مظفرنگر کے فساد متاثرین: چند توجہ طلب امور

نورالحسن راشد کاندھلوی

مغربی یوپی کے چار ضلعوں مظفرنگر ،شاملی، باغپت اور میرٹھ میں فرقہ ورانہ فساد کی صورت میں جو ناگہانی آفت آئی اور جس طرح ان علاقوں کے ایسے تمام گاؤں میں جہاں مسلمانوں کی کم آبادی تھی، ایک بڑی او ر منظم سازش کرکے وہاں کے مسلمانوں کو ان کے گھروں سے ، ان کے گاؤوں سے نکالا گیا ۔ ان کی جان ومال اورعزت و آبرو اور مکانات وسامان کو بڑی بے دردی کے ساتھ تباہ وبربادکیاگیا اور پچاسوں دیہات میں تقریباً ۴۸؍گھنٹہ تک مارنے کاٹنے ، قتل کرنے،آگ لگانے، بے آبرو کرنے، گھروں دوکانوں کو لوٹنے اور تباہ کرنے کا سلسلہ پورے اعلان اور خاص ترتیب ومنصوبہ کے تحت چلتا رہا، جس میں سینکڑوں افراد ہلاک و زخمی ہوئے۔ خواتین کی بے حرمتی بھی ہوئی اور تقریباً سترپچہتر ہزارافراد اپنے گھروں اور گاؤں سے نکلنے پر مجبور ہوئے۔ بہت سے اب بھی بے سروسامانی کی حالت میں کیمپوں میں پڑے ہوئے ہیں یا اپنے رشتہ داروں کے پاس مقیم ہیں۔یہ تفصیلات اخباروں میں آچکی ہیں۔

اس ہولناک آفت اور بلاکسی جرم وخطا کے، غریب وبے سہارا مسلمانوں کے خلاف اس سازش نے، ہندوستان کے تمام باضمیر انسانوں کو ہلاکر رکھ دیاہے۔ احتجاج کی آوازیں آرہی ہیں،لوگ صدمے میں ہیں کہ آخر انسان اچانک درندہ کس طرح بن جاتاہے؟ اپنے ساتھیوں، دوستوں ، پڑوسیوں کی عزت وآبرو کی بربادی اور ان کی مال ودولت مکان وجائداد کی تباہی میں کیوں کر بڑھ چڑھ کر حصہ لینے لگتاہے۔ یہ بہت بڑا اورنہایت درناک موضوع ہے جس کے ورق کچھ کھل رہے ہیں کچھ اور کھلتے رہیں گے۔

اب ماحول آہستہ آہستہ بہتر ہونا شروع ہوگیا ہے، اس لئے اب تمام اہل فکر ودانش کی توجہ، ان کے مسائل حل کرنے اورمشکلات دور کرنے کی طرف ہونی چاہئے اور چونکہ یہ مظلومین شہر مظفرنگر سے یوپی دہلی کے بارڈر، لونی تک اوردوسری طرف جمنا کے مشرقی کنارے یوپی کی مغربی سرحدتک اندازاًپچاس سے زیاد کیمپوں میں بکھرے ہوئے ہیں اورتقریبا دوہفتہ گزرنے کے بعد بھی بہت سے لوگوں کا اتاپتہ نہیں ہے، کہ کون کہاں ہے؟ اور ان کو پچاس سے زائد کیمپوں اور کئی سو گاؤں میں تلاش کرنا، نکال لینا بہت مشکل ہے۔بعض لوگوں کے بارے میں گمان ہے کہ ہلاک کردئے گئے، کیونکہ نہر سے لاشوں کے ملنے کا سلسلہ جاری ہے۔اس لئے تمام کیمپوں کا ایک دوسرے سے جلداچھا رابطہ قائم ہونا چاہئے اور یہ معلوم رہنا چاہئے کہ کونسا کیمپ کس جگہ ہے اوراس میں کل کتنے لوگ، کس کس گاؤں کے ہیں؟ کون اس کا ناظم ہے۔ ان کے فون نمبر بھی ہوں۔

