اوباما بش کے نقشِ قدم پر ۔ ۔ ۔ ۔

شام پر امریکی حملے کے مضمرات ۔ ۔ ۔ ۔

تحریر:۔محمداحمد ترازی

امریکی صدر بارک اوباما کانگریس کی منظوری سے قبل یہ بات واضح کرچکے تھے کہ اُن کی حکومت شام پر حملے کا فیصلہ کرچکی ہے اور شام کے خلاف فوجی کارروائی کسی بھی وقت شروع ہوسکتی ہے، انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکہ اِس اقدام کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری بھی ضروری نہیں سمجھتا،اُس وقت انہوں نے اپنی حکومت کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا تھا کہ امریکہ کو جنگ کے خطرات کا اندازہ ہے تاہم شام میں 21 اگست کو ہونے والا کیمیائی حملہ انسانیت پر حملے کے مترادف تھا،جس سے خود امریکہ کی قومی سلامتی کو بھی سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں،امریکی صدر کے بیان نے اِس بات کی تصدیق کردی تھی کہ شام پر حملے کا سبب شام کے عوام کو ایک جابر اور مسترد حکومت سے نجات دلانا نہیں بلکہ اسرائیل اور اپنے عالمی سامراجی مفادات کا تحفظ ہے،لیکن عراق اور افغانستان کی جنگ کی جو قیمت امریکا کو داخلی طور پر دینی پڑی ہے،اُس کی وجہ سے امریکی رائے عامہ اور سیاست دانوں کی ایک بڑی تعداد جنگ کے کسی نئے محاذ کو کھولنے کی اجازت دینے کو تیار نہیں ہے،امریکی رائے عامہ کسی بھی صورت میں امریکی سپاہیوں کو کسی نئے محاذ جنگ کا ایندھن بنانے کو تیار نہیں،یہی وجہ ہے کہ امریکی صدر اہداف کو نشانہ بنانے کی بات کررہے ہیں۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں عراق پر حملے کے لئے مہلک ہتھیاروں کا جو جواز تراشا گیا تھا،وہ اقوام متحدہ کے معائنہ کاروں کی رپورٹوں سے واضح ہوگیا تھا کہ اُس کا کوئی ثبوت نہیں ملا ، لیکن اِس کے باوجود بش حکومت نے عراق پر حملہ کیا جس کے نتیجے میں لاکھوں جانوں کا زیاں ہوا اور کم و بیش نصف کروڑ افراد نقل مکانی پر مجبور ہوگئے جبکہ عراق میں بدامنی اور خوں ریزی کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔اُس وقت امریکہ کی اِس کارروائی میں دنیا کے بہت سے ملک اُس کے ساتھ تھے،امریکہ نے صدام حسین کے عراق پر یلغار کرتے وقت بھی یہ وجہ بیان کی تھی کہ عراق کے پاس ہمہ گیر تباہی کے ہتھیار (WMD) موجود ہیں جن کی تلفی ”ہماری ذمہ داری“ ہے،اب اوباما بھی شام پر وہی الزام لگا رہے ہیں کہ اُس نے اپنی ہی آبادی پر کیمیاوی گیس(Sarin) استعمال کی ہے،جس کے نتیجے میں1429 بے گناہ اور معصوم شہری مارے گئے ہیں۔!اِس وقت امریکہ نے اپنے چار تباہ کن ”ڈسٹرائٹر“ طیارہ بردار جہاز شام کی بندرگاہوں کے سامنے لا کر لنگر انداز کر دے ہیں جو شام میں کسی بھی ٹارگٹ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں،سوال یہ ہے کہ اِس امریکی حملے کی صورت میں جو بے گناہ لوگ مارے جائیں گے وہ شام کے گیس اٹیک سے مارے گئے1429 سے کئی گنا زیادہ ہوسکتے ہیں اوراُن کی بے گناہ موت کا ذمہ دار کون ہوگا۔؟یہی سوال روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے اٹھایا ہے کہ امریکہ فوجی کارروائی سے قبل اِس پہلو پر غور کرے کہ آیا اِس عمل سے شام میں تشدد کا خاتمہ ہو جائے گا اور سویلینز کی ہلاکتیں نہیں ہوں گی؟روس پہلے ہی خبردار کر چکا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو نظر انداز کر کے کسی قسم کی یکطرفہ فوجی کارروائی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی ہوگی۔

لیکن اِس کے باوجود شام کے حوالے صدر اوباماجو کچھ کرنے جارہے ہیں،اُس میں اُن کا ساتھ دینے والے بہت کم ہیں،جبکہ اِس اقدام کے مخالف بہت ہیں،روسی صدر نے تو شام پر حملے کی صورت میں امریکہ کے حامی ایک عرب ملک پر حملے کی دھمکی تک دے دی ہے،اگرکسی بھی درجے میں ایسا ہوا تو عالمی اور علاقائی امن کس طرح تہ و بالا ہوگا،اِس کا تصور بھی ہولناک ہے،ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شام میں جمہوریت کے قیام کی تحریک کی حمایت کی جانی چاہیے اوراُسے کامیاب بنانے کے لئے پرامن سفارتی،تجارتی اور اقتصادی اقدامات عمل میں لائے جانے چاہئے تھے،امریکی کانگریس کو چاہیے تھا کہ وہ صدر اوباما کو وہ غلطی دہرانے سے روکے جو امریکہ افغانستان اور عراق پر حملے کی صورت میں کرچکا ہے،مگر افسوس کانگریس نے ایک ایسے وقت میں جبکہ شام کے خلاف صدر اوباباما کا موقف عالمی حمایت سے محروم ہے ، حملے کی اجازت دے کرعالمی امن ہی داؤ پر لگادیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر شام کے خلاف اقدام کی مخالفت کررہے ہیں روس نے تو سلامتی کونسل کی منظوری کے بغیر شام پر فوجی کارروائی کو بین الاقوامی قانون کے تابوت میں آخری کیل قرار دیا ہے،جبکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے موثر ہونے اور اُس کی افادیت پر بھی سوالات اٹھنا شروع ہو گئے ہیں،اَمرواقعہ یہ ہے کہ اِس وقت سلامتی کونسل کے مستقل ارکان میں سے روس اور چین شام کے خلاف فوجی کارروائی کے کھلے مخالف ہیں،یہی وجہ ہے امریکہ سلامتی کونسل میں جانے سے گریز کررہا ہے کہیں ان ممالک کی جانب سے ویٹو کا سامنا نہ کرنا پڑے۔

