ماضی کا پرامن شہردنیا کا”خطرناک میگا سٹی“ قرار

70کی دہائی میں کراچی کا شمار دنیا کے بہترین اور پرامن شہروں میں ہوتا تھا۔ دنیا جہاں کے سفارت کار، سیاح شہر میں کھلے عام پھرتے تھے۔ یورپ، امریکا، مشرق بعید، عرب ممالک، سوویت یونین، جاپان اور بھارت جانے والے تمام جہاز کراچی اترتے تھے اور مسافر کراچی کے بازاروں میں ایک دو گھنٹے گزار کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوجاتے تھے۔ کراچی کے رہائشی شہر کے امن پر فخر کرتے تھے۔کراچی روشنیوں کا شہر کہلاتا تھا۔کراچی کی محبت کا یہ عالم تھا کہ ملک بھر سے آنے والوں کو اس شہر نے اپنے دامن میں جگہ دی اورروزگار فراہم کیا ۔رفتہ رفتہ اس شہر کی رونقیں اجڑنے لگیں اور اس شہر کی روشنیاں ماند پڑنے لگیں۔قتل و غارت گری کا بازار گرم ہونے لگا، لوگوں کو اغوا کیا جانے لگا،ان سے بھتا لیا جانے لگا جس سے لوگوں کے کاروبار اجڑ گئے۔یوں اس شہر کا امن برباد ہوتا گیا۔2010 میں ایک آن لائن امریکی جریدے ”Blaze“ نے دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں کی فہرست جاری کی تھی۔ان شہروں میں پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور معاشی مرکز کراچی دنیا کے دس خطرناک ترین شہروں کی فہرست میں چھٹے نمبر پر تھا۔اس کے بعد بھی حالات کچھ بہتر نہیں ہوئے بلکہ دن بدن خراب ہی ہوتے رہے۔

دو روز قبل امریکی جریدے ”فارن پالیسی “نے اپنی رپورٹ میں کراچی کی ابتر صورت حال پر کہاہے کہ کراچی دنیا کاسب سے خطرناک میگا سٹی بن چکا ہے، جہاں ایک لاکھ افراد میں 12.3افراد کو قتل کرنے کی شرح ہے، جو کہ دنیا کے کسی بھی بڑے شہر سے 25فی صد زیادہ ہے،2011میں ممبئی میں202 افراد قتل ہوئے جب کہ 2011 میں کراچی میں1723افراد اور2012 میں2 ہزار سے زائد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ سیاسی جماعتوں سے وابستہ گینگ کافی عرصے سے اس شہر میں سرگرم ہیں، جو بھتہ اور زمینوں پر قبضوں کے گروہ چلا رہے ہیں۔ بلوچستان کی بے امنی اور افغانستان کے خراب حالات بھی کراچی پر اثر انداز ہوئے، اس کی بندرگاہ نارکوٹکس اور ہتھیاروں کی سمگلنگ کے لیے استعمال کی جارہی ہے، ڈرگز گینگز بھی اس شہر میں شامل ہو گئے ہیں، کراچی منشیات کی سمگلنگ اور فروخت بھی ڈرگز مافیا کے لیے ایک جنت ہے۔ یورپ اور امریکا میں بھیجی جانے والی افغان منشیات کے لیے بنیادی منڈی کراچی کی پورٹ ہے۔ جریدے نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ کراچی کی بندرگاہ کو ایک نئی ڈرگ میتھا مفٹامین کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں ہیروئین کی طلب میں کمی جب کہ میتھا مفٹامین کی طلب میں اضافہ ہوا اور خطے میں اس کا سب بڑا پیدا کنندہ ملک ایران ہے لیکن ملائشیا اور آسٹریلیا کو اس کی فراہمی کیلئے پاکستان ہی روٹ استعمال ہوتا ہے۔ اس کی تیاری کیلئے ایفیڈرین یا سوڈو فیڈرین کیمیکل کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ کیمیکل کھانسی، الرجی، زکام یا دیگر ادویات کی تیاری استعمال میں ہوتا ہے لیکن کراچی میں اسے جرائم پیشہ سرگرمیوں کے لیے استعمال کیاجارہا ہے۔ میتھامفیٹا مین کو کراچی میں کرسٹل کہتے ہیں۔ ایک گرام کرسٹل پانچ سو سے آٹھ سو میں مل جاتی ہے۔ یہ ہیروئن سے زیادہ مہنگی ہے لیکن اس کانشہ ہیروئن سے زیادہ تیز ہے۔ کراچی میں گینگ لڑکوں کو گلیوں سے اٹھاتے ہیں انہیں کرسٹل کا عادی بناتے ہیں اور پھر جرائم کراتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق آج بھی افغان ہیروئن کی سمگلنگ کے لیے کراچی کی بندرگاہ استعمال کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں افیون اور بھنگ سب سے زیادہ پی جا رہی ہے، ایک فی صد ہیروئن پیتے ہیں جب کہ 41 لاکھ پاکستانی منشیات پر انحصار کرتے ہیں۔ 12 لاکھ منشیات کے عادی اس شہر میں رہتے ہیں۔ جریدے کے مطابق کراچی کی آبادی میں 2000 سے 2010 میں 80 فی صد سے زیادہ اضافہ ہوا جو کہ ایک دہائی میں نیویارک کی کل آبادی سے زیادہ اضافہ ہے، نیویارک کی کل آبادی تقریباً 85 لاکھ سے زیادہ ہے۔

کراچی پاکستان کا دارالحکومت رہ چکا ہے اور اب بھی اسے پاکستان کا ’تجارتی دارالحکومت‘ کہا جاتا ہے لیکن اگر یہاں ہونے والے جرائم پر نظر ڈالی جائے تو اسے ’جرائم کا دارالحکومت‘ کہنے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں۔شہر بے اماں کراچی پر قبضے کی جنگ جاری ہے۔ بھتا،اغوا، قبضہ، لوٹ مار، اسٹریٹ کرائم اورپولیس گردی سمیت دیگر جرائم میں روزانہ شہریوں کا خون نچوڑاجاتا ہے۔ کراچی کے عوام سے روز انہ 83کروڑ روپے زبردستی وصول کیے جاتے ہیں۔ شہر کی ساڑھے پانچ سو چھوٹی بڑی مارکیٹوں سے بھتا اور پرچی کے نام پر روزانہ ایک کروڑ روپے جمع کیے جاتے ہیں۔ اغواءبرائے تاوان گزشتہ چند سال سے بینک ڈکیتی کی طرح کی مہنگی ترین وارداتیں بن چکی ہیں، جو عموماً خوف کی وجہ سے منظر عام پر بھی نہیں آتی، کبھی ڈر کے مارے تو کبھی مشہور ہونے کے ڈر سے تاجر و صنعت کار برادری اور بااثر شخصیات اس مد میں روز کئی کئی لاکھ روپے دینے پر مجبور ہیں، جن سے مطالبے بھی لاکھوں کروڑوں میں ہوتے ہیں،اس دھن کا حصہ روزانہ کم و بیش پانچ کروڑ روپے ہے۔ پارکنگ مافیا نے شہربھر میں 5 سو سے زاید پارکنگ لاٹ بنارکھی ہیں، جو سڑکوں پرموٹرسائیکلیں اور گاڑیاں گھیر گھار کر بناتی ہے، 24لاکھ روپے روزانہ، شہر کے بازاروں میں55 ہزار سے زیادہ ٹھیلے اورپتھارے لگتے ہیں جومختلف بیٹر زکو فی کس 100 سے 200روپے دیتے ہیں،اس کی کل رقم بنتی ہے روزانہ 82لاکھ50ہزار روپے۔ کس کی جیب میں جاتے ہیں کچھ معلوم نہیں۔ پانی چوری، ٹینکر ز سے کمائی ہویا ہائیڈرنٹس سے چوری 272ملین گیلن پانی بیچ کر روزانہ 10کروڑ روپے پیے جاتے ہیں۔ کراچی میں جوئے اورمنشیات کے چھوٹے بڑے 15ہزار اڈوں سے روزانہ پندرہ کروڑ روپے بیٹ جمع ہوتی ہے۔ شہر میں قبضہ مافیانے ایک سال میں80ارب روپے مالیت کی تقریباً 30ہزار ایکڑسرکاری اراضی پر قبضہ کیا، قبضے کی مد میں ماہانہ 7ارب اور روزانہ تقریباً23کروڑروپے ریونیوسے چرالیے گئے۔ پبلک ٹرانسپورٹ سے ایک کروڑ 48لاکھ روپے روزانہ وصول کیے جاتے ہیں، 25ہزار بسوں،کوچز اور ویگنوں سے یومیہ 2 سو سے 3 سو روپے بھتا وصولی ہوتی ہے۔ 4ہزار چنگچی، 20ہزار آٹو رکشہ اور7ہزار ٹیکسیاں بھی یومیہ 40 روپے فی گاڑی پولیس کو غنڈہ ٹیکس دیتے ہیں۔ مال برداری کے ٹرک،کنٹینرزاور آئل ٹینکرزسے فی کس ایک ہزار سے تین ہزار ہڑپ کیے جاتے ہیں اور اس کا تخمینہ بنتا ہے یومیہ 75لاکھ روپے۔ بجلی کی چوری میں روزانہ ڈیڑھ کروڑروپوں کا جھٹکا لگتا ہے، چار سے پانچ لاکھ کنڈے، فی کنڈا ماہانہ 3ہزار سے 5سو روپے، ماہانہ 45کروڑ اوریومیہ ڈیڑھ کروڑکی بجلی چوری۔ طبی لٹیرے روزانہ 30لاکھ روپے غریب مریضوں سے نچوڑلیتے ہیں روزانہ سرکاری ہسپتالوں میں 20ہزار مریض آتے ہیں، 5سے 20روپے کی پرچی بنواتے ہیں لیکن ان سے دواﺅں اور آلات کی مد میں یومیہ30لاکھ روپے کا ٹیکہ لگادیا جاتاہے۔ کراچی کے شہری روزانہ 40سے50موٹر سائیکلوں اور 20سے 25گاڑیوں سے محروم کردیے جاتے ہیں،رواں برس کے صرف پہلے تین ماہ کے دوران کراچی میں 5,236 موٹرسائیکلیں اور 1,200 کاریں چھینی یا چوری کی گئیں۔ اوسطاً 71 گاڑیاں یا موٹر سائیکلیں روزانہ چھینی یا چوری کی گئیں۔ جو گاڑیا ں بازیاب ہوتی ہیں وہ بھی ڈھانچے کی شکل میں ملتی ہیں، اس مد میں شہری روزانہ تقریباًڈھائی کروڑ روپے گنوابیٹھتے ہیں۔

بات ہو اسٹریٹ کرائم کی تو شاید ایساخوش قسمت کراچی والا اب ڈھونڈناناممکن ہوگیا ہے جوخود یا اس کا قریبی عزیزگن پوائنٹ پر نہ لوٹا گیا ہو،کراچی میں رواں سال کے صرف پہلے تین ماہ کے دوران 5,179 افراد کو ان کے موبائل فونز سے محروم کیاگیاتھا یعنی روزانہ 57 افراد اپنے موبائل فونز سے ہاتھ دھو بیٹھے جن میں 31 افراد کو روزانہ گن پوائنٹ پر اپنے موبائل فونز ڈاکوو ¿ں کے حوالے کرنا پڑے تھے۔ روزانہ سوا سو سے ڈیڑھ سوموبائل فون، ان کے ساتھ نقد رقم، زیورات اور دیگر قیمتی اشیاءچھینے جانے میں شہریوں کو روز 52لاکھ سے زیادہ رقم سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں اور یہ وہ اعدادو شمار ہیں جو رپورٹ ہوتے ہیں۔ شارٹ ٹرم کڈ نے پنگ۔ یعنی جز وقتی اغوا، جس میں شہریو ں کو اغواءکرکے گاڑی میں گھمایا پھرایا جاتا ہے، نقد رقم، اے ٹی ایم اور کریڈٹ کارڈسے ہاتھ صاف کرنے کے بعد فون کرکے گھر سے رقم منگوائی جاتی ہے، شہر کے پوش علاقوں میں روزانہ دس سے پندرہ وارداتیں ہوتی ہیں، جن میں 30لاکھ سے زاید رقم سے شہری ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور اب بات ہوجائے شہر میں پولیس کے نظام کی112تھانے اور 69ٹریفک سیکشن، ایس ایچ او،ہیڈ محرر اور دیگر عملے اور بیٹ سمیت ہی نہیں بلکہ ضلع ایس ایس پی سطح کی تعیناتی پر پانچ سے پچاس لاکھ روپے کے ٹینڈر کھلتے ہیں۔ اس کھیل میں پولیس اہلکار سے اعلیٰ حکام تک کی حصہ پتی ہوتی ہے، ماہانہ اربوں روپے کی اس نیلامی کی جمع تفریق بتاتی ہے، اس مشق سے روزانہ21کروڑ روپے بنائے جاتے ہیں ۔،شہر میں کوئی جرم روکنا ہوتو پولیس غائب لیکن ہر سڑک پر صبح کے وقت ہر چھوٹی بڑی گاڑی سے کم از کم پچاس روپے پولیس ”بھتا“ کی مد میں لیتی ہے۔عوام سے پولیس کی جانب سے لیا جانے والا بھتا الگ رہا۔اس طرح تمام کو ملا کر ایک مہینے کے بنتے ہیں پچیس ارب روپے، جو عوام کی جیب سے زبردستی نکلوائے جاتے ہیں۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633705 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.