مظفر آباد میں’’انٹرا کشمیر ویمن کانفرنس ‘‘کا انعقاد

چندروز قبل اسلام آباد میں ’ اے جے کے ویمن فار پیس آرگنائیزیشن‘‘ کی تقریب منعقد ہوئی جس میں گزشتہ سال مظفر آباد میں ’’ ویمن فار پیس‘‘ کے زیر اہتمام منعقدہ پہلی ’’ انٹرا کشمیر ویمن کانفرنس‘‘ کی رپورٹ جاری کی گئی۔ خواتین کی یہ تقریب منقسم کشمیری خاندانوں کی خواتین کی شرکت کے حوالے سے ایک نمائندہ اجتماع تھا۔رپورٹ کے اجراء کی تقریب سے’ ویمن فار پیس‘ کی صدر مسز نیئر ملک ، سیکرٹری انفارمیشن ڈاکٹر زاہدہ قاسم،مسز ثریا کمال ،مسز تنویر لطیف،مس نجمہ خان،عائشہ شوکت ،مسز رفعت ،دیگر خواتین نے خطاب کیا۔ جرمن این جی او ’’ ایف این ایف‘‘ کے نمائندے بھی تقریب میں شریک ہوئے جس کے تعاون سے پہلی ’’ انٹرا کشمیر ویمن کانفرنس ‘‘ شایان شان طور پر موثر انداز میں منعقد ہو ئی۔ویمن فار پیس کی منتظمین نے انڈین ’’ سینٹر فار ڈائیلاگ اینڈ ری کنسیلیشن‘‘(CDR)کی سوشوبھا برویو کا بھی خٰصوصی طور پر شکریہ ادا کیا جن کی کوشش سے بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر سے خواتین کے وفد کو چکوٹھی کے راستے مظفر آباد جانے کی اجازت بھارتی حکومت سے حاصل ہوئی۔میرے خیال میں انگریزی زبان میں شائع اس رپورٹ کی اردو میں بھی اشاعت سے متنازعہ ریاست کشمیر کی خواتین میں آگاہی اور شعور کے فروغ کے حوالے سے بھی وسیع مدد مل سکتی ہے ۔

’’انٹراکشمیر ویمن کانفرنس مظفر آباد‘‘ میں بھارتی زیر انتظام جموں ؂و کشمیر اور پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر و گلگت بلتستان سے مختلف شعبوں سے منسلک 52 اعلی تعلیم یافتہ خواتین شریک ہوئیں۔ویمن فار پیس کی اس رپورٹ کے مطابق تنازعہ کشمیر سے متعلق اس کانفرنس کے انعقاد سے تنازعہ کے شکار خطے کی خواتین کی مختلف آراء سامنے آئیں اور خواتین کو درپیش بقاء کے مسائل اجاگر ہوئے۔رپورٹ کے مطابق بھارتی زیر انتظام کشمیر کی خواتین نے وہاں کی صورتحال بیان کی۔کانفرنس سے یہ بات بھی سامنے آئی کہ آزاد کشمیر کی خواتین بھارتی مقبوضہ کشمیر کی خواتین کے مصائب ،مشکلات اور انہیں درپیش صورتحال سے پوری طرح آگاہ نہیں ہیں۔آزاد کشمیر سے متعلق منقسم کشمیری خاندانوں کی خواتین ،کنٹرول لائین کے قریب بسنے والی اور مہاجر کیمپوں میں مقیم خواتین کو درپیش مشکلات سامنے آئیں۔کانفرنس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کشمیر میں عوامی سلامتی کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے،فوجی انخلاء عمل میں لاتے ہوئے ایل او سی پر بھی امن قائم کیا جائے اور’ ایل او سی ‘ سے تجارتی و عوامی آمد و رفت ،رابطوں کو فروغ دیا جائے۔کانفرنس کے آ خر میں’’مظفر آباد ڈیکلریشن‘‘ کے نام سے پانچ نکات پر بات کی گئی ہے ،جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ انٹری پرمٹ سسٹم کے طریقہ کار کو سہل بنایا جائے،باشندہ ریاست جموں و کشمیر سرٹیفیکیٹ کے حامل افراد کوسمارٹ کارڈ کے ذریعے ’ایل او سی‘ سے آزادانہ آنے جانے کی اجازت دی جائے،کراسنگ پوائنٹس پہ سہولیات کی فراہمی و بہتر ی بشمول سکینر بالخصوص ٹرک سکینرز کی تنصیب عمل میں لائی جائے۔بہتر مواصلاتی رابطے اور تجارت میں مزید آسانیاں کی جائیں۔