نواز حکومت بمقابلہ طالبان۔۔۔!

ایک اچھی خبر سُننے کو مل رہی ہے کہ موجودہ حکومت اورکالعدم طالبان کے درمیان مذاکرات ہونے والے ہیں ۔ یہ مُلاقات اب ہوگی کس سے چوہدری نثار صاحب اب مُلاقات کرینگے کس سےآُن طالبان سے جن کو جنرل ضیاء الحق نے افغانستان کے لیئے تیار کیا تھا یااُن طالبان سے جو افغانستان پر امریکی حملے کے بعد ناکام ہوکر ایک باغی کی طرح طورہ بورہ کے راستے پاکستان میں داخل ہوگئے یا اُن طالبان سے جنہیں آج کل پنجابی طالبان کہا جاتا ہیں۔ یہاں پر تو عوام کو بے وقوف بنایاجارہا ہے۔ سب سے پہلے حمید گل اور جنرل بابر نے طالبان تیار کیئے ۔ دنیا کے ایک اندازے کے مطابق چالیس ہزار مسلح عرب تیار کئے۔ جنہوں نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جب روسی افواج افغانستان سےناکام ہو کر نکل گئے۔ تو یورپی ممالک اور پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ افغانستان کی تعمیر میں مدد کرتے وہاں پر بھچی کھچی کچھ سیاسی جماعتیں آپس میں مل بیٹھ کہ ایک پُرآمن افغانستان بناتے لیکین ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ طالبان نے وہاں وہ ظلم و جبر کئے جن کی دنیائی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہاں پے تعلیمی ادارے بند کر دیئےگئے ۔ عورتوں کا گھروں سے نکلنا بند ہو گیا تھا ۔جو عورت گھر سے باہر دیکھائی دیتی اُسے سر پے گولی مار دی جاتی یا پھر عورتوں کو سنگسار کر دیا جاتا۔ یہاں تک کہ کابل کے ایک تعلیمی ادارے کے پانی کی ٹینکی میں زہر ڈال دیا گیا ۔ تاکہ ایک بھی لڑکی زندہ نہ بچ سکے۔ افغانستان کے سارے نظام کو درہم برہم کر کے رکھ دیا ۔ان سب کے ذمہ وار پہلے جنرل ضیاء الحق تھے اور اُس کے بعد میاں محمد نواز شریف ۔ ہمارے حکمرانوں نے تو افغانستان کو اپنی ہی کالونی یا اپنا ہی صوبہ سمجھا ۔ افغانستان چل تو رہا تھا چلانے کا لگام پاکستان کے آتھ میں تھا ۔جو کھیل اُنہوں نے افغانستان میں کھیلا وہی کھیل آج پاکستان میں کھیلا جا رہا ہیں۔ وہی ظلم آج خیبر پشتونخوا اور فاٹا میں بھی ہو رہا ہیں۔ سوال یہ اُٹھتا ہے کہ اب مُلاقات کس سے ہوگی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور کا کیا ہوا جس کا غمیازہ آج ہم بگھت رہے ہیں۔ شاہد جنرل صاحب کو پتہ نہیں تھا کہ جو آج ہم بھو رہے ہیں اُسے کاٹنا بھی ہمیں پڑے گا ۔ ہم پُرآمن پاکستانی عوام ہی اُسے کاٹنگے ۔ اور کاٹ رہے ہیں۔ آج ہم مسجدوں میں نماز نہیں پڑتے اس لیے نہیں کہ کوئی سرپیرہ آکر ہماری چپل چُرا کر لیں جائے گا ۔ بلکہ اس لئے مسجدوں میں نماز نہیں پڑتے کہ کئی ایسا نہ ہو کہ کوئی سرپیرہ آکر خودکش دھماکہ نہ کردے یا فائرنگ نہ کردے کہ کئی ایسا نہ ہو کہ ہماری جان چلی جائے ۔جب مسجدیں محفوظ نہیں رہی تعلیمی ادارے محفوظ نہیں رہے ہماری فوج ہمارے ایف سی ہمارے رینجرز اورہماری پولیس محفوظ نہیں رہے ۔ ان کی وجہ سے پاکستان کا ایک بھی صوبہ ایک بھی ضلع ایک بھی تحصیل ایک بھی ٹاون اور ایک بھی گلی محفوظ نہیں رہی ۔ معافی چاھتا ہوں ہمارے ایک صوبے میں ایسا کچھ بھی نہیں ہو رہا وہ صوبہ تو بلکل ہی محفوظ ہیں ۔ جسے ہم پرسوں سے صوبہ پنجاب کہتے آرہے ہیں۔ شاہد یہ میاں نواز شریف کیمرحون منت ہو ۔ صبح گھر سے نکلتے وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں واپس زندہ گھر پہنچے گے یا نہیں اتنے ظلم اور ستم کے بعد بھی مذاکرات کی بات کی جاتی ہیں ۔ آج صرف ایک گروپ مذاکرات کو تیار ہیں ۔ دوسرے گروپ نے گرجا گھر کی اینٹ سے اینٹ بجا کے رکھ دی اور تیسرے سکرٹریٹ کے سرکاری ملازمین سے بھری ہوئی بس کو دھماکے سے اُڑا دیا ۔ کب تک غریب عوام یہ ظلم سہتی رہے گے۔ میں معافی چاہتا ہوں آخر ان بدمست ہاتھیوں کاانجام کیا ہوگا۔ اور آج جماعت اسلامی کا دوسرا چہرہ 2nd face of jamahat e aslami جسے تحریک انصاف کہتے ہیں ۔اُن کے سربراہ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ ان کلعدم تنظیموں کو اپنے دفاتر کھولنے کی اجازت دی جائے ۔یہ ایک کثرباقی رہ گئی تھی تحریک انصاف والوں نے پوری کر دی۔ آج حکمران جماعت کو چاہئے کہ صرف پنجابی طالبان سے نہیں باغیوں کے جتنے بھی گروپس ہیں اُن سے مذاکرات کی جائے اس میں صرف حکمران جماعت نہیں بلکہ اس میں اور بھی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو اہتماد میں لینا ہوگا بلکہ ان کو بھی اپنے ساتھ شامل کرکے طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے ہونگے۔ وہ کونسی جماعتیں ہیں اور کونسے لیڈران ہیں ۔ جمعیت علماء اسلام ، جماعت اسلامی ، جمعیت علما اسلام نظریاتی ، اے این پی کے اسفندیار ولی ، تحریک انصاف سے صوبہ خیبر پشتونخوا کے وزیر اعلیٰ اور عمران خان ، قومی وطن پارٹی کے آفتاب احمد خان شیرپاو ، پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خیبر پشتونخوا کے صوبائی صدر مختار خان یوسفزئی اور مرکزی چیئرمین محمود خان اچکزئی مولانا سمیع الحق پانچوں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اورخیبر پشتونخوا اور فاٹا سے قبائیلی عماہدین جتنے بھی قبائل ہیں ۔ اُن سب قبائل کے مشران ، سرداران اور ملکان کو شامل کیا جائے ۔اور ایک ایسا گرینڈ جرگہ تشکیل دیا جائے کہ جس میں یہ سارے قبائیلی عماہدین سیاسی جماعتیں ، لیڈران صاحبان اور طالبان کے جتنے بھی گروپس ہیں یہ سب مل بیٹھ کہ ایک ایسا حل نکالے جو اس پاک سر زمین کے اور یہاں کے عوام کے مفاد میں ہوں ۔ اور اُسی جرگے میں ان سب کوایک عہد بھی کرنا ہوگا کہ آج کے بعد ہمارے ملک یعنی اسلامی جمہوریہ پاکستان سے کسی ہمسائے ملک یعنی افغانستان ، ایران ، چائینا یا ہندوستان میں کسی قسم کی مداخلت نہیں ہوگی ۔ تب جا کہ یہ مذاکرات کامیاب ہونگے ۔ وزیر اعظم جناب نواز شریف نے تو آمن کی طرف قدم بڑھا دیا ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہیں کہ ااس پر عمل کتنا ہوتا ہیں۔
ikhlaq ahmad khan achakzai
About the Author: ikhlaq ahmad khan achakzai Read More Articles by ikhlaq ahmad khan achakzai: 10 Articles with 17360 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.