دوسرا اہم کام یہ ہے کہ ہرایک کیمپ میں مقیم لوگوں کی مفصل فہرست تیار ہو، جس میں ہراک گاؤں کے تمام افراد کی برادریوں کی ترتیب پر مکمل فہرستیں بنائی جائیں اس میں اوپرگاؤں کا اور برادری کانام درج کیا جائے، پھروہاں موجود گھر کے ذمہ دارکانام ولدیت اور عمر لکھی جائے اورنیچے ان کے گھر اور فیملی کے جو ممبران کے ساتھ ہیں، ان کے سب چھوٹے بڑوں کے نام لکھے جائیں اور ان میں سے کسی ایک کاموبائل نمبر بھی ہوکہ ان سے رابطہ کیاجاسکے۔ اس کے نیچے اس گھر یافیملی کے ان لوگوں کے نام بھی ہوں جو اب تک لاپتہ ہیں اوران کا سراغ نہیں ملا۔ان فہرستوں کی کاپی کراکر اگرسب کیمپوں والے ایک دوسرے سے تبادلہ کریں، اس سے یہ معلوم ہوجائے گا کہ کس کس کیمپ میں کون سے گاؤں کے کس قدر لوگ ہیں ، جب تک یہ فہرست مرتب نہیں ہوگی، اس وقت تک تمام کیمپوں کی صحیح حالت کا علم نہیں ہوگااور غائب لوگوں کی پوری فہرست مرتب نہیں ہوسکتی۔

کئی جگہ یہ اچھی کوشش کی گئی ہے کہ ان لوگوں کی جان ومال کے نقصانات اور نقصان پہنچانے والوں کے خلاف، تھانوں میں رپورٹ( ایف آئی آر) درج کرائی گئی ہے ،ایف آئی آر،ایسے تمام لوگوں کی طرف سے الگ الگ درج ہونی چاہئے جوکسی بھی طرح متأثر ہوئے ہیں۔ اس کے لئے ماہرین قانون اوراچھے وکیلوں کاتعاون اور رہنمائی حاصل کی جائے۔ بہتر ہے کہ بعد کے قانونی عمل میں بھی ایک ہی طریقہ کاراپنا یا جائے او رکسی ایک تنظیم کے تحت یہ سب کام ہوں۔

ان لوگوں کا جو بھی نقصان ہواہے، اس کی پوری تلافی اور بھرپائی ہونی چاہئے ،اس کے لئے جو بھی قانونی اور سیاسی ذرائع استعمال کئے جاسکیں،کئے جائیں۔ اس کام کو رفاہی تنظیموں،این، جی اوز کو سنبھال لینا چاہئے اور اس کے لئے بھر پور کوشش کرنی چاہئے ۔جس گھرانے کاکوئی شخص قتل کردیاگیاہے ،اس کو بھر پورمعاوضہ دلوانے کے لئے جدوجہد کی جائے۔جو لوگ لاپتہ ہیں، ان کے لئے اس بات کی کوشش بھی ہوکہ جس طرح اتراکھنڈ کے کیدارناتھ کے حادثے میں غائب لوگوں کو،کچھ دن کے بعد مردہ مان کر، ان کے وارثوں کو معاوضہ ادا کیا گیاہے، اسی طرح ان لوگوں کو بھی پورا معاوضہ دیا جائے۔ اس کے لئے سیاسی جدوجہد کرکے یوپی حکومت سے سرکلر جاری رایاجائے۔ جن گاؤں میں مسلمان خاصی تعداد میں تھے اوران کے گھر جلادئیے گئے، ان کے گھروں کو اسی طرح بنوایا جائے، جس طرح وہ تھے اورجن گاؤں میں مسلمان بہت کم تعداد میں تھے اوراب وہ وہاں واپس نہیں جانا چاہتے، ان کو علیحدہ سرکاری زمین الاٹ کرکے وہاں بسایا جائے۔یوپی کے وزیر اعلیٰ کاندھلہ میں کہہ کر گئے ہیں کہ جس خاندان کاکوئی آدمی مرگیاہے، اس کے ایک فرد کو سرکاری ملازمت دی جائے گی۔ اس کے لئے پوری کوشش کرکے اس طرح کے لوگوں کو ملازمتیں دلوائی جائیں۔