آزاد کشمیر میں موجود 1990ء کے مہاجرین کو بھی ’’آنے جانے ‘‘ کی یہ سہولت دی جائے،سینئر سٹیٹ سبجیکٹ کو آزادانہ طور پر اور ہنگامی صورتحال میں فوری طور پر آنے جانے کی اجازت دی جائے۔خواتین کے علاوہ ماہر تعلیم،وکلاء،صحافیوں،طلباء اور تنازعہ کے حل سے متعلق ماہرین کی ’ایل او سی‘ سے آمد و رفت میں اضافہ کیا جائے۔کشمیر میں امن اور خواتین کی آواز بلند کرنے کے لئے ’کراس ایل او سی‘ اشتراک ، انسانی حقو ق کی خلاف ورزیوں کو مخاطب کرنے کے لئے کشمیر کے دونوں طرف منقسم خواتین پر مشتمل ’ٹاسک فورس‘ کا قیام،ماحولیات اور قدرتی آفات کے بچاؤ سے متعلق ’انٹرا کشمیر‘ اعتماد بحالی کے اقدامات، ماحولیات کے تحفظ خصوصاجنگلات اور واٹر منیجمنٹ کے بارے میں مشترکہ ایجنڈے کی ضرورت۔لائین آف کنٹرول سے آٹلری/ماٹرز اور لینڈ مائینز ہٹائی جائیں جو عوام کی آزادانہ نقل وحرکت میں مزاحم ہیں اور اور شہریوں کے جانی نقصان کا موجب ہیں۔بتدریج فوجی انخلاء بشمول سیاچن اور اس کی امن پارک میں تبدیلی۔امن ،انصاف اور تنازعہ سے متعلق عبوری انصاف کے طریقہ کار کی ترویج ،تنازعہ کے متاثرین کو انساف کی فراہمی خصوصا بیوہ اور لاپتہ افراد کی آدھی بیوہ خواتین کے لئے،گھر بار چھوڑنے پر مجبور/مہاجرین اور نوجوانوں کی نو آباد کاری۔انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور ظالمانہ قوانین کا خاتمہ۔تنازعہ کے متاثرین کی شکایات کے لئے سچائی جاننے والے کمیشن کا قیام،بیوہ اور آدھی بیوہ خواتین کے لئے قانونی مدد کی معاونت کی فراہمی،اس مقصد کے لئے سرگرم مقامی،ملکی آرگنائیزیشنز کے ساتھ رابطہ۔پالیسی بنانے کے حوالے سے خواتین کی سرکاری ڈیپارٹمنٹس اور کمیشنز میں تینتیس فیصد نمائندگی اور اس حوالے سے سیاسی جماعتوں کی طرف سے خواتین کو اہمیت دینے کی ضرورت،خواتین کی شمولیت اور خواتین سے متعلق امور کے لئے میڈیا کے متحرک کردار کو نہایت اہم قرار دیا گیا ہے ۔

5 نومبر2012ء کو مظفر آباد میں ہونے والی تین روزہ ’’ انٹرا کشمیرویمن کانفرنس‘‘ میں مقبوضہ جموں و کشمیرکے وفد کی سربراہ پروفیسر نصرت اندرابی پرنسپل( ریٹائرڈ)گورنمنٹ ویمن کالج سرینگرنے کشمیر کی خواتین کی موجودہ صورتحال بیان کرتے ہوئے کہا کہ وادی کشمیر میں خواتین کو غیر موزوں صورتحال کا سامنا ہے اور خواتین پر ایسی ذمہ داریاں عائیدہو گئی ہیں جن سے وہ نا آشنا ہیں۔وہ ایسی صورتحال میں گھری ہوئی ہیں جو ان کی سمجھ سے باہر ہے۔جنس کی بنیاد پر تشدد ،نوجوانوں کی اموات، ملٹرائیزیشن، کرفیو، ہڑتال اور بندوق کے خوف نے انہیں بتدریج بے آسرا کر دیا ہے اور انہیں اپنا کردار ادا کرنے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔انہوں نے دو کشمیری خواتین پروین آہنگر اور زمردہ حبیب کی امن کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم’’ایسوسی ایشن آف پیرنٹس فار ڈس اپئیرڈ پرسنز‘‘(APDP) اور ’’ ایسوسی ایشن آف فیملیز آف کشمیری پریزنرز‘‘ قائم کی لیکن ان کو اپنی پرامن آواز بلند کرنے سے روکا جاتا ہے۔