”کوچوان منگو“ اور حکومت کا ”ہنی مون“

مطالعہ کا ذوق رکھنے والے یقیناً سعادت حسن منٹو کے نام سے واقف ہوں گے۔ سعادت حسن منٹو اردو ادب کے عظیم افسانہ نگار اور خاکہ نویس ہوگزرے ہیں۔ ان کی تحریریں آج بھی ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہےں۔ وہ اپنی ننگی آنکھوں سے زندگی کی تلخ ،بے رحم سچائی اور حقیقت کو افسانے کا موضوع بنا کر پیش کرتے ہیں۔ پروفیسر گوپی چند نارنگ اپنی تصنیف”جدیدیت کے بعد“ میں سعادت حسن منٹو کے افسانوی ادب کے ضمن میں اپنے خیا لات و تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: ”منٹو Doxa کا نقاب اسی لیے نوچ پھینکتا ہے کہ وہ اشرافیہ کو ننگا کر سکے۔“

”نیا قانون“ سعادت حسن منٹو کا پہلا شاہکار افسانہ ہے ۔منٹو کے یہاں ان کی سیاسی شعور کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔” نیا قانون“ بھی اسی نوعیت کا افسانہ ہے، جو ہمیں دعوتِ فکر دیتا ہے۔ ”استادکوچوان منگو“ اس افسانے کا مرکزی کردار ہے۔ وہ ایک محب وطن شہری ہے جو اپنے مرتبے کے لوگوں میں بہت دانشور سمجھا جاتا ہے۔ اس کا سیاسی شعور بیدار ہے اور یہ احساس کہ وہ ایک غلام قوم کا فرد ہے اس کے دل میں نفرت کا سمندر بن چکا ہے۔ اسے انگریزوں سے شدید نفرت ہے۔ کوچوان منگو مظلومیت کا شکار ایک محنت کش غریب انسان ہے۔ دن رات وہ تانگا چلاتا اور اپنی زندگی بسر کرتا ہے۔ کوچوان منگو اپنی سواریوں کی گفتگو بڑے غور سے سنتا اور اس سے جو کچھ اخذ کرتا، وہ اپنے ساتھیوں کو بھی سناتا ہے۔ ایک دن ٹانگے کی سواریوں کی گفتگو سے اسے نئے قانون یعنی انڈیا ایکٹ کے نفاذ کا علم ہوتا ہے ۔استاد منگو ”نیا قانون“ کی خبر سن کر یہ خبر دوسروں تک پہنچانے کے لیے بے قرار نظر آتا ہے۔ اسے یہ سن کر بے انتہا خوشی محسوس ہوتی ہے کہ ”پہلی اپریل“ کو اس نئے قانون کے نفاذ کے نتیجے میں وہ اور اس کا ملک آزاد ہوجائیں گے۔اس کا خیال ہے کہ نیا قانون ظالموں کے لیے کھولتا ہوا پانی ہوگا۔ اس خبر کے ساتھ اس کے ذہن میں ایک خوشگوار انقلاب کا تصور انگڑائیاں لینے لگتا ہے۔

آخر یکم اپریل کا سورج اس کے تصورکے مطابق حریت کے متوالوں کے لیے نویدِ سحر لے کر طلوع ہوتا ہے۔ وہ اپنے حسین تصورات میں گم اپنے تانگے پر شہر والوں کی بدلی کیفیات دیکھنے کے لیے نکلتا ہے، مگر اسے کوئی خاص تبدیلی نظر نہیں آتی۔ گھومتے گھومتے وہ ایک جگہ سواری کی تلاش میں رک جاتا ہے۔ایک انگریز سواری اسے آواز دیتی ہے۔ قریب پہنچ کر وہ اسے پہچان لیتا ہے کہ ایک بار پہلے بھی اس کی تکرار اس انگریز سے ہوچکی تھی۔ منگو اس سے بہت حقارت بھرے لہجے میں پوچھتا ہے: ”کہاں جانا ہے؟“انگریز منگو کے اس رویے کو زیادہ دیر تک برداشت نہ کرسکا اور اس نے منگو کو چھڑی کے اشارے سے تانگے سے نیچے اترنے کے لیے کہا۔ انگریز کا فرعون صفت رویہ منگو کے دل میں آگ لگا دیتا ہے۔ اس نے انگریز کو تانگے سے اتر کر بے تحاشا پیٹنا شروع کردیا۔ متحیر و ششدر گورے نے ادھر ادھر سمٹ کر منگو کے وزنی گھونسوں سے بچنے کی کوشش کی اور زور زور سے چلانا شروع کردیا۔ اسی چیخ و پکار نے منگو کا کام اور تیز کردیا جو گورے کو جی بھر کر پیٹ رہا تھا اور ساتھ ساتھ کہتا جارہا تھا:پہلی اپریل کو بھی وہی اکڑفوں۔ اسے پتہ نہیں تھا کہ قانون میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس بات کا احساس اسے تب ہوا جب استاد منگو کو پولیس کے سپاہی گورے کو پیٹنے کے جرم میں تھانے لے گئے۔ راستے میں اور تھانے کے اندر استاد منگو ’نیا قانون‘، ’نیا قانون‘ چلاتا رہا، مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ ”نیا قانون“ نیا قانون کیا بک رہے ہو۔ قانون وہی ہے پرانا۔“....اور منگو کو حوالات میں بند کر دیا جاتا ہے۔“

