خالی ہاتھ

آج بھی اس کی آنکھ ایک کرخت اور غصیلی آواز سے کھلی تھی-آنکھ کھلتے ہی فوری تو دماغ میں کچھ نہیں آیا لیکن آچانک ایک ہاتھ اس کی جانب آیا اس کے کندھے پر ہاتھ مارا گیا تھا اب پتا نہیں اثر اس تھپڑ کا تھا یا آنے والی شخصیت کا وہ فوری اٹھ کر بیٹھ گئی تھی-آنکھ ملتے اور سن دماغ کے ساتھ سامنے دیکھ تو اس کی توقع کے عین مطابق سر پر ڈوپٹہ اور ہاتھ میں تسبیح کے ساتھ اس کی ساس کھڑی تھیں-وہ بولی تھیں ''اررے اٹھ نامراد ابھی تک سوئی پڑی ہے سب کو ناشتہ بنا کر کیا تیرا باپ دے گا''

''جی جی اماں ابھی اٹھتی ہوں''۔۔-اس نے جلدی سے کہا - اسے لگ رہا تھا کہ اس کا جسم تپ رہا ہے لیکن اس وقت نہ تو وہ خود اپنا احساس کر سکتی تھی اور نہ کوئی اور اس کا احساس کرنے والا تھا اور نہ ہی اس لمحے اس کے پاس اتنی ہمت تھی کہ وہ ساس سے یہ کہتی کہ اس کی طبیعت خراب ہے -وہ اس کی اس بات پر اسے سو باتیں سناتیں وہ الگ اور اپنی دس بیماریوں کے ساتھ اس سلوک کا رونا روتیں جو ان کی ساس اور نندیں ان کے ساتھ کرتیں تھیں اور یہ سب سننے کے بعد بھی اگر سارا دن کام اسے کرنا تھا تو اس نے چپ میں ہی عافیت سمجھی-اس نے جلدی سے منہ ہاتھ دھویا اور سب کا ناشتہ بنانے کچن میں دوڑی-ناشتہ کے بعد برتن ،کچن کی صفائی اور گھر کی صفائی،کپڑے کی دھلائی سب اسے کرنا تھا-وہ ابھی سوچ رہی تھی کہ آج کیا کام کرنا ہے اور اسے آج امی سے ملنے بھی جانا تھا ااور اس کے لیے سب کام جلدی جلدی ختم کرنے تھے کہ چھوٹی نند پروین کچن میں آئی اور کہنے لگی '' بھابھی میری آج کچھ دوست آ رہی ہیں ان کے لیے پلاؤ دن میں بنا لیں اور ساتھ میں رائتہ اور زبردست سے پکوڑے ہونے چاہیں''

''پروین مجھے آج پہلے ہی بہت کام ہے اور سب کام کر کے ا می کے گھر جانا ہے تم ثاقب سے کہہ کر باہر سے منگوا لو ''اس نے چھوٹے دیور کا کہا۔۔

بھابھی میں ابھی اماں کو بتاتی ہوں کہ آپ کو میرا چھوٹا سا کام اتنا بھاری پڑ رہا ہے اور ثاقب بھائی ساجدہ بھابھی اور بچوں کو لے کر بھابھی کے میکے جا رہے ہیں۔۔۔-اماں او اماں دیکھو بھابھی میرا ایک چھوٹا سا کام نہیں کر رہی۔۔ کہا ہے کہ سہیلیاں آ رہی ہیں پلاؤ بنا دیں ورنہ میری ناک کٹ جائے گی۔۔۔ سب اپنی بھابھی کے کھانوں کی تعریفیں کرتیں ہیں۔۔۔مگر یہ کہتی ہیں خود کرو یا باہر سے منگوا لو۔۔۔''اماں کا آواز سننا تھا کہ جھٹ کچن کے دروازے میں آ موجود ہوئیں ویسے بھی وہ اسے سنانے کا موقع کیسے جانیں دیتیں-''اوئے منحوس ماری ،میری اولاد کی دشمن۔۔۔ ایک کی تو نے زندگی برباد کر دی اس کے نصیب میں تیری وجہ سے اولاد کا سکھ نہیں ہے اب کیوں باقیوں کے دل توڑ رہی ہے۔۔۔۔،اور ہم باہر سے کیوں منگوائیں تیرے کیا ہاتھ ٹوٹے ہیں کیوں نہیں کر سکتی تو ۔۔۔تجھے کیا یہاں بستر توڑنے کے لیے لائے تھے۔۔۔'' اسے بولنے کا موقع دیئے بنا وہ شروع ہو چکیں تھیں-

