جان کا صدقہ، مال

سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے پاس ایک نوجوان آیا اور درخواست کی کہ اے اللہ کے نبی!، میں نے سنا ہے کہ آپ تمام حیوانات و طیور کی بولیاں جانتے ہیں اور جب یہی جانور آپس میں باتیں کرتے ہیں تو آپ ان کی باتوں کا مطلب خوب سمجھتے ہیں آپ یہ فن مجھے بھی سکھا دیجیے تاکہ میں جانوروں کی بولیاں سن کر خدا کی معرفت حاصل کرسکوں۔‘‘ سیدنا موسیٰ ؑ نے اپنے نور بصارت سے اُس نوجوان کے ذہن میں چھپی ہوئی اصل بات دیکھ لی اور اس سے کہا ’’اس خیال خام سے باز رہ، اس میں بے شمار خطرے پنہاں ہیں جانوروں کی بولیاں سیکھ کر خدا کی معرفت حاصل نہیں ہوتی اس کے لیے خدا ہی سے رجوع کر‘‘ موسیٰ کلیم اللہ نے اُس جو ان کو بہت سمجھایا بجھایا، لیکن انسان کی فطرت ہے کہ اسے جس بات سے منع کیا جائے، اَدبدا کر وہی بات کرتا ہے اُس نے بے حد خوشامد کی: تب سیدنا موسیٰؑ نے بار گاہ خداوندی میں عرض کیا ’’یا الٰہی! تو بے نیاز ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نوجوان کی عقل و خرد کو شیطان مردود نے اپنا کھلونا بنالیا ہے تو ہی بتا، میں کیا کروں؟ اگر اسے جانوروں کی بولیاں سکھادوں تو یہ بات اس کے حق میں نیک نہ ہوگی اور اگر نہ سکھائوں تو اس کا دل صدمے سے چور ہوتا ہے۔‘‘ حق تعالیٰ نے حکم دیا ’’اے موسیٰ‘‘ تم اس نوجوان کی خواہش پوری کرو، کیوں کہ ہماری سنت ہے ہم کسی کی دعا رد نہیں کرتے ۔‘‘ یہ حکم پانے کے باوجود سیدنا موسیٰ ؑ نے سوچا ایک بار پھر اس نوجوان کو اس خیال سے باز رہنے کی کوشش کروں چناں چہ آپؑ نے اُسے نہایت شیریں اور نرم لہجے میں سمجھایا کہ خدا نے اجازت تو فرمادی ہے اور اب تیری مراد خود بخود پوری ہوجائے گی لیکن تیرے حق میں بہتر ہے کہ یہ خیال ذہن سے نکال دے اور خدا سے ڈر، کیوں کہ یہ پٹی شیطان نے تجھے پڑھائی ہے مجھے یقین ہے کہ تو سیکڑوں آفتوں میں پھنس جائے گا۔‘‘ اس بات نے اُس نوجوان پر صرف اتنا اثر کیا کہ وہ کہنے لگا ’’بہت بہتر میں تمام جانوروں کی بولی سیکھنے کے خیال سے درگزر کرتا ہوں لیکن کم از کم دو جانوروں کی بولیاں تو ضرور ہی سکھا دیجیے ایک اُس کتے کی بولی جو میرے مکان کے دروازے پر پہرا دیتا ہے اور دوسری اُس مرغ کی بولی جو میرے گھر میں پلا ہوا ہے پس میرے لیے ان دو جانوروں کی بولی ہی سمجھ لینا بہت ہے‘‘۔ سیدنا موسیٰ ؑ نے فرمایا ’’اچھا، جا آج سے ان دونوں حیوانوں کی بولی کا فن میں نے خدا کے حکم سے تجھے عطا کیا‘‘۔ وہ نوجوان خوش خوش گھر آ گیا اور اگلے روز اپنے پالتو جانوروں کی باتیں سننے کے لیے دروازے کے قریب کھڑا ہوگیا تھوڑی دیر بعد گھر میں کام کرنے والی خادمہ ہاتھ میں ایک کپڑا لیے دروازے پر آئی اس میں رات کا بچا کھچا روٹی کا ایک ٹکڑا تھا وہ خادمہ نے باہر پھینک دیا اُسی وقت مرغ پھڑ پھڑاتا ہوا آیا اور وہ ٹکڑا اُٹھا کر اپنی چونچ میں دبا لیا پہرا دینے والے کتے نے یہ دیکھ کر مرغ سے کہا ’’یار تو بڑا لالچی ہے دانہ دنکا بھی چگ کر اپنا پیٹ بھر سکتا ہے باسی روٹی کا یہ ٹکڑا ہمارے حصے کا تھا وہ بھی تو نے اُچک لیا۔