آر پی او ملتان! توجہ درکار ہے……

مرد وخواتین کا رش لگاہوا تھا شور و واویلا تھا کہ تین نامعلوم مسلح ڈاکو کھیتوں میں کا م کرنی والی عورت کے کان سے سونے کی بالیاں نوچ کر کماد کی کھڑی فصل میں چھپ گئے ہیں۔ موقع پر موجود پولیس کے تین شیر جوان بھی موجود تھے۔ عوام کا مطالبہ تھا کہ وہ فصل میں موجود ڈاکوؤں کو گرفتار کریں۔ مگر شیر جوان تھے کہ بغلیں جھانک رہے تھے اور ٹس سے مس نہ ہورہے تھے۔ ان کی بزدلانہ بے حسی کو دیکھتے ہوئے آخر کار عوام نے ان ڈاکوؤں کو پکڑنے کی ٹھانی اور ڈنڈوں سوٹوں سے لیس ہوکر فصل کو گھیرلیا۔ڈاکوؤں کی تلاش شروع ہوئی لیکن چونکہ پولیس کے’’ تجاہل عارفانہ‘‘کی بنا پرٓ دیر ہوچکی تھی اس لئے ڈاکو بچ نکلنے میں کامیاب ہوگئے اور شیر جوان باہر کھڑے اس ساری کارروائی کی ’’نگرانی ‘‘کرتے رہے۔ اس واقعہ سے ایک روز قبل ٹھیک اسی جگہ پر شیخ غلام فرید کے ہاں پانچ مسلح ڈاکو مہمانوں کے روپ میں داخل ہوئے ملازم کے شور پر اہل محلہ اکٹھا ہوگئے شو مئی قسمت اس وقت بھی یہی شیر جوان پولیس وین(ڈالے) سمیت ڈیرھ سے دو سو میٹر کے فاصلے پر موجود سیب نوش فرمارہے تھے۔لوگوں کے شور کا ان کا کوئی اثر نہ ہوا۔ ڈاکوؤں نے اپنی کارروائی مکمل کی ۔مزاحمت پر غلام فرید کو بٹ مار کرزخمی کیا ۔ بھاگنے پر ملاز م پر فائرنگ کی ۔ اس کے باوجود شیر جوان مال مفت کے مزے لوٹتے رہے۔ جاتے ہوئے ڈاکوؤں نے جب مشتعل ہجوم کو منتشر کرنے کیلئے ان پر فائرنگ کی تو جوانوں کو ہوش آیا اور اپنے سامنے سے گزر کر جانے والے کے پیچھے گاڑی لگانے کی کوشش کی ۔ جس پر ڈاکوؤں نے پھر فائرنگ کی اور گاڑی کی ونڈ سکرین ’’زخمی‘‘ کرانے کے بعد اہلکار سینہ تانے پولیس اسٹیشن لوٹ آئے ۔ کوئی رپورٹ درج نہ ہوئی ۔شہر کے وسط میں واقع تین یوٹیلٹی سٹورز پر پندرہ دنوں میں ڈکیتی کی اور انہیں لوٹ لیا۔ تیسرے سٹور پر ڈکیتی کے دوران اہل علاقہ کے اکٹھا ہونے پر دو ڈاکوؤں کو پکڑلیا گیا۔ مزاحمت پر سٹور انچارج کو گولی کا مزا بھی چکھنا پڑا۔ ڈاکوؤں کو پولیس کو تحفہ میں دے دیا گیا اور ایس ایچ او موصوف نے فورا ڈکیتی کا پرچہ دے دیا۔حالیہ دنوں میں دو مختلف واقعات میں نیشنل بنک سے TMAملازم اﷲ بچایا اپنی سیلر ی نکلواکر جارہا تھا کہ نامعلوم افراد نے اسلحہ کے زور پر بائیس ہزار روپے چھین لیے دوسری واردات میں مڈل گرلز سکول کا ملازم دوست محمد جبلہ بنک سے پچاس ہزار لے کر جارہاتھا اسے زبردستی کار ڈال کر دھنوٹ لے گئے جہاں اس سے رقم اور موبائل اسلحہ کی نوک پر چھین کر راستے میں پھینک گئے مسلم لیگی رہنما اور تاجر رہنما شیخ اخلاق احمد سے آتشیں اسلحہ دکھا کرتین نامعلوم افراد نے نرنجن موڑ پر تین لاکھ سے زائد رقم اور قیمتی موبائل لوٹ لئے۔کڈز کیئرسکول کے سامنے سے کھڑے موٹر سائیکل کو چرالیا گیا کوئی سراغ نہ ملا۔ قائد اعظم روڑ پر واقع کریانہ سٹور سے نامعلوم چوروں نے لاکھوں روپے کا سامان چوری کرلیا محلہ دیانت پورہ سے شیخ یامین کی ہزاروں روپے مالیتی بکری نامعلوم چور چوری کرگئے ۔راوین سکول سے کمپیوٹر اور دوسرا سامان چرالیا گیاان سب وارداتوں کاتاحال کوئی پتہ نہیں چل سکا ہے۔ایس ایچ او سٹی و صدر مدعی سے کہتے ہیں ہمیں ڈاکو یا چور کا نام بتائیں تاکہ اس کے خلاف کارروائی کی جائے ۔