اپنے تجربے کی بنیاد پر یہ سب کچھ بتا رہا ہے مگر ہم ان کی باتوں پر توجہ نہیں دیتے اور نتیجے میں اپنا وہ قیمتی وقت ضائع کر دیتے ہیں جو کھبی بھی واپس نہیں آ سکتا ۔

بات ہو جائے اساتذہ کے عالمی دن کے حوالے سے تواعداد وشمارکے مطابق پاکستان میں چودہ لاکھ استاد تعلیم کی روشن شمع سے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو زیور تعلیم روشناس کروا رہے ہیں جبکہ اس کے باوجود مجموعی طور پردیکھا جائے تو اساتذہ کی شدید کمی ہے اقوام متحدہ نے 1994سے اساتذہ کا عالمی دن منانے کا فیصلہ کیا جس کے بعد دنیا کے کئی ممالک میں یہ دن5 اکتوبر میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کے ساتھ ساتھ ضرورت اس امر کی ہے کہ اساتذہ کی دیکھ بھال ااور ان کو مناسب سہولیات اور ضروریات زندگی کی فراہمی کے لئے حکومتی ادارے اپناکردار ادا کریں اور ایسے قوانین مرتب کیے جائیں جس سے اساتذہ کی فلاح وبہبود میں کسی قسم کی کمی باقی نہ رہے صرف دن منانے سے اساتذہ کو وہ مقام نہیں دیا جا سکتا جس کے وہ روادار ہیں عملی طور پر بہت سے اقدامات کرنے سے ہی اساتذہ کی عزت اور وقار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔

rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206973 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More