نہایت افسوس اورصدمہ کی بات ہے کہ اس دکھ کے موقع کو بھی بعض ایسے لوگوں نے، جن کا موجودہ رفاہی کام یا کسی کیمپ سے کسی طرح کا کوئی انتظامی تعلق نہیں ہے، نیٹ وغیرہ پر اپنے نام پتے اور اکاؤنٹ نمبر دے کر روپیہ اور سامان، خصوصاً نقدی جمع کرنے کا کام شروع کردیا ہے اور بعض لوگ ایسے سامان کو جوان لٹے پٹے لوگوں کے لئے دوردراز سے لوگ بھیج رہے ہیں، راستوں میں روک کر اس پر قبضہ شروع کردیا ہے، جو دینی،شرعی، اخلاقی قانونی ہر لحاظ سے بالکل غلط ہے۔ ایسے لوگوں سے بہت احتیاط اورپرہیز کرنا چاہئے، ہراک کیمپ کے ذمہ داروں سے ملاقات کرکے اوروہاں کی ضرورت کاجائزہ لے کر ہی امداد کی رقم یاسامان بھیجیں یاایسے لوگوں کے حوالہ کریں، جن پر بھروسہ ہو اور جو اس کے لئے صحیح کام کررے ہیں۔ ان پناہ گزینوں کا سب سے بڑا کیمپ، مدرسہ عیدگاہ کاندھلہ میں ہے، جس کے نگراں کاندھلہ کے چیئرمین واجدحسن اور مدرسہ کے نگراں مولوی بدرالحسن ہیں۔

ایک نہایت اہم بات یہ ہے کہ کاندھلہ سے حضرت مولانا افتخارالحسن صاحب، سرپرست اعلا مدرسہ عیدگاہ، یاعیدگاہ کیمپ کے منتظمین طرف سے چندہ یا تعاون کی کوئی عمومی اپیل جاری نہیں کی گئی۔صاحب خیر حضرات اپنے طور پر رسد ات فراہم کررہے ہیں۔جزاک اﷲ۔ لیکن اطلاع ملی ہے بعض افرادنے کیمپ کے حوالہ سے یا حضرت مولانا کے حوالہ سے اپیل شائع کی ہے۔ اس کی تردید کردی گئی تھی،اس لئے اگر یہاں کے حوالہ سے کوئی چندہ کرتاہے تو اس کی تصدیق کرلینی چاہئے، کچھ بھیجنا چاہیں تو تصدیق کے بعد ہی روانہ کریں۔

اہم مطالبات
ہم اپنی طرف سے تمام علاقہ کی طرف سے اوران مظلومین کی طرف سے جوان فسادات سے تباہ و برباد ہو چکے ہیں، ان کی عورتیں بیوہ اوربچے یتیم ہوچکے ہیں اور اپنے گھروں سے محروم ہوچکے ہیں، کچھ مطالبات رکھتے ہیں ،امیدہے کہ آپ اس پر پوری توجہ کریں گے اوران پر عمل کرانے کے لئے ہراک ممکن کوشش کریں گے۔
٭متاثرین کو حکومت ویسے ہی گھر یا دوکان بنواکر دے جیسے برباد کئے گئے۔جن لوگوں کی املاک یا سامان تجارت کونقصان پہنچایاگیاہے، ان کو ان کے نقصان کے برابر پورا معاوضہ دیا جائے۔
٭جن لوگوں کی لاشیں نہیں ملیں ، ان کو بھی معاوضہ دیاجائے۔
٭ مجرمین کے خلاف بلارورعایت کاروائی کی جائے او رسخت سے سخت قانونی کاروائی کرکے سزا دلوائی جائے۔
٭ جولوگ ماحول کے ٹھیک ہونے کے بعد اپنے گھروں کو پہنچیں اورنقصانات کو دیکھیں، ان کے مقدمات کرناچاہیں ان کے معاملات کو بھی اسی طرح حل کیاجائے جواس فسادات کے تحت ہواہے اور ایسا لائحہ عمل تیارکیاجائے تا کہ آئندہ ایسے فسادات نہ ہوپائیں۔
٭پولیس کا رویہ جانب دارانہ ہے پولیس کو ہدایت دی جائے کہ وہ متاثرین کے ساتھ جانب داری نہ برتے۔
٭ غلط رپورٹ دینے والے اورفساد میں شامل ہونے والے پولیس عملے کے خلاف کارروائی کی جائے۔
٭ بے گھرلوگوں کو واپس بھیجنے اوران کی مناسب حفاظت کا بندوبست کیاجائے۔
٭جو لوگ اپنی جائیدادیں چھوڑ کر آگئے ہیں اگروہ واپس نہیں جاتے توان کو بازار بھاؤ کے اعتبارسے ان کو معاوضہ دلایا جائے۔
٭جن لوگوں کے مکان،دکان یاتجارت کونقصان پہنچایاگیاہے، ان کو ان کے نقصان کے مطابق پورا معاوضہ دیا جائے۔

Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 163192 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.