شام پر حملہ کس درجے کی عاقبت نا اندیشی ہوگی،اِس کا اندازہ برطانوی پارلیمنٹ کے رویے سے بھی لگایا جاسکتا ہے،جس نے اپنی حکومت کو شام پر حملے میں شرکت کی اجازت نہیں دی اور برطانوی پارلیمان نے 75فیصد اکثریت کے ساتھ حکومت کی اِس درخواست کو مسترد کر دیاکہ شام پر حملے میں امریکہ کا ساتھ دیا جائے،اِس شرمناک ناکامی کے باوجود امریکہ نے کیمرون کی پیٹھ تھپکی ہے اور اُسے دِلاسا دیا ہے کہ کوئی بات نہیں، آپ کی حکومت تو ہمارے ساتھ ہے،جبکہ پاکستان سمیت تیسرے دنیا کے بہت سے ممالک کی جانب سے بھی اِس حملے کی مخالفت کی گئی ہے۔دوسری طر ف روسی وزیر خارجہ نے امریکہ کویہ وارننگ بھی دی ہے کہ وہ عراق والی غلطی کا اعادہ نہ کرے وگرنہ اُس کا انجام”نیک“ نہیں ہو گا،نیٹو کے سربراہ آندرے فوگ راسموسن نے بھی دوٹوک الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ شام پر حملے میں نیٹو کا کوئی کردار نہیں ہوگا،فرانس کے صدر فرانسوا اولاند نے کہا ہے کہ وہ شام کے حوالے سے کسی بھی فوجی کارروائی سے قبل اپنے ملک کی پارلیمنٹ کو بھی اعتماد میں لیں گے،فرانس کے وزیر داخلہ مانویل ولاس کا کہنا ہے کہ اُن کا ملک شام کے خلاف اکیلے کوئی کارروائی نہیں کرے گا،اٹلی کے وزیر اعظم اینریکو لیٹا کا کہنا ہے کہ امریکا اور فرانس یقینی طور پر شام پر حملے کا سوچ رہے ہیں،لیکن اُن کا ملک اقوام متحدہ کی منظوری کے بغیر اِس عمل میں شریک نہیں ہو گا،جبکہ ایران کی پارلیمنٹ کی قومی سلامتی کمیٹی کے سربراہ علیم الدین بروجری کے مطابق شام پر حملہ صرف شامی سرحدوں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اُس کے منفی اثرات سارے خطے پر مرتب ہوں گے،مشرق وسطیٰ میں ایک اور امریکی اتحادی ملک اردن کے وزیر اطلاعات محمد مومنی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ تمام سفارتی ذرائع کے استعمال کے بعد ہی امریکا کسی فوجی ایکشن کے آپشن کو استعمال کرے گا،دوسری طرف اردن سمیت بہت سے اسلامی ممالک میں شام پر ممکنہ امریکی حملے کے تناظر میں عوامی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔

قارئین محترم !عالمی رائے عامہ کے تازہ ترین جائزے بھی اِس بات کی علامت ہیں کہ امریکہ سمیت دنیا بھر کی بھاری اکثریت شام پر حملے کی مخالف ہے،اِن حالات میں امریکی حکومت اگر شام کے خلاف یکطرفہ کارروائی کرتی ہے تو اُس کی عالمی تنہائی مزید بڑھ جائے گی،لیکن اس کے باوجود امریکی صدر شام کے خلاف کارروائی کے لئے جتنی عجلت میں نظر آتے ہیں،اُس نے افغانستان اور عراق پر حملے کے حملے کے وقت سابق امریکی صدر جارج بش کی یاد تازہ کردی ہے،جبکہ یہ دونوں کارروائیاں کسی مثبت نتیجے کا سبب نہیں بن سکیں اور اُن کا فیصلہ نہ صرف یہ کہ بہت بڑے پیمانے پر انسانی تباہی کا سبب بنا بلکہ امریکہ کی معیشت کے لئے بھی سخت نقصان دہ ثابت ہوا،اب امریکی افواج ا_ن مقاصد کو حاصل کیے بغیر افغانستان سے واپس جانے کی تیاری کررہی ہے،لیکن ماضی کی اِس شرمناک شکست وہزیمت کے باوجود بھی صدر اوباباما بش کے نقش قدم پر گامزن ہیں اوراپنے پیشرو کے نقش قدم پر چلتے ہوئے شام میں قتل وغارت گری کی نئی تاریخ لکھنے جارہے ہیں۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 313920 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More