‘‘ مرغ نے کتے کا شکوہ سنا تو جواب میں کہا ’’بھائی‘‘ اس باسی روٹی کا رنج نہ کر ذرا صبر سے کام لے خدا نے تیرے لیے بہترین نعمت مقرر کی ہے کل ہمارے مالک کا چہیتا گھوڑا مرنے والا ہے اُس کو گوشت خوب پیٹ بھر کر کھائیو‘ یوں خدا تجھے بے کوشش اور بے مشقت رزق عطا کرے گا۔‘‘ اُس نوجوان نے مرغ کی یہ بات سنتے ہی تھان پر سے گھوڑا کھولا، بازار میں لے جاکر اس کے دام کھرے کیے اور خوشی خوشی گھر واپس آیا اگلے روز صبح پھر خادمہ نے دستر خوان جھاڑا تو روٹی کا ٹکڑا زمین پر گرا مرغ پھر اُچک کرلے گیا اور کتا منہ دیکھتا رہ گیا۔ آخر اُس نے مرغ سے کہا ’’اے تو بڑا چالاک اور فریبی ہے تو نے کل کہا تھا کہ آقا کا گھوڑا مرجائے گا اور مجھے خوب پیٹ بھر کر گوشت کھانے کو ملے گا اب بتاگھوڑا کہاں مرا؟ آقا نے تو اُسے لے جاکر بازار میں بیچ ڈالا۔ معلوم ہوتا ہے تو ازلی جھوٹا ہے سچائی تیرے مقدر میں نہیں۔‘‘ مرغ جھوٹا نہیں بڑا باخبر تھا اس نے جواب دیا یار تو خواہ مخواہ تائو کھاتا ہے گھوڑا تو مرنے ہی والا تھا یہاں نہ مرا دوسری جگہ جا کر مرگیا ہمارا آقاگھوڑا بیچ کر نقصان سے تو بچ گیا اور بظاہر اپنا نقصان دوسرے کی گردن پر ڈال دیا، لیکن فکر نہ کر کل انشاء اللہ اُس کا اونٹ مرجائے گا پھر تیری پانچوں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہوگا۔‘‘ نوجوان لپکا ہوا گیا اور اونٹ کے بھی بازار میں لے جاکر دام وصول کرلیے جانور کے مرنے کے صدمے اور رقم کے نقصان سے چھٹکارا پایا دل میں خوش تھا کہ ان جانوروں کی بولیاں سیکھ کر فائدے ہی میں رہا۔ تیسرے دن کتے نے مرغ سے کہا ’’تُو تو بڑا ہی فریبی نکلا‘ آخر جھوٹ بولنے میں مزا کیا آتا ہے‘‘؟ مرغ نے کتے کی یہ جھاڑ سن کر کہا ’’یار جانی میں جھوٹ نہیں بولتا مالک نے اونٹ کو بھی لے جا کر بیچ ڈالا اور پیسے جیب میں رکھے اب وہ اونٹ جس بدنصیب نے خریدا تھا اُس کے گھر جاکر مرگیا ہے بہر حال تو غم نہ کر کل ہمارے آقا کا غلام مرے گا، موت نے اُسے تاکا ہے غلام کے مرنے کے بعد آقا فقیروں کو روٹیاں اور گوشت بانٹنے کا اہتمام کرے گا پھر تیرے مزے ہی مزے ہیں‘‘۔ مرغ کی بات سنتے ہی نوجوان نے غلام کو بھی ایک شخص کے ہاتھ اچھی قیمت پر بیچ دیا اور نقصان سے بچ کر جی میں بہت خوش ہوا اُس نے دل میں کہا، خدا کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے تین حادثوں سے بال بال بچا لیا، اگر کتے اور مرغ کی بولیاں مجھے نہ آتیں تو بڑا بھاری نقصان اُٹھانا پڑتا۔ چوتھے دن کتے نے لال پیلی آنکھیں نکال کر مرغ سے کہا ’’ابے او جھوٹوں کے بادشاہ‘ تونے یہ بھی سوچا کہ تیری یہ دروغ گوئی کب تک چلے گی، تو کہتا تھا کہ غلام مرے گا، غلام کہاں مرا‘‘؟ مرغ نے جواب دیا بخدا میں نے سچ کہا تھا آقا اگر اس غلام کو نہ بیچتا تو وہ اس مکان میں مرتا بہرحال جس نے اُسے خرید اور اب نصیبے کو رو رہا ہوگا لیکن تو اب خوش ہو کہ خود ہمارے آقا کی باری آگئی ہے کل یہ یقیناً مرجائے گا اب دیکھتا ہوں کہ وہ اپنے آپ کو موت کے فرشتے سے کیوں کر بچائے گا کاش! وہ بے وقوف اتنا سمجھتا کہ ایک نقصان سینکڑوں نقصانوںکا صدقہ ہوتا ہے یاد رکھ کہ جسم و مال کا زیاں، جان کا صدقہ ہے دنیا وی معاملات میں انسان بعض اوقات زر و مال خرچ کرکے اپنی جان بچا لیتا ہے لیکن افسوس کہ قدرت الٰہی کے رازوں سے جاہل ہے کہ یہاں اپنا مال بچانے کی کوشش کرتا ہے، اور نہیں جانتا کہ وہی مال اگر اپنی ذات پر سے صدقہ کرے تو نقصان، فائدہ بن جائے، خیر اب تو قصہ ہی تمام ہوا چاہتا ہے آج ہمارا آقا سوئے عدم روانہ ہوجائے گا پھر اس کے والی وارث گائے ذبح کریں گے اور دیگیں چڑھیں گی، فقیروں اور محتاجوں کا ہجوم ہوگا، روٹیوں کے ٹکڑے اور ہڈیاں بوٹیاں اس کثرت سے تجھے کھانے کو ملیں گی کہ جی بھرجائے گا۔ ہاں گھوڑا،ا ونٹ، اور غلام کی موت ہمارے بے وقوف اور مغرور آقا کی جان کا بدلہ تھا مال کے نقصان اور اس کے رنج و عالم سے تو محفوظ رہا، لیکن اپنی جان گنوائی:۔ آقا نے مرغ کی زبانی اپنے مرنے کی خبر وحشت اثر سنی تو پیروں تلے کی زمین نکلی گئی ہاتھ پیروں میں دم نہ رہا گرتا پڑتا، بدحواس، بدحال سیدنا موسیٰؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ساری داستان سنا کر فریاد کی کہ اے خدا کے سچے نبی، مجھے ملک الموت کے پنجے سے بچائیے۔ اس نوجوان نے پھر منت سماجت شروع کی اور اس قدر رویا کہ سیدنا موسیٰؑ کو اس پر رحم آیا ارشاد ہوا ’’اے نوجوان، اب تیر کمان سے نکل چکا اور چھوٹا ہوا تیر کبھی واپس نہیں آتا قضانے تیرا گھر تاک لیا ہے اور اسے ٹالنا میرے بس میں نہیں ہاں بار گاہ الٰہی میں تیرے لیے یہ درخواست پیش کرتا ہوں کہ جب تیری روح بدن کا ساتھ چھوڑے تو ایمان کی دولت تجھے نصیب ہو وہی زندہ ہے جو ایمان سلامت لے جائے۔‘‘ ابھی پیغمبر خدا کی بات پوری بھی نہ ہوئی کہ نوجوان کا جی مالش کرنے لگا، دل گھبرایا، ہاتھ پائوں سنسانے لگے یکایک خون کی ایک قے ہوئی وہ قے ہیضے کی نہ تھی موت کی تھی، اُسی وقت چار آدمی اُسے کندھوں پر لاد کر گھر لے گئے مکان پر پہنچتے اُس پر تشنج طاری ہوگیا زبان بند ہوئی آنکھوں کی پتلیاں پھر گئیں کانوں کی لویں مڑگئیں آخرکار اُس نے ایک ہچکی لی اور اپنی جان، جان آفریںکو سونپ دی، سیدنا موسیٰؑ نے خبر سنی تو درگاہ الٰہی میں دعا کی اے باری تعالیٰ اُسے ایمان کی دولت نصیب فرما، اپنی شان الوہیت کے صدقے میں اُسے بخش دے ہر چند اُس نے گستاخی اور ضد کی لیکن وہ نادان تھا۔‘‘ (حکایات کا انسائیکلو پیڈیا، تحقیق و تالیف: شاہدہ لطیف)
 

Abdul Rehman
About the Author: Abdul Rehman Read More Articles by Abdul Rehman: 216 Articles with 257213 views I like to focus my energy on collecting experiences as opposed to 'things

The friend in my adversity I shall always cherish most. I can better trus
.. View More