ڈاکٹر ریکھا چوہدری پروفیسر اینڈ ڈین آف پولیٹیکل سائینس جموں یونیورسٹی نے جموں کی خواتین کے حوالے سے بھی بات کی،انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں امن کے فروغ کا عمل سماجی تناظر کو نظر انداز کر کے کامیاب نہیں ہو سکتا،اور سیاسی اختلافات خصوصا غیر منقسم جموں و کشمیر میں،جو کہ ایک کثیر المذہبی،لسانی اور نسلی معاشرہ ہے،جو کہ سیاسی اختلافات ظاہر کرتا ہے۔انہوں نے زور دیا کہ مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق جامع اپروچ اپنانے کی ضرورت ہے اور خواتین سمیت کشمیر کے مختلف حصوں،شعبوں کے لوگوں کے درمیان فروغ امن کی کوششیں ’’ آر پار ‘‘ تیز کی جائیں۔ نگہت شفیع پنڈت ’ہیلپ فاؤنڈیشن ‘ سرینگر ،جو مقبوضہ کشمیر میں تنازعہ سے متاثرین ،خصوصا بیواؤں،آدھی بیوہ خواتین اور یتیم بچوں کے لئے کئی ادارے چلا رہی ہیں۔انہوں نے خواتین کو اعلی عہدوں پر فائز نہ کرنے اور امن عمل میں خواتین کی موثر شمولیت نہ ہونے پر تنقید کی ۔عائشہ سلیم وائس چیئر پرسن کشمیر ویمن کریڈٹ کوآ پریشن سوسائٹی نے خواتین کو درپیش صورتحال کے حوالے سے کہا کہ تنازعہ( تنازعہ کشمیر )سے خواتین شدید مشکلات اور مصائب کا سامنا ہے۔کشمیری خواتین کو تنازعہ میں جنسی تشدد،اپنے گھر کے مردوں کے ہلاک ،لاپتہ ہونے اور گھر کی تباہی سے ناقابل بیان صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔انہوں نے پروین آہنگر کا حوالہ دیا جس نے خواتین کو مزاحمت،سیکورٹی فورسز سے نبرد آزما ہونے پر آمادہ کیا۔ ڈاکٹر یاسمین عشائی ہیڈ پوسٹ گریجویٹ ڈیپارٹمنٹ آف ہیومن ڈویلپمنٹ ،ویمن کالج سرینگرنے کہا کہ کشمیری خواتین کی مقامی یا ملکی سطح پہ کوئی آواز نہیں ہے۔ سرینگر کی ایک ٹیچر و سوشل ورک سے منسلک پرو فیسر قراطلعین نے کہا کہ میں اس بات پہ یقین رکھتی ہوں کہ جہاں بھی حقیقی کوشش ہو گی اس کے نتائج مثبت ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ خواتین کو ’گن‘ اور سیکورٹی فورسز سے بچانے کے لئے امن کی تعمیر کے عمل میں شامل کرنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ کشمیر میں ماورائے آئین ’ ڈریکونیئن‘ قوانین خواتین کے خلاف بھی استعمال کئے جاتے ہیں لہذا کشمیر کے موجودہ ’لیگل فریم ورک‘ میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔انہوں نے مسئلہ کشمیر کو کشمیری لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل کرنے کا مطالبہ کیا۔ڈاکٹر روندرجیت کور اسسٹنٹ پروفیسر ، پولیٹکل سائینس ڈیپارٹمنٹ کشمیر یونیورسٹی سرینگر نے کہا کہ کشمیر میں ’آرمڈ کنفلکٹ‘سے ہر طبقے کے افراد بالخصوص خواتین سیاسی،سماجی اور معاشی طور پر شدید متاثر ہوئے ہیں۔الورا پوری پولیٹیکل سائینس ڈیپارٹمنٹ جموں یونیور سٹی نے کہا کہ ریاست جموں و کشمیر میں مختلف طرح کے لوگ موجود ہیں،انڈین ایڈ منسٹریڈ جموں و کشمیر میں انہیں تمام ریاست کے مستقبل کے بارے میں بات کرنے کے لئے اکٹھے بیٹھنا چاہئے۔انہوں نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے انتٖظار میں ضروری ہے کہ کشمیریوں کو بھی باقی دنیا کی طرح حقوق اور مواقع فراہم کئے جائیں۔انہوں نے تنازعہ کشمیر کے حوالے سے غیر سرکاری تنظیموں کے کردار کی تعریف کی اور اس بات پہ زور دیا کہ تنازعہ سے متعلق امور پر توجہ دینی چاہئے۔