مدعی اس’’ عقلمندانہ سوال‘‘ پر اپنا سر پیٹتے ہوئے اپنی بیوقوفی پر نادم ہوتے ہوئے کہ واقعی چور کا نام تو بتانا چاہئے تاکہ پولیس کو کارروائی میں آسانی ہوسکے،چور کا نام جاننے کیلئے گھر لوٹ جاتا ہے۔اب آپکو دوسرا رخ دکھاتا ہوں جس میں رائل پبلک ہائی سکو ل کہروڑپکا کے باہر پرنسپل ملک مصطفی آرائیں کا ساٹھ ہزار مالیت کا موٹر سائیکل دوپہر کے وقت بستی حاصل والا کارہائشی عادی چور عمران شاہ چوری کر رہا تھا کہ شہریوں نے مشکوک سمجھ کر پکڑ لیا اور چھترول کے بعد پولیس تھانہ سٹی کہروڑپکا کے حوالے کر دیا گیاہے ۔موضع اسماعیل پور واردات کی نیت سے آنے والے ڈاکو کو گھر میں موجود عورت نے قابو کرکے پولیس کے حوالے کردیا۔موضع ڈکھنہ گھاڑو میں بدنام زمانہ چھوہن گینگ کے تین ڈاکوؤں کو عوام نے واردات کرتے ہوئے موقع پر پکڑ لیا اور چھترول کے بعد’’ نہ چھوڑنے کی شرط‘‘ پر پولیس کے حوالہ کیا۔محلہ پٹواریاں والہ میں نامعلوم تین مسلح ڈاکوؤں نے اسی محلہ کے رہائشی اسد ارائیں سے ہنڈا 125 موٹر سائیکل چھین لیا۔ جسے اہل محلہ نے تعاقب کرکے واپس حاصل کیا جبکہ پولیس سوئی رہی۔لیکن ان تمام پکڑے جانیوالے چور و ڈکیت پر پرچہ دینے میں پولیس نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ اوراپنی ’’جان توڑ کوشش ‘‘کو ثابت کرتے ہوئے ’’اوپر‘‘سے ویل ڈن وصول کیا۔یہ چند وارداتیں ہیں جن کا ذکر کیا گیا جو کہ گذشتہ ایک ماہ کے دوران ہوئی ہیں۔ جب کہ ان گنت ایسی ہیں جوپولیس کے رویے کے باعث درج ہی نہیں کرائی گئیں

قارئین کرام ! آج کا یہ کالم ،کالم کم خبرنامہ زیادہ محسوس ہورہا ہے لیکن حالات و واقعات،احساسات اور فضا کی کشیدگی ہی کچھ اس قسم کے ہیں کہ اس طرح سے یہ خبریں آپ کی نذر کرناپڑیں لیکن ان کااصل مقصد آر پی او ملتان کو ان کی پولیس کی کارکردگی دکھانا ہے ۔ آر پی او صاحب ملتان ڈوپژن میں ایک ضلع لودہراں بھی آپ کی jurisdiction میں آتا ہے اور اس کی تین تحصیلوں لودہراں دنیاپور اوربالخصوص کہروڑپکا میں پولیس کی کارکردگی بڑے بڑے سوالیہ نشان لئے ہوئے ہے۔ عوام کی جان مال عزت آبرو کا تحفظ پولیس کی نااہلی کی وجہ سے ناممکن دکھائی دیتا ہے۔ مذکورہ بالا واقعات اس امر کا پختہ ثبوت ہیں ۔ سٹی میں ہونے والی وارداتوں کو روکنے میں پولیس بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔سائل،مدعی اور متاثرہ شخص کی دادرسی کرنے،ان کے ساتھ تعاون کرنے، ان کی رہنمائی کرنے کی بجائے انہیں یہ باورکرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ یہ تمام واقعات جھوٹ کا پلندہ ہیں۔ان واقعات کاکوئی وجود نہیں۔مثلا اگر کسی کے ساتھ ڈکیتی ہوئی ہے تو پہلے تو اسے یہ کہا جاتا ہے اسے مشیت ایزدی سمجھ کر قبول کرلو اور پولیس کو خوامخواہ مصیبت میں نہ ڈالو۔اگر وہ مدعی نہیں مانتاتو پھر ڈکیتی کو چوری میں تبدیل کرنے پر زور ڈالاجاتا ہے اور مذکورہ بالا تمام کیسز میں اس قسم کی صورت سے واسطہ رہا ہے۔چوری کی رپورٹ کیلئے آنے والے سائل کو یہ پوچھا جاتا ہے کہ چور کا نام بتایا جائے۔ تاکہ پولیس اسے گرفتار کرنے کی کارروائی کرسکے۔ارے عقل کے دشمن اگر اسے ہی چور کے بارے معلوم ہوتو کیا اس کے سرمیں خارش ہے کہ وہ پولیس اسٹیشن دھکے کھانے آئیگا۔چور سے ہی مک مکا کرکے معاملہ حل کرلے گا۔اگر سونا چرایا یا ڈکیتی ہوا ہوتا ہے تو اسے لوہا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے اور پہاڑ کی گمشدگی کو سوئی کے گم ہونے سے تشبیہ دی جاتی ہے اور بادل نخواستہ رپٹ درج کی جاتی ہے

