ایک عظیم مقصد

وہ ٨٥ سالہ بزرگ تھے ان کی آنکھوں کے نیچے حلقہ پڑے ہوئے بال چٹہ سفید آئی برو بھی اپنی عمر کی اختتام پر تھیں جسم پر گوشت کا فقدان نظر آ رہا تھا لیکن ان کی آنکھوں میں امید کی کرن نظر آرہی تھی میں ان کے پاس گیا اور ان سے دریافت کیا کہ ۔
اگر آپ کو ناگوار نا گزرے تو آپ کی عمر پوچھ سکتا ہوں؟
بزرگ: بیٹا میری عمر پوچھ کر کیا کرو گے؟
راشد: آپ سے کچھ معلومات لینی ہے۔
بزرگ: میری عمر ٨٥سال ہے۔ اور تم مجھ سے کیا معلومات لینا چاہتے ہو؟
راشد: آپ ہمارے بزرگ ہیں آپ کی ہر بات ہمارے لیے معلومات مییں اضافہ کا سبب بنے گی۔
بزرگ:پوچھو کیا پوچھنا چاہتے ہو؟
راشد: آپ کہا کے رہنے والے ہیں؟
بزرگ: میں تقسیم سے پہلے ہندستان کے ضلع یو پی کے علاقے الا آباد ( پان دریپا) میں رہائیش پزیر تھا۔
راشد: الا آباد کے بارے میں آپ کچھ بتائیں گے؟
بزرگ: بیٹا تم نے یہ کیسا سوال کر دیا ہے پرانی یادیں تازہ کر دی ہیں۔ بیٹا ہم ٩بھائی تھے میں انڈین پولیس میں تھا پورے علاقہ میں ہماری بہت عزت تھی میں بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھا زندگی بڑی سموتھ گزر رہی تھی، یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔
راشد: معذرت میں نے آپ کا دل دکھایا آپ سے مجھے یہ سوال نہیں پوچھنا چاہیے تھا۔
بزرگ: نہیں بیٹا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں جب اپنوں کی یاد آجائے تو آنکھوں میں آنسو آ ہی جاتے ہیں۔
راشد: جب آپ کی زندگی اچھی گزر رہی تھی تو آپ نے ہجرت کیوں کی ویسے بھی پاکستان نے ہمیں کیا دیا۔ غربت، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ، بے روزگاری۔
بزرگ: بیٹا ہجرت کرنے کا مقصد بہت بڑا تھا یہ الگ بحث ہے کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا اور ہم نے پاکستان کو کیا دیا؟
کیا پاکستان ایک آدمی کا نام ہے؟ بیٹا تم مجھے کچھ سمجھدار اور پڑھے لکھے معلوم دیتے ہو تم بھی ایسی غیر حکمتی باتیں کر رہے ہو جس طرح لوگ سنی سنائی باتوں کو بغیر سوچے سمجے آگے کہہ دیتے ہیں۔
(یہ کہہ کر وہ جذباتی ہو گئے )
بیٹا ہم نو بھائیوں میں سے صرف دو بھائیوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا اور انجام کا سوچے سمجھے بغیر کچھ ضروری سامان اور اپنے بیوی اور بچوں کو لیکر اس منزل کی طرف نکل پڑے کہ جس کا ہمیں علم نہیں تھا
ہم الا آباد سے چلے تو دو فیملی تھی ایک ہماری اور دوسری ہمارے پڑوسی چاند بھائی، میں چونکہ پولیس میں تھا اس لیئے میرے پاس ایک ریوالور تھی اور اس میں ٦ گولیاں تھیں چاند بھائی کے پاس ایک خنجر تھا جو کہ اپنی حفاظت کیلیے ضروری تھا۔

ٹرین کو ١٠ بجے روانہ ہونا تھا ہم وہاں ٨ بجے ہی پہنچ گئے تھے الا آباد سے صرف ہم دو ہی فیملی تھی میں پلیٹ فارم پر بیٹھا کچھ سوچ رہا تھا تو میرے چھوٹے بھائی نے آکر مجھے بتایا کے الا آباد سے بہت سارے لوگ ہجرت کر کے اسی طرف آ رہے ہیں وہ بھی ہمارے ساتھ پاکستان جائینگے۔ میں فوراَ اٹھا اور قافلے کی طرف اس امید سے دیکھنے لگا کہ میرے بھائی اس قافلے میں آ رہے ہونگے قافلہ بہت تیزی سے پلیٹ فارم کی طرف آرہا تھا دیکھتے ہی دیکھتے سارا قافلہ آگیا اور اس میں میرے ہم نوا اور ہم پیالہ نہ تھے اس زمانے میں نہ تو موبائل فون تھا کہ فون کر کے خیرت دریافت کر لی جائے اور ان سے ارادہ پوچھا جائے بس میں پھر اپنے خیالات میں گم ہو گیا۔

جاری۔۔۔۔۔