اب تو ہوگا میدان سیاست میں مقابلہ

کسی کو اب سمجھ آئے یا نہ آئے۔ پاکستان کی سیاست اب نیا رخ اختیار کرنے جارہی ہے۔ اب تو ہوگا میدان سیاست میں دوپہلوانوں کے درمیان مقابلہ۔ کس کا پلڑابھاری رہتا ہے اور کون کس پوزیشن میں رہتا ہے۔ اس کا فیصلہ میدان سجنے کے بعد کیا جا سکے گا۔ آصف علی زرداری اپنی آئینی صدارتی مدت ختم ہونے کے بعد نہ صرف ایوان صدر سے نکل کر بلاول ہاؤس میں منتقل ہوچکے ہیں۔ بلکہ وہ آئینی حصار سے باہر آکر میدان میں آگئے ہیں۔ انہوں نے اس کا آغاز بلاول ہاؤس میں پارٹی کی میٹنگ بلا کر کر دیا ہے۔ بطور صدر ان پر کچھ آئینی پابندیاں عائد تھیں۔ جس کی وجہ سے وہ پارٹی کے معاملات کھل کر نہیں چلا سکتے تھے۔ اس کے باوجود بھی وہ کسی نہ کسی طرح پارٹی کو سنبھالے رہے۔ ان پر دوہری ذمہ داری تھی۔ ایک طرف وہ ملک کے سربراہ تھے۔ ملکی معاملات کی بھی ان کو نگرانی کرنا تھی۔ دوسری طرف محترمہ بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد بلاول بھٹوزرداری کی تعلیم میں مصروفیت اور کم عمری کی وجہ سے پارٹی کو سنبھالنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔ انہوں نے دونوں ذمہ داریوں کو نبھانے کی بھرپورکوشش کی۔ عام انتخابات کے انعقاد سے قبل ان کو عدالت عالیہ لاہور نے حکومتی اور پارٹی عہدوں میں سے ایک اپنے پاس رکھنے کا حکم دیا تو انہوں نے حکومتی عہدہ اپنے پاس رکھا۔ ان کو سیاست میں حصہ لینے سے روک دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عام انتخابات میں وہ کسی جلسہ عام سے خطاب نہ کرسکے۔ اب وہ صرف پارٹی کے سربراہ ہیں۔ بطور صدر ان پر جو آئینی پابندیاں عائد تھیں۔ اب وہ ختم ہوگئی ہیں۔ اب ان کے خلاف کسی عدالت میں ایسا کیس دائر نہیں ہوسکے گا جس میں کہا جائے کہ وہ دوعہدوں میں سے ایک اپنے پاس رکھیں۔ وہ جس آئینی حصار میں تھے اب اس سے باہر آگئے ہیں۔ پارٹی میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے خود کہا ہے کہ مجبوریاں ختم ہوگئیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب اپنے انداز سے سیاست کرکے دکھاؤں گا۔ اگرچہ انہوں نے ملکی معاملات میں نوازشریف کا ساتھ دینے ، ان کی حکومت کو کمزور نہ ہونے دینے کی بات کی ہے۔ تاہم انہوں نے مجبوریاں ختم ہوگئی ہیں کہہ کر کچھ کہہ دیا ہے۔ کس کس کو سمجھ آیا ہے یہ ابھی کچھ نہیں کہا جاسکتا انہوں نے یہ بھی کہا ہے سیاست اب سڑکوں پر نہیں پارلیمنٹ میں ہوگی۔یہ بھی ان کی طرف سے مثبت اشارہ ہے ۔ تاہم پاکستان کی سیاست میں اب نیا موڑ آنے والا ہے۔ سیاست کے دنگل میں اب دوپہلوانوں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ ایک پہلوان نوازشریف ہے جبکہ دوسرا پہلوان آصف علی زرداری ہے۔ اب ہوگا ملک میں سیاست کا مقابلہ۔ دونوں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش بھی کریں گے۔ ایک اپنی پارٹی کی ساکھ بحال رکھنے کی کوشش کرے گا اور دوسرا اپنی پارٹی کی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کرے گا۔ جس طرح گزشتہ دور حکومت میں نوازشریف نے اسمبلی سے باہر بیٹھ کر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کیا تھا۔ اسی طرح اب آصف علی زرداری بھی اسمبلی سے باہر بیٹھ کر اپوزیشن لیڈر کا کردار ادا کریں گے۔ سیاست کے میدان میں مقابلہ ہونا چاہیے مگر ترجیح ہر صورت میں ملک اور قوم کا مفاد ہی ہو۔ اگر دونوں سیاسی رہنما اپنی سیاسی اور انتظامی توانائیاں ملک وقوم کو درپیش مسائل کو حل کرنے میں صرف کریں تو پاکستان کی سیاست میں ایک نئی تاریخ رقم ہوجائے گی۔ اور مسائل بھی کم ہوجائیں گے۔ ایک اور بات بھی ذہن نشین کرلیں آصف علی زرداری کے میدان سیاست میں ازسرنو قدم رکھنے سے عمران خان کی سیاست پس منظر میں چلی جائے گی۔ اس سے پہلے اپوزیشن میں ان کی سیاست نمایاں تھی۔ اب ان کی جگہ زرداری نے لے لی ہے۔ یہ بات نہیں کہ ان کی سیاست میں کوئی کمی آئے گی۔ عمران خان سیاست اسی طرح کرتے رہیں گے۔ تاہم آصف علی زرداری کی سیاست ان کی سیاست پر غالب رہے گی۔ یہ کہا جائے کہ دو نہیں سیاست کے تین پہلوانوں کے درمیان مقابلہ ہوگا۔ غلط نہیں ہوگا۔ تینوں مل کر جمہوریت اور سیاست دونوں کو مضبوط کرنے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو درپیش مسائل سے بھی نکالنے کی مل کر جدوجہد کریں۔ قوم ان سے یہی توقع رکھتی ہے۔
Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 305149 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.