ڈاکٹر عفت یاسمین سینئر ایسوسی ایٹ پروفیسر اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کشمیر یونیورسٹی نے دعوی کیا کہ کشمیر نوجوانوں نے کشمیر کے سیاسی فیصلوں کو تبدیل کرنے کے لئے ’’ Voilence‘‘ کو استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس سے سٹیٹ منیجرز کو پائیدار امن قائم کرنے کے اقدامات کا موقع ملا ہے۔ انہوں نے نوجوانوں کی نو آباد کاری کو فروغ دینے کی بات کی۔انہوں نے بتایا کہ کپوارہ،بارہمولہ اور بانڈی پورہ میں 2156اجتماعی قبروں کے بارے میں لاپتہ افراد کے والدین کی تنظیم اور انٹر نیشنل پیپلز ٹریبونل کی تحقیقات کی ریاستی ہیومن رائٹس کمیشن نے توثیق کی ہے۔تدزین جوئیڈن ریٹائرڈ پرنسپل اینڈ ایڈمنسٹریٹر ہائیر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ سرینگر نے کہا کہ تنازعہ کے گزشتہ بیس سال کے دوران جموں و کشمیر میں بہت مصائب دیکھے گئے اور اس کے اثرات عشروں رہیں گے اور مختلف شعبوں پر اس کے برے اثرات نمایاں رہیں گے۔

یورپ امریکہ میں گزشتہ سال سے یہ سوچ تقویت حاصل کر تے نظر آ رہی ہے کہ دیرینہ مسئلہ کشمیر کے سیاسی حل میں غیر معمولی تاخیر کی صورتحال میں کشمیر سے متعلق انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے اور اس سے مسئلے کے حل میں بڑی مدد بھی ملے گی۔ مسئلہ کشمیر ،کشمیر کے تنازعہ سے متعلق یورپئین ممالک کی غیر سرکاری تنظیموں کی سہولت کاری جہاں بنیادی اہمیت کی حامل ہے وہاں تنازعہ کشمیر کے پرامن حل،کشمیریوں کو غیر انسانی ،غیر منصفانہ صورتحال سے محفوظ رکھنے اور کشمیری عوام کی حقیقی آواز کو سامنے لانے کے حوالے سے بھی نہایت اہم ہے۔ اقوام متحدہ کی طرف سے متنازعہ ،تصفیہ طلب اور عارضی طور پر بھارت و پاکستان کے زیر انتظام قرار دی گئی منقسم ریاست جموں و کشمیر کے عوام کے تنازعہ کے حل کے لئے اٹھنے والے ہر مطالبے کو جبر اور سیکورٹی فورسز کے ظالمانہ استعمال سے دبانے اور مسئلہ کشمیر کو سیاسی طریقوں سے حل کرنے کے بجائے مسلح تصادم کی راہ اپنانے سے کشمیریوں کے مصائب ،مشکلات کی صورتحال ایک انسانی المیہ کے طور پر درپیش ہے۔ لائین آف کنٹرول کے ذریعے کشمیر کی زمین اور لوگوں کی غیر فطری تقسیم کی ایک مثال دیوار برلن کی مانند ہے جس دیوار برلن نے ایک ہی خطے اور رشتہ داروں کو ایک دوسرے سے جدا کئے رکھا ۔لیکن جبر کے غیر فطری عوامل ہمیشہ کے لئے لاگو نہیں ہو سکتے،چناچہ دیوار برلن ختم ہو گئی اور دنیا کے اس اہم واقعہ سے بالخصوص کشمیریوں کو یہ پیغام ملا کہ نصاف کے عالمی اصولوں کی بنیاد پر عوام کی طاقت نا انصافی پر مبنی جبری پابندیوں کے خاتمے میں موثر اقدامات کر سکتے ہیں۔ کشمیریوں میں اب یہ سوچ تقویت حاصل کر رہی ہے کہ اب انہیں دوسروں کا مرہون منت ہونے کے بجائے اپنے معاملات خود اپنے ہاتھوں میں لینے ہوں گے۔اس حوالے سے بھی غیر سرکاری تنظیموں کی معاونت بہت اہمیت کی حامل ہے۔بلاشبہ بھارت اور پاکستان کے زیر انتظام ریاست کشمیر کے تصفیہ طلب مستقبل کے حل کے لئے کشمیریوں کو جبری ماحول اور آمد و رفت کی پابندیوں سے آزاد کرنا بنیادی اہمیت کے حامل اقدامات ہیں۔غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے یا ان کی معاونت سے ہونے والے کشمیریوں کے اجلاسوں کے فوری نتائج یہ بھی سامنے آتے ہیں کہ ’’ انٹرا کشمیر ‘‘ عوامی رابطوں کو فروغ ملتا ہے تاہم اس کے دور رس نتائج تنازعہ/ مسئلہ کشمیر کے حل سے متعلق خیالات،صلاحیتوں کو بہتر بنانے ،بہتر انڈر سٹینڈنگ اور اس دیرینہ سنگین مسئلے کے حل کی ضرورت اجاگر کرنے کے حوالے سے بھی نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔

منقسم کشمیر کے حصوں کے درمیان عوامی سطح کے چند رابطوں سے تنازعہ کشمیر اور اس سے متاثرہ کشمیریوں کے حوالے سے غیر سیاسی کشمیری تنظیموں کے قیام کا رجحان بھی دیکھنے میں آ تا ہے۔2004ء نومبر میں پہلی مرتبہ غیر سیاسی تنظیموں کی کوششوں سے آزاد کشمیر سے ایک وفد نے بھارتی زیر انتظام جموں و کشمیر کا دورہ کیا۔اسی موقع پر بھارت کی سابق رکن پارلیمنٹ ،ممتاز سوشل ورکر آنجہانی نرملا دیش پانڈے(جن کی کوشش سے ہی یہ دورہ ممکن ہوا) کی نئی دہلی کی سرکاری رہائش گاہ میں انہی کی تجویز پر آزاد کشمیر کے وفد کے ارکان نے منقسم ریاست جموں و کشمیر کے درمیان رابطے و تعاون کے فروغ کے لئے ’’جموں کشمیر پیپلز فورم‘‘ کا قیام عمل میں لایا ۔ْاسی موقع پر اس مہان خاتون جنہوں نے انسانی خدمت کے کاز کے لئے عمر بھر شادی نہیں کی،آ نجہانی نرملا دیش پانڈے نے کشمیر کے حوالے سے اعلان کیا کہ ’’ گولی نہیں بولی‘‘ ۔ 2007ء اور2011ء میں آزاد کشمیر سے کئی خواتین کو سرینگر اور گلمرگ میں ہونے والی ویمن کانفرنس میں مدعو کیا گیا اور آزاد کشمیر کی ان خواتین نے اپنے وعدے کی تکمیل میں گزشتہ سال ’’ویمن فار پیس آرگنائیزیشن ‘‘ قائم کی اور نہایت سرگرمی سے بھارتی مقبوضہ جموں و کشمیر سے خواتین کے وفد کو مظفر آباد کانفرنس میں مدعو کرنے کی تیاری شروع کر دی۔ بلاشبہ ’’ اے جے کے ویمن فار پیس آرگنائیزیشن‘‘ کی صدر مسز نیئر ملک، ڈاکٹر زاہدہ قاسم اور ان کی دیگر ساتھیوں نے بھارتی مقبوضہ کشمیر سے چکوٹھی کے راستے خواتین کا وفد بلا کر ’’ آسمان سے تارے توڑ کر لانے ‘‘کی طرح کا کام کر دکھا یا ہے، ناممکن دکھائی دینے والے نہایت ہی مشکل کام کو ممکن کر دکھاتے ہوئے اس بات کو درست ثابت کیا ہے کہ ’’ جہاں چاہ ،وہاں راہ‘‘۔میرے خیال میں آزاد کشمیر کی ان خواتین،ویمن فار پیس کا یہ کارنامہ دوسری کشمیری تنظیموں بلکہ تمام کشمیریوں کے لئے مشعل راہ ہے کہ اچھے مقصد کے حصول کے لئے اگر جذبے سچے ہوں کس طرح اپنا راستہ خود بنایا جا سکتا ہے۔کشمیری خواتین کا یہ عزم ایک روشن مثال ہے۔مغربی غیر سرکاری تنظیموں کی طرف سے مسئلہ کشمیر اور اس کے مختلف موضوعات میں دلچسپی خوش آئند ہے۔اس سے یہ اہم ترین بنیادی ضرورت ایک مضبوط مطالبے کی صورت سامنے آتی ہے کہ دیرینہ مسئلہ کشمیر پرامن اور منصفانہ بنیادوں پر حل کیا جائے جس کی وجہ سے نہ صرف منقسم ریاست جموں و کشمیر کے لوگ ناقابل احاطہ مصائب اور مشکلات کا سامنا کرنے پر مجبور ہیں،بلکہ اس سے تمام جنوبی ایشیاء میں ترقی اور خوشحالی کی راہ بھی مسدود ہے ۔
Athar Massood Wani
About the Author: Athar Massood Wani Read More Articles by Athar Massood Wani: 770 Articles with 613026 views ATHAR MASSOOD WANI ,
S/o KH. ABDUL SAMAD WANI

Journalist, Editor, Columnist,writer,Researcher , Programmer, human/public rights & environmental
.. View More