بنگال و یوپی کے مسلمان کیا کریں؟

مظفر نگر کے ہولناک فسادات میں سماج وادی پارٹی نے جس ناقص کارکردگی نا اہلی اور غیر ذمہ داری کا ثبوت دیاہے اور جس طرح پولیس کو مسلم دشمنی دکھانے کا موقع جی کھول کر فراہم کیا گیا ہے وہ کسی بھی حکومت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لگانے کے لئے کافی ہے۔ اکھلیش یادو کی حکومت نے نہ صرف یو پی کے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے بلکہ ملک بھر میں مسلمانوں کو سماج وادی پارٹی اور خاص طور پر ملائم سنگھ سے مایوس ہی نہیں بلکہ ناراض کیا ہے۔ یوں تو اقتدار میں آنے والی حکومتیں عام طور پر اپنے انتخابی وعدے پورا نہیں کرتی ہیں لیکن مسلمانوں سے کئے جانے والے وعدوں کو پورا کرنے کی روایت تو کانگریس ہی نے قائم کی ہے۔ لیکن کسی زمانے میں مولانا یا مولوی ملائم کہلانے والے ملائم سنگھ (جنہوں نے بابری مسجد کو بچانے کے لئے 1990ء میں کارسیوکوں پر گولیاں چلوائی تھیں کئی کارسیوک ہلاک ہوئے تھے) اور ان کے فرزند اکھلیش سے یہ امید نہ تھی کہ ان کے برسراقتدار آنے پر بجنے والے شادیانوں کی گونج ختم ہونے سے قبل یو پی میں مسلم کش فسادات کا سلسلہ شروع ہوجائے گا اور مظفر نگر کے فساد نے تو گجرات کے فسادات کی یادوں کو تازہ کردیا مختصر یہ کہ مظفر نگر کے فساد کا اثر ملک کے سیاسی منظر نامے پر پڑسکتا ہے۔ آپنے سنا ہوگا کہ عقل مند وہ ہوتا ہے جو احمقوں کی حماقت سے فائدہ اٹھائے یہی ہوا یو پی میں۔ اکھلیش کی نااہلی بلکہ احمقانہ فیصلوں سے بی جے پی، کانگریس اور بی ایس پی بھر پور فائدہ اٹھارہی ہیں۔ ہم کو تو ایسا لگتا ہے کہ اکھلیش کی کابینہ کا ہر وزیر ماسوائے مسلمان وزراء خود کو وزیر اعلیٰ سمجھتا ہے۔ یو پی کے سرکاری ملازموں پر ہندوتوا اور سنگھ پریوار کے اثر کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی کے گرفتار کئے جانے والے ایم ایل اے سوم سندیپ جیل پہنچنے تو اورائی ڈسٹرکٹ جیل کے جیلر اور ان کے عملے نے ان کا شاندار استقبال کیا۔ ظاہر ہے کہ جیلر خود ہندوتوا کا علمبردار ہے۔ آئی جی (محابس) آر پی سنگھ نے دبے الفاظ میں اس رویہ کی تائید کرکے بتادیا کہ ’’لنکا میں جو ہے وہ 52گز کا ہے‘‘ جیلر ہی نہیں انسپکٹر جنرل محابس بی جے پی کے وفادار ہیں۔ اسی طرح بی جے پی قائدین کی گرفتاری میں تاخیر، گرفتاری میں رکاوٹوں کے ذمہ دار افراد بلکہ گروہ سے درگزر اور ان کی گرفتاری کو ڈرامہ بنانے کی اجازت دینا پکار پکار کر کہہ رہے ہیں کہ یو پی کی پولیس کو آر ایس ایس کی وردی میں رہنا چاہئے۔ اکھلیش اور ان کی حکومت میں اتنی صلاحیت اور ہمت و حوصلہ نہیں ہے کہ وہ اپنے انتظامیہ اور پولیس کی زعفرانی ذہنیت اور اعمال پر گرفت کرسکے اور ایس پی کی ساری مشتبہ حرکتیں صرف اس حدتک محدود نہیں ہیں بلکہ اس سے قبل اپنی وزارتِ عظمیٰ کے دور میں ملائم سنگھ نے دو بھاری غلطیاں کی تھیں ایک تو بابری مسجد کے مقدمات کے سلسلے میں انہوں نے تمام مقدمات کی ایک جگہ ایک ساتھ سماعت کرنے کے لئے درکار وہ حکم نامہ جاری نہیں کیا جس کی عدلات العالیہ (ہائی کورٹ) نے ہدایت کی تھی۔ یہ حکم نامہ بی جے پی اور مایاوتی کی حکومتوں نے بھی جاری نہیں کیا تھا۔ ان کی دوسری غلطی تھی بابری مسجد کی شہادت کے مجرم نمبر 2کلیان سنگھ سے اتحاد کرنا تھا۔

