سوشل میڈیا پھیلا رہا ہے ہسٹریا

سماجی ویب سائٹس دنیا کو معاشرتی اور معاشی طور پر نقصان پہنچا سکتی ہیں
نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرِسماجیات کا خدشہ کیا حقیقت میں تبدیل ہوجائے گا؟

اس میں کوئی شک نہیں کہ سوشل ویب سائٹس لوگوں کو ایک دوسرے کے قریب لاتی ہیں، جن سے منسلک رہتے ہوئے یوزرز ایک دوسرے سے رابطہ رکھتے اور خیالات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ یہ سائٹ اپنے استعمال کرنے والوں میں منفی رجحانات جنم دینے اور ایسے رجحانات کے فروغ کا باعث بن رہی ہیں۔

حال ہی میں ایک ماہرِسماجیات نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ سماجی ویب سائٹس کے ذریعے ایسے ہی رجحانات کے فروغ کے باعث عام لوگوں کی سطح پر عالم گیر ہسٹریا جنم لینے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے۔

نیوزی لینڈ کے شہر آکلینڈ سے تعلق رکھنے والے ماہرِسماجیاتRobert Bartholomewنے اس حوالے سے اپنے تحقیقی مقالے میں یہ کہا ہے کہ سوشل میڈیا دنیا کو ایک ہسٹریا کی طرف لے جارہا ہے۔ یہ ویسے ہی صورت حال ہے جیسی امریکا کی ریاست میساچیوسٹس کے شہر سیلم میں سولہویں صدی میں پیدا ہوئی تھی، جب بیس افراد کو جادوٹونا کرنے کے الزام میں پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا۔

رابرٹ برتھولومیو نے متنبہ کیا ہے کہ سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس عالمی سطح پر اپنے اثرات بڑھاتے ہوئے دنیا کو سماجی اور معاشی حوالے سے نقصان پہنچا سکتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی ویب سائٹس کے اثرات کی وجہ سے ہونے والی ہلچل کے باعث گذشتہ چند سال کے اندر مختلف قسم کے مسائل پھوٹ پڑے ہیں، جیسے ذہنی دباؤ سے دوچار کرنے والے نفسیاتی عوامل، ذہنی صدمہ اور ہیجان وغیرہ۔ یہ سب لوگوں میں conversion disorder سے شروع ہوا ہے، جسے عام فہم زبان میں ہسٹریا کہا جاتا ہے۔ گویا یہ ویب سائٹس لوگوں میں جنون پھیلارہی ہیں۔

رابرٹ برتھو لومیو کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کے اثرات سے پیدا ہونے والی یہ علامات چھوت کی بیماری کی شکل اختیار کرگئی اور اسی طرح پھیل رہی ہیں۔ یہ دراصل mass psychogenic illness یا عوام الناس کو ایک ساتھ متاثر کرتی نفسیاتی بیماری ہے، جسے تاریخی طور پر ہسٹریا کا نام دیا گیا ہے۔

نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے اس ماہر سماجیات کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس سے پہلے کے سوشل میڈیا کے منفی اثرات ماس ہسٹیریا میں تبدیل ہوجائیں، ہمیں سمجھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا کس طرح ہسٹریا کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہا ہے۔
 

Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 283601 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.