سعادت حسن منٹو کے افسانے ’نیا قانون‘ میں ہمیںاپنے ملک میں موجودہ دور کے ساتھ کافی حد تک مشابہت نظر آتی ہے۔ لیکن ہمارے ملک میں کوچوان منگو کا کردار ملک کا ہر باشندہ ادا کررہا ہے۔ عوام ایک عرصے سے مصائب کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ملک میں پھیلے مسائل نے ان کا جینا دوبھر کیا ہوا ہے۔ انہیں کرپشن کا اژدھا ڈس رہا ہے۔ مہنگائی کا عفریت منہ کھولے ہڑپ کرنے کو تیار ہے۔ بے روزگاری سے تنگ عوام خودکشیا ں کرنے پر مجبور ہیں۔ غریب کا چولہا دن بدن بجھتا جارہا ہے جبکہ امیر ہر دن کے ساتھ امیری کی سیڑھیاں چڑھ رہا ہے۔ بدامنی کی وجہ سے عوام کا چین و سکون چھن چکا ہے اور امریکی غلامی سے یہ عوام بری طرح دوچار ہے۔ پاکستانی قوم کے دل میںان مصائب کے خلاف نفرت کا سمندر ٹھاٹیں ماررہا ہے۔ ان کی خواہش ہے کہ کسی طرح بھی ممکن ہو ان مسائل سے چھٹکارا مل جائے، لیکن کچھ کر نہیں سکتے۔

ملک میں مئی کے مہینے میں انتخابات ہوئے تو مسلم لیگ (ن) براسراقتدار آئی۔میاں نواز شریف ملک کے وزیر اعظم بنے۔وزیر اعظم بننے کے بعد میاں صاحب نے قوم سے وعدہ کیا کہ ہم صرف سو دن میں عوام کے بہت سے مسائل حل کردیں گے۔عوام کو اندازہ ہوجائے گا کہ مسائل حل ہوئے ہی چاہتے ہیں۔بے شمار مسائل سے دوچار عوام نے سوچا واقعی حکومت کے سو دن تمام مسائل کے لیے کھولتا ہوا پانی ثابت ہوں گے۔ان کے ذہن میں ایک خوشگوار تصور انگڑائیاں لینے لگا۔ سب خوشگوار حیرت میں ڈوب گئے۔ان کا خیال تھا کہ حکومت کے سو دن بعد ہم سکون کی زندگی گزار سکیں گے۔ مہنگائی ہوگی نہ بے روزگاری۔ کرپشن ہوگی نہ ہی امریکی غلامی۔ دہشت گردی ختم ہوجائے گی، خود کش بمبار ہمارا ملک چھوڑ دیں گے، بدامنی کا دور دور تک نام و نشان نہیں ہوگا۔ کراچی کے لوگوں کو بھی بدامنی اور ٹارگٹ کلنگ سے خلاصی مل جائے گی،بھتہ مافیا کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔ ڈرون حملے رک جائیں گے۔ بلوچستان کے حالات بھی ٹھیک ہوجائیں گے۔

باالآخر حکومت کے ابتدائی سو دن گزر گئے۔ جسے سیاسیات کی زبان میں کسی جمہوری حکومت کا ”ہنی مون پیریڈ“ کہا جاتا ہے۔لیکن عوام کے مسائل میں کوئی فرق نہ پڑا بلکہ پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوگیا۔غریب کا چولہا پہلے سے بھی زیادہ بجھ گیا۔ مہنگائی کے ریکارڈ توڑ دیے گئے۔ حکومت کے ابتدائی سودنوں میں پیٹرول کی قیمتوںمیں 3سے 4مرتبہ اضافہ کیاگیا ہے، جبکہ بجلی کی قیمتوںمیں اضافے کی بھی یہی شرح رہی۔ نئی حکومت کے آنے کے بعد پٹرول 99 روپے 77 پیسے سے بڑھ کر 109روپے 14پیسے تک پہنچ گیا ہے،بجلی 5 روپے یونٹ سے بڑھ کر 12روپے فی یونٹ ہو گئی ہے۔ سی این جی 73 روپے سے 84 روپے، موبائل ری چارج پر ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دیا گیا ہے، ڈالرکی قیمت 98روپے سے 106روپے کو جالگی ہے۔ان کے علاوہ تمام عام استعمال کی چیزوں میں بھی کئی فیصد مہنگائی کی گئی۔موجودہ حکومت نے قرضے لینے میں سابقہ حکومت کو بھی مات دے دی ہے۔دوسری جانب ڈرون حملے اب بھی جاری ہیں ۔بلوچستان اور کراچی کے حالات بھی جوں کے توں ہیں۔ ن لیگ کی حکومت سابق حکمرانوں کی طرح صرف اور صرف زبانی جمع خرچ سے کام لے رہی ہے۔ان تمام باتوں کو دیکھ کر یہ کہا جاسکتا ہے کہ حکومت کے سو دن عوام کے لیے اسی طرح ثابت ہوئے ہیں جیسے استاد منگو کے لیے نیاقانون ثابت ہوا تھا۔جس سے سوائے مایوسی کے کچھ بھی ہاتھ نہیں آیا۔
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 638404 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.