ملائم سنگھ جب تک اپنے فیصلے خود کرتے تھے سماج وادی پارٹی میں سب ٹھیک تھا۔ اب جو اصحاب ملائم کے مشیر ہیں وہ یا تو سیاسی شعور سے محروم ہیں یا عمداً سماج وادی پارٹی کو نقصان پہنچانے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی امرسنگھ تھے جب تک موصوف رہے ایس پی مسائل کا شکار وہی تھی۔ کلیان سنگھ سے تعلقات کے علاوہ بی جے پی کی حمایت سے حکومت کی گئی ۔ حالیہ امرسنگھ کی وجہ سے اعظم خان پارٹی سے دور ہوئے تھے۔ حالیہ کامیابی کے بعد پہلی غلطی تو راجہ بھیا کو وزیر بنانا تھا۔ فسادات شروع ہوے اکھلیش نے پولیس کی مسلم دشمنی سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی اکھلیش کی کسی نے مدد کی۔ مسلمان وزرأ اور قانون ساز مجالس اور پارلیمان کے مسلمان اراکان کی خاموشی کو ہم مجرمانہ کہہ سکتے ہیں۔ اگر پارٹی کے جونیر قائدین پریم کمار یادو وغیرہ اعظم خان کی کھلے بندوں تو ہین کرسکتے ہیں تو کیا اعظم خاں فساد کے ذمہ دار وزرأ پر تنقید کا حق کیوں نہیں رکھتے ہیں۔ اعظم خاں کی خاموشی فتنوں کو ٹالتی نہیں ہے بلکہ جگاتی ہے۔

اب کچھ دیر کے لئے مجاز لکھنوی کے لکھنو سے غالب کے کولکتہ چلتے ہیں جہاں بنگال کے مسلمان ممتابنرجی سے ناراض ہیں۔ بنگال کے پڑوس میں بہار میں مسلمانوں نے لالوپرساد یادو کو مسترد کرکے نتیش کمار کو پسند کیا۔ اب یو پی کا مسلمان سماج وادی پارٹی سے برگشتہ ہے۔ لیکن وزیر اعلیٰ آسام گوگوئی، مودی انٹونی جب وزیر اعلیٰ کیرالا تھے ، آر آر پاٹل وزیر داخلہ مہاراشٹرا، نیز جب چدمبرم مرکزی حکومت میں وزیر داخلہ تھے اور آندھراپردیش میں کرن کمار ریڈی وزیر اعلیٰ کو ہم بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کرلیتے ہیں ملک میں ہر قسم کا احتجاج ہوسکتا ہے لیکن مسلمان اول تو اپنا یہ حق استعمال نہیں کرتے ہیں تو دوسری طرف ان کو ایسا کرنے بھی نہیں دیا جاتا ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنے حقوق سے دستبردار ہوجائیں اور سارے مسائل کے قطع نظر انتخابی سیاست میں مسلمان صرف جوش سے کام لیتا ہے ۔ ہوش کو بالائے طاق رکھ دیتا ہے۔ کسی شرط، مذاکرات و معاہدات نہ سہی وعدوں کے سہارے اپنی بادشاہ گری دکھاکر زاغوں کے تصرف میں عقابوں کے نشیمن دے دیتا ہے۔ اس کے بعد ووٹ لینے والوں سے توقعات اورامیدیں حد سے زیادہ باندھ لیتاہے اور اگر کوئی یہ باور کروادے کہ آپ کے ووٹ لینے والے نے آپ کے لئے توکچھ کیا ہی نہیں ہے جس تیزی سے کسی کو پسند کیا تھا اسی تیزی سے اسے راندۂ درگاہ بھی کردیتا ہے۔ بہار میں آزادی کے بعد 50-40 سال کانگریس کو برداشت کیا نہ ترقی یاد آئی نہ سڑک، بجلی و پانی یاد آیا بے شمار فسادات بھی جھیلے لیکن لالو جو بی جے پی کی سونامی کو روک سکتا تھا۔ اسے ہٹانے کے لئے حماقت کی حد تو یہ ہے کہ بی جے پی کو بھی ووٹ دے دیا جس طمطراق سے نتیش کو لایا گیا تھا اب اسی طرح دیر آئد درست آئد، کے مصداق نتیش سے بیزار ہورہے ہیں۔