امین وینس آر پی او صاحب! ڈی پی او لودہراں ڈاکٹر انعام وحید کو سب اچھا اور سب اوکے کی رپورٹ کی جاتی ہے یا پھر عوام کی جانب سے پکڑے گئے ملزمان کو اپنے کھاتے میں ڈال لیا جاتا ہے اور ان پر فوری طورپر ڈکیتی کا پرچہ دے دیاجاتا ہے۔ڈی پی او لودہراں جس جذبے کے تحت لودہراں میں آئے تھے اور پولیس میں جو ریفارم کرنا چاہتے تھے وہ جذیہ ماند پڑگیا ہے۔ ذرائع کے مطابق وہ بھی اس روایتی نظام سے دل برداشتہ ہیں ان کے مطابق ضلع میں کوئی قابل قدر پولیس افسر(ایس ایچ او)نظرنہیں آتا جو کہ ان کو کام کرکے دے سکے۔ چند ایک جو کام کرنے والے تھے ان کا تبادلہ سیاسی بنیادوں اور پسند نا پسند کی بنا پر دوسرے اضلاع میں کردیا گیا ہے۔اب کاغذی کارروائیوں سے تمام معاملات کا پیٹ بھرنے کے ماہر اور سیاسی آشیربادکے حامل پولیس ملازمین محکمے کو بری طرح سے بدنام کرنے کی بھرپور کوشش میں مصروف عمل ہیں۔ماضی میں تعینات افسران بھی کاغذی کاروائیوں سے اپنے افسران کا دل خوش کرنے کی بنا پر ان کی گڈبک میں رہے ہیں اور تعریفی سرٹیفیکیٹ سے اپنی کمروں کی زینت بڑھاتے رہے ہیں اور اس وقت بھی صورت حال کچھ مختلف نہ تھی۔ جناب آر پی او ملتان آپ ہمارے علاقے کے ان مسائل کو ذاتی دلچسپی لیتے ہوئے حل کرنے کی کوئی پالیسی مرتب کیجئے۔ ضلع کی عوام کی جان مال عزت کے تحفظ کو یقینی بنانے کی اشد ضرورت ہے۔کب تک عوام اپنی مدد آپ کے تحت چوروں ڈاکوؤں کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کرتی رہیگی؟ کب تک پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے عوام کی لٹتا ہوا دیکھتی رہیگی۔کب قاتل سلاخوں کے پیچھے آئیں گے؟ کب مجرمان قانون کے شکنجے میں کسے جائیں گے؟ وہ کونسی گھڑی ہوگی جب علاقے کی عوام سکون کی نیند کے مزے لے سکے گی؟کب وزیر اعلی پنجاب کی خواہش’’ پولیس کلچر کا خاتمہ‘‘ ہوگا؟کب مظلوم کو انصاف ملے گا؟کون ظالم کوکیفرکردار تک پہنچائے گا؟کب تک سیاسی کارندے دن کو رات اور رات کو دن کہلواتے رہیں گے ؟یہ اور اس طرح کے بہت سے سوالات ہیں جن کے جواب درکار ہیں۔ایک بات اور جس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ کے حالیہ دورہ لودہراں کے دوران ایک بات کا بڑے خفیہ انداز میں تذکرہ ہوتا رہا کہ فلاں فلاں صحافی کو بلیک لسٹ کردیا گیا ہے ان میں سے بہت سے صحافی وہ ہیں جنہوں نے پولیس کی کارکردگی کا اصل چہرہ دکھانی کی کوشش کی ہے یا پولیس کے خلاف لکھا تو پولیس برا مان گئی اور آپ کی بریفنگ میں ان کو مدعو نہیں کیاگیا تاکہ وہ ان کی کارکردگی کا پول نہ کھول سکیں۔یہ عمل بھی قابل مذمت ہے۔ اس کے بارے میں بھی سوچئے گا ۔بہرحال سیاسی بنیادوں پر تعینات ہونے والے ایس ایچ او زکو اس بات کا احساس دلانا مقصود ہے کہ سیاسی تعلق اگر مجبوری ہے تو نبھایا جائے لیکن عوام کو بھی ریلیف،انصاف اور تحفظ ملنا ضروری ہے۔صرف اپنی وردی کو نہ بچایا جائے

liaquat ali mughal
About the Author: liaquat ali mughal Read More Articles by liaquat ali mughal: 238 Articles with 193202 views me,working as lecturer in govt. degree college kahror pacca in computer science from 2000 to till now... View More