کھوپڑیوں کے مینار

اپنے عنوان پرتو بعد میں آؤنگا پہلے میں قارئین کو یہ یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ حکمراں اور رعایا میں کیا فرق ہے؟ حکمراں زبردستی نازل ہوتے ہیں مگر ایک فریبِ نظر (Illusion) کے ذریعے یہ ثابت کر دیتے ہیں کہ رعایا نے ہمیں اپنی خدمت کیلئے مجبور کیا ہے اور اب ہمارا فرض ہے کہ ہم تن ، من اور دھن سےاِس کی خدمت کریں۔ اس فریب کے تحت رعایا دو عناصر (مجبوری اور بے وقوفی) کے تحت اپنے تن ، من اور دھن کی بازی لگا کر اس امید پر اپنی کھوپڑیوں کے مینار بنانے کا پورا پورا حق حکمرانوں کو دے دیتی ہے کہ شائد ان کے بچو ں کا مستقبل سدھر جائے۔ تیمور لنگ تو بے چارہ تاریخ میں خواہ مخواہ بدنام ہو گیا کیونکہ اس نے انسانوں کو فتح کرکے ان کی کھوپڑیوں کے مینار بنا دیئے تھےان کو بوریوں میں بند کر دیتا یا مِسنگ پرسنز(Missing Persons) ڈکلیئر کردیتا تو یہ بدنامی کا داغ دُھل سکتا تھا۔

مندرجہ بالا حقیقت ازل سے ہے اور ابد تک رہیگی لیکن اللہ کے پیغمبر اس کیٹیگری میں نہیں آتے کیونکہ ان کو انسانیت کی فلاح ہی کے لئے بھیجا گیا تھا لیکن کیا قارئین میں سے کوئ ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کسی ایک کا نام بتا سکتا ہے جس کی بتائ ہوئ باتوں میں سے دس فیصد پر بھی کوئ ایک پیروکار عمل کر رہا ہو؟ اس پر طرّہ یہ کہ ابھی بلوچستان میں زلزلہ والے روز مولانا طاہر اشرفی صاحب خوف کے عالم میں ایک ٹی وی چینل پر یہ دعا فرما رہے تھے "ہمارے گناہوں، ہماری غلطیوں اور ہماری ذلالتوں کو معاف فرما دے"۔ بالکل صحیح فرمایا اور پورے عالم اسلام میں نام نہاد اسلام کے ٹھیکیدار یہی دعا مانگتے ہیں۔ میری عمر 67 سال ہو چکی ہے اور جب سے ہوش سنبھالا ہے یہی دعا سنتا چلا آ رہا ہوں۔ میرا سوال ہے کہ اللہ کیوں معاف کردے جواب ملتاہے وہ بڑا غفور و رحیم ہے اور پھر ہم محمّدﷺ کے پیروکار ہیں اس لئے ہمیں معافی نہ ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔میں سوچتا ہوں کہ اسی غفور و رحیم کی کتاب جو ہمیں محمّدﷺ کے ذریعے ملی، آدھی سے زائد بھری پڑی ہے کہ "ہم نے تم سے پہلی والی قوموں کو کس وجہ سے اور کیسے نیست و نابود کیاجن میں ہماری سب سے پسندیدہ قوم بنی اسرائیل بھی شامل تھی"۔

قابلِ سزا تو ہے ہی قابلِ ترس بھی ہے یہ گھمنڈی نام نہاد مسلم اُمّہ۔ سائنس تو دور کی بات، انسانی فطرت سے بھی انجان ہے۔ پانی کے گلاس میں نمک ملانے سے کبھی پانی میٹھا نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ سائنس کا اصول ہے اور سائنس ہی تو اللہ کا پسندیدہ مضمون ہے جس کے تحت نظا مِ کائنات چل رہا ہے۔ انسانی فطرت کا اصول یہ ہے کہ جب میرے بچّے اور ان کے بچے ایک مرتبہ غلطی کرتے ہیں تو معافی مانگنے پر میں معاف کردیتا ہوں دوبارہ بھی ڈانٹ ڈپٹ کر کے ٹال دیتا ہوں لیکن تیسری بار معافی کی اجازت ہی نہیں دیتا بلکہ وارننگ دیتا ہوں کہ کم از کم ایک ماہ اپنے عمل سے ثابت کرو کہ ایسی غلطی اب نہیں ہوگی پھر مجھ سے بات چیت کرنا۔ یاد رہے کہ یہ ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی بات ہو رہی ہے جو ہم سب سے صبح و شام ہوتی ہیں کسی بڑی غلطی کی معافی کی تو گنجائش ہی نہیں۔ بالکل اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی صبح و شام جھوٹ، کم تولنا، غیبت، مسکینوں کا مال کھانا، رشوت، چوری اور ہر طرح کی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کو ایک مرتبہ نہیں سالہا سال سے معاف کر رہا ہے لیکن آخر کب تک؟ انفرادی ندامت اور اس کے بعد اپنے اعمال کی اصلاح سے اپنا ضمیر بھی مطمئن ہوتا ہے اور اس کے بعد تنہائ میں خشوع و خضو کے ساتھ دعا مانگنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ یقیناً رحیم و کریم ہے ضرور سنے گا لیکن ٹی وی چینلز پر اجتماعی طور پر ڈھٹائ سے اقرار کرنا کہ " ہاں ہم صبح و شام تیری اور تیرے رسول کی نافرمانی کر رہے ہیں تو ہمیں تو معاف فرما مگر کافروں کو نیست و نابود کردے" مگر مچھ کے آنسو بہا کر ڈرامہ ختم ہوتے ہی میڈیا مالکان سے ریٹنگ بڑھانے کا اضافی بونس کا تقاضہ ہی نہیں بلکہ چھوڑ کر دوسرے چینل پر جانے کی دھمکیاں دینے والے اس عہد کے جیّد علماء کا تمغہ تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن ان کے ساتھ اجتماعی دعا کرنے والوں کو بھی اب معافی نہیں مل سکتی اور نہ ہی ملنی چاہیئے۔ گویا نہ ہی حکمرانوں کی معافی کی گنجائش ہے اور نہ ہی رعایا کی کیونکہ یہ جیّد نام نہاد علماء بھی ہم نے ہی پیدا کیئے ہیں۔ اب نہ تو کھوپڑیاں رہیں گی نہ ہی کھوپڑیوں کے مینار بنانے والے، سب کچھ یہ دھرتی نِگل جائے گی۔
Syed Musarrat Ali
About the Author: Syed Musarrat Ali Read More Articles by Syed Musarrat Ali: 126 Articles with 114117 views Basically Aeronautical Engineer and retired after 41 years as Senior Instructor Management Training PIA. Presently Consulting Editor Pakistan Times Ma.. View More