بنگال والوں نے اشتراکیوں (کمیونسٹوں) کو حکومت کا حق دیا جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کے لئے اشتراکیوں نے کچھ نہیں کیا جھٹ سے ممتابنرجی کو لے آئے لیکن جب ساری توقعقات پوری نہ ہوسکیں تو اب ممتابنرجی سے بیزار ہیں۔ یہی حال یو پی کا ہے اب اکھلیش اور ملائم سنگھ سے سخت نالاں ہیں مایاوتی کی یاد آرہی ہے۔ نتیش کمار سے بیزار ہوئے تولالو+پاسوان کولے آئیں گے۔ یوں بھی نتیش کے ساتھ اب بی جے پی نہیں ہے اگر کانگریس نتیش کو قبول بھی کرلے تو یو پی کی طرح بہار میں کانگریس کا کونس اثر ہے؟

بنگال کے مسلمان اگر ممابنرجی کا ساتھ چھوڑدیں تو کیا کریں گے؟ کیا پھر سرخ پرچم والوں کو اپنے ووٹس سے نوازیں گے؟ یا کانگریس کا ہاتھ تھام لیں گے لیکن کانگریس کا ہاتھ عوام کے ساتھ نہ رہا تو مسلمانوں کے ساتھ کہاں رہے گا؟ یوں بھی ہاتھ اب بھی بنگال میں خاصہ کمزور ہے۔ یوں مسلمانوں کو ممتابنرجی کے خیمے سے نکالنے کے لئے اشتراکی اور کانگریس والیس دونوں ہی بڑے سبز باغ دکھارہے ہیں بلکہ دکھائیں گے لیکن مسلمانوں کو جلد بازی سے کام نہیں لینا چاہئے۔ پارلیمانی انتخابات میں ممتاکے ساتھ نہ دینے کا فیصلہ عجلت میں نہیں کرنا چاہئے یہ مسلمانوں کے مفاد میں نہیں ہے۔

اکھلیش سنگھ یا سماج وادی پارٹی کا ریکارڈ مظفر نگر کے فساد کے حوالے سے بے حد خراب ہوچکا ہے۔ ہم کو یہ باور کروادیا گیا ہے یا ہم نے جوش میں ہوش کو بالائے طاق رکھ کر مان لیا ہے کہ ملائم سنگھ نے بی جے پی یا سنگھ پریوار کے ساتھ سازش اور ساز باز کرکے اپنا فرقہ پرست چہرہ دکھانے کے لئے سیکولرازم کا نقاب نوچ ڈالا ہے۔ ظاہر ہے کہ ہم کو بھی یہی خیال آتا ہے کہ سماج وادی پارٹی کو سبق سکھانے کے لئے آنے والے پارلیمانی انتخابات میں سماج وادی پارٹی کو مسلمانوں کے ووٹس سے قطعی محروم کردیا جائے گوکہ مسلمانوں پر اکھلیش حکومت نے شدید مظالم کئے ہیں۔ اس کے مقابلے میں ممتابنرجی نے کچھ نہیں کیا ہے پھر پارلیمانی انتخابات میں ہم نے ملائم سنگھ اور ممتا کو ووٹ نہیں دئیے اور وزیر اعظم بننے، تیسرا محاظ بناکر مرکز میں برسراقتدار آنے کے خواب دھرے رہ گئے لیکن پارلیمانی انتخابات بے کے ساتھ ہی مغربی بنگال و یوپی میں انتخابات تو ہونے سے رہے۔ سوچ لیں! کہ اگلے اسمبلی انتخابات تک ایس پی یو پی میں اور ممتابنرجی آپ کا کیا حشر کریں گے؟