''اماں غلطی ہو گئی میں دن کے کھانے کے ساتھ پلاؤ بھی بنا دوں گی۔۔'' وہ ایک بار پھر ہتھیار اٹھانے سے پہلے ہی پھینک چکی تھی-اس کا سارا دن ایسے ہی گھر کے کاموں میں نکل گیا تھا وہ اماں کے گھر آج پھر نہیں جاسکی تھی ایک ہی محلے میں ہونے کے باوجود اسے کئی کئی دن ہو جاتے تھے اماں سے ملے ،میکے میں اس کی ایک ماں،ایک بہن اور بھائی کے سوا اور تھا ہی کون اور ساجدہ اپنے دو بچوں کے ساتھ میکے چلی گئی تھی اسے پتا تھا اب آدھی رات کو آئے گی ویسے بھی اسے ساس کم ہی کچھ کہتی تھیں ایک تو اس کا میکہ کافی مضبوط تھا پھر وہ دو بچوں کی ماں بن کر اپنے پاؤں مضبوط کر چکی تھی اس کا شوہر بھی اس کا غلام تھا اس کے آگے پیچھے پھرتا تھا جبکہ عاطف(اس کے میاں) اس کی کم ہی سنتے تھے انہیں صرف اپنے کاموں سے مطلب ہوتا تھا ان کی شادی کو آٹھ سال ہو چکے تھے عاطف بھی اپنی ماں کی طرح اولاد نہ ہونے کا ذمہ دار اسے سمجھتے تھے-اسے لگتا تھا جہاں آٹھ سال گزرے باقی زندگی بھی ایسے ہی بیت جائے گی اور شاید بیت بھی جاتی اگر اس کی زندگی میں ایک اور طوفان نہ آیا ہوتا-

اس صبح ساس اماں اور عاطف صبح صبح کہیں چلے گئے تھے،ساتھ میں ماسی حاضرہ بھی تھیں جو رشتے کرواتیں تھیں اسے پتا تھا اس کی بڑی نند کے لیے رشتہ دیکھا جا رہا ہے جب ساس اور شوہر گھر آئے تو اس نے دونوں کو پانی پیش کیا ساس بہت خوش لگ رہیں تھیں-اسے لگا رشتہ پسند آ گیا ہے رات کو شوہر سے پوچھا ۔۔''آپ شائستہ کے لیے رشتہ دیکھنے گئے تھے کیسے لگا؟؟۔۔''

''ہممم ۔۔۔ہاں اچھا تھا،زہرہ تم ایسا کرو کچھ دن اپنی امی کے گھر چلی جاؤ۔۔۔۔''

''لیکن کیوں عاطف اگر آپ لوگ شائستہ کی شادی کر رہے ہیں تو پھر تو میرا گھر رہنا ضروری ہے بہت سے کام ہوں گے نا '' اسے آج ان کی باتوں سے یہی لگا تھا کہ یہ لوگ جلدی جلدی ہی شادی کرنا چاہتے ہیں-
''ہاں لیکن ابھی اتنی جلدی نہیں ہے تم اپنی امی کے گھر کل چلی جانا-'' عاطف نے بات ٹالتے ہوئے کہا تھا لیکن اپنی ماں کے گھر جانے کی خوشی میں وہ محسوس نہ کر سکی تھی اسے بہت کم جانے دیا جاتا تھا ماں کے گھر کیونکہ پھر اس گھر کے کام نہیں ہوتے تھے-اس نے کہا تھا کہ کہیں اماں ساس کو اعتراض نہ ہو ،