اگر مان لیا جائے کہ بی جے پی اور سماج وادی نے مل کر ساز ش مسلمانوں کو ڈرانے کے لئے کیا تاکہ اس طرح مسلمان ووٹ لئے جائیں کانگریس یہی کرتی آئی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ جارحیت کا فائدہ بی جے پی کو اسی طرح ہوگا جس طرح گجرات میں بی جے پی کو ہوا تھا۔ یہ مفروضہ مہم و دانش کی کسوٹی پر پورا نہیں اترتا ہے۔ اگر سماج وادی پارٹی کو مسلمان ووٹس لینا ہے تو وہ اچھا سلوک کرکے اس کو یقینی بناسکتی ہے۔ فساد کرواکے معاملہ خراب کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ رہی بی جے پی کے فائدہ کی بات تو جس طرح ہندو جارحیت کا فائدہ بی جے پی کو گجرات میں ہوا تھا۔ وہ یو پی میں ناممکن ہے۔ اگر مان لیاجائے گجرات کی طرح یو پی میں بھی بی جے پی کو فائدہ ہوگا لیکن سماج وادی پارٹی کو مسلم کش فسادات سے فائدہ نہ ہوگا ڈرانے کو تو کانگریس نے بھی مسلمانوں کو یو پی میں ڈرایا لیکن بابری مسجد کی شہادت کے بعد کانگریس کو مسلمانوں نے شجر ممنوعہ قرار دیا ہے۔ اب اگر بی جے پی و ایس پی میں خفیہ معاہدہ ہے تو اس کا فائدہ کیا ہے؟ جب فائدہ نہیں تو خفیہ معاہدہ کا مفروضہ بے معنی اور بے جواز ہے اور سماج وادی پارٹی کے مخالفوں کا پروپگنڈہ ہے۔

بی جے پی سے سماج وادی پارٹی کی ساز باز یا کسی شیطانی گھٹہ جوڑ کو شبہ کا فائدہ تو دے سکتے ۔

اکھلیش انتظامیہ خاص طور پر پولیس کی نااہلی، فرقہ واریت اور تعصب کے الزامات سے بچ نہیں سکتی ہے۔ گجرات میں ان افسروں کے خلاف فوری اور مختصر مدت میں ختم ہونے والی تحقیقات ہونی چاہئے اور اگر بادی النظر میں فسادات کو روکنے میں ناکام رہنے والے کو سخت سے سخت سدی جانیچاہئے نیز نام نہاد امدادی کیمپس اور ان میں پناہ لینے والوں کی حالت زار پر فوری توجہ ضروری ہے۔ پولیس افسروں کے حوالے سے یہ تحقیق بھی ضروری ہے کہ ان کو کیا واقعی اوپر سے احکام ملنے کی بھی تحقیقات فوری ہونی چاہئے کیا واقعی اوپر سے احکام دئیے گئے تھے تو وہ اوپر والے کون ہیں ان کو ان کے مقام ، مرتبے اور عہدے کا لحاظ کئے بغیر فوری عبرت ناک سزا ملنی چاہئے۔

فسادات کی سازش میں صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ بی ایس پی اور کانگریس بھی کرسکتی ہیں۔ بی ایس پی و کانگریس بھلے ہی ساز میں شریک نہ ہوں لیکن فساد بھڑکانے اسے شدید بنانے میں حصہ لے سکتی ہیں۔

اکھلیش اور سماج وادی کو مسلمانوں کا دل جیتنے کے لئے فوری بہت کچھ کرنا ہے اوپر بیان کردہ اقدامات کے علاوہ یو پی سے امت شاہ کا نکالا جانا ضروری ہے۔

مسلمانوں کو بھی جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہئے۔ بی ایس پی کا ساتھ دے کر این ڈی اے کے مواقع ہموار کرتا ہے۔ ملائم سنگھ اکھلیش اور ساری سماج وادی پارٹی کو یو پی کے اگلے ریاستی انتخابات میں سبق دیا جاسکتا ہے۔ کانگریس کے کرپشن اور مہنگائی اور بی جے پی کی فرقہ پرستی اور فاشزم سے ملک کو بچانے کیلئے علاقائی جماعتوں کا ساتھ دینا ضروری ہے۔ ممتابنرجی ہوں یا ملائم سنگھ کو مسترد کرنے کا یہ وقت نہیں ہے۔ جوش نہیں ہوش سے کام لینا ہوگا ۔
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166459 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.