''نہیں انہیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا میں کل ان کے سامنے تمھیں کہوں گا-''اور واقعی جب عاطف نے ساس کے سامنے کہا تو انہوں نے کوئی اعتراض نہیں کیا تھا وہ بہت خوش ہو گئی تھی عاطف نے اسے ایک ہفتے کے لیے جانے کا کہا تھا اور سامان بھی لینے کا بولا تھا ، خوشی خوشی جاتے ہوئے اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا تھا کہ پلٹ کر اس گھر نہیں آ سکے گی جہاں بیٹی کو یہ کہہ کر بھیج دیا جاتاہے کہ اب مر کر اس گھر سے نکلنا-اس سے اگلے دن اسے خبر ملی تھی کہ اس کے شوہر نے دوسری شادی کر لی ہے ایک ایٹم بم تھا جوصرف اس کے ہی سر پر گرا تھا،اس بم سے اس کا جسم سہی تھا پر اندر کتنی بربادی ہوئی تھی کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا-وہ کئی دنوں سے بیمار رہنے لگی تھی اس کی ماں اور بہن بھائی اس کا دل بہلانے کی کوشش کرتے تھے اسے امید تھی کہ شائد ایک بار عاطف اسے لینے آ جائیں وہ بہت لڑے گی ،بہت شکایتیں کرے گی پھر مان جائے گی اور اپنے گھر لوٹ جائے گی-اسے اس کے شوہر نے جس سے اس نے سچی محبت کی تھی اس نے اسے کتنا بڑا دھوکہ کیا تھا وہ یہ بھی بھول جانا چاہتی تھی-محلے والیاں آتی تو اس کی تیمارداری کے لیے تھیں لیکن اس گھر کی ایک نئی خبر سنا کر اسے اور زخم دے جاتیں تھیں-اس کی سوچوں نے اس کی امیدوں نے آج اسے اس حد تک بیمار کر دیا تھا کہ اسپتال کے آئی سی یو و وارڈ میں پڑی تھی اسے ڈاکٹروں نے بلڈ کینسر وہ بھی لاسٹ سٹیج پر بتایا تھا اسے آج بھی امید تھی کہ اس کا شوہر اس کا حال پوچھنے آئے گا اس کی آنکھیں میں آج بھی امید کی ایک کرن تھی اور وہ اکثر دروازے کی طرف دیکھتی رہتی تھی-اے دروازے کا ایک ایک نقش اسےیاد ہو گیا تھا پر اس کا شوہر نہیں آیا تھا-آج صبح اس نے قرآن سنا تھا پھراس نے ماں سے کہا تھا اسے بچپن کی باتیں سنائے،وہ کافی دیر سناتی رہی تھی پھراس کی ماں کسی کام سے باہر گئی تھی- وہ دروازے کی ہی طرف دیکھ رہی تھی کہ اچانک کوئی آیا تھا اس نے دیکھا سامنے عاطف کھڑے تھے اس نےان کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر ندامت تھی شاید لیکن زہرہ کی آنکھیں ٹھہر گیئں تھیں-عاطف پاس آئے اسے آواز دی لیکن وہ اب سننے کے لیے تیار نہیں تھی وہ ہمیشہ کے لیے ناراض ہو گئی تھی کیونکہ اسے اس غلطی کی سزا دی گئی تھی جو اس کی تھی ہی نہیں ۔۔۔کیا اولاد کا نہ ہونا عورت کے اختیار میں ہوتا ہے یہ سوال وہ ہزار بار اپنے رب سے کر چکی تھی ،اولاد نہ ہونے پر عورت کیوں قصوروار سمجھی جاتی ہے جبکہ اولاد کا ہونا نہ ہونا مرد کا نصیب طے کرتا ہے اس کا جواب ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ زندگی ہار چکی تھی-عاطف نے پلٹنے اور اسے منانے میں اور معافی مانگنے میں بہت دیر کر دی تھی-اس کی کھلی آنکھوں میں دو آنسو تھے اور جسم سرد ہو چکا تھا-عاطف کو عمر بھر کے پچھتاوے کے ساتھ خالی ہاتھ لوٹنا پڑا تھا۔۔
از۔۔ پاکیزہ زینی چودھری

pakiza
About the Author: pakiza Read More Articles by pakiza: 4 Articles with 6013 views خدا کی رحمت کے بنا میں کچھ بھی نہیں.. View More