لاہور پولیس کی کمٹمنٹ

کسی بھی ریاست کے مختلف امور کی انجام دہی کیلئے کئی ادارے اوراہلکاراپنا فعال کرداراداکرتے ہیں ۔فوج سرحدوں کی محافظ ہے جبکہ پولیس اہلکار شہریوں کی جان ومال اورجائیداد کی حفاظت کرتے ہیں جبکہ عدلیہ کافرض انصاف کی فراہمی یقینی بنانا ہے۔فوجی دشمن ملک سے جبکہ پولیس اہلکار سماج دشمن عناصر سے لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کرتے ہیں ،فوج کے شہیدوں کونشان حیدرسمیت کئی اعلیٰ اعزازات ملتے ہیں جوا ن کاحق ہے مگرپولیس کے شہیداہلکاروں کوصرف چندلاکھ روپے کے ساتھ ایک اعزازی سندملتی ہے اورپھرشہید کے ورثاکوارباب اقتدارزندگی بھرپلٹ کرنہیں دیکھتے۔ہرانسان خواہ اس کاتعلق کسی بھی ادارے سے ہووہ اپنے خاندان کاکفیل ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کاسہارااوران کی آنکھوں کاتارا ہوتا ہے ۔کوئی انسان اپنے ادارے یاعہدے کی بنیادپرچھوٹایابڑانہیں ہوتابلکہ صرف اس کاکرداراورکام اسے دوسروں سے ممتاز بناتا ہے ۔

دنیا کاکوئی ملک اورکوئی ادارہ کرپشن سے سوفیصد پاک نہیں ۔یوں توہمارے سبھی ادارے کرپشن میں ملوث ہیں مگر''بدسے بدنام برا''کے مصداق پولیس دوسروں کے مقابلے میں زیادہ بدنام ہے ۔پولیس سمیت ہرادارے میں بہتری اوراصلاحات کی ضرورت ہے۔پولیس والے بھی اس معاشرے کاحصہ اورہمارے عزیزواقارب ہیں جس طرح ایل ڈے اے اورواپڈا سمیت دوسرے اداروں کے اہلکاروں کاتعلق بھی اسی معاشرے سے ہے ۔جہاں اینٹی کرپشن آنٹی کرپشن کی صورت اختیار کرجائے وہاں کرپشن کس طرح ختم ہوگی ۔ماتحت عدالتوں کے ریڈرزکی سرعام کرپشن بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ۔پولیس والے تشدد کے حوالے بھی مشہور ہیں توکیا ڈاکٹرز،لائیرز،طلبہ اورسیاسی کارکنان تشدد نہیں کرتے۔جس وقت لوگ ایک ہجوم کی صورت میں اپنے حقوق کی بازیابی یاشہری مسائل کے سدباب کیلئے احتجاجی مظاہرہ کرتے ہیں توکیا اس وقت طاقت اور تشدد کا استعمال نہیں ہوتا ،درحقیقت ہم من حیث القوم تشدد پسند ہوتے جارہے ہیں۔بات بات پرجھگڑنااورمرنے مارنے پراترآناہماری عادت ہوگئی ہے۔اگرایک شہری دوسرے شہری پرتشدد کرے تویہ معمولی بات ہے مگرجس وقت پولیس والے لاٹھی چارج کرتے ہیں تووہ ایشوبن جاتا ہے۔ عوام پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں میں لاٹھی تودیکھتے ہیں مگر لاٹھی چارج کے پیچھے کس حکمران کاحکم تھا اس پرغوراورانتخابات میں اس کامحاسبہ نہیں کرتے۔معاشرے کی بااثرشخصیات پولیس کواپنے سیاسی مقاصداورمفادات کیلئے استعمال کرتی ہیں تاہم اس آڑ میں بعض پولیس آفیسراوراہلکار بھی اپناذاتی فائدہ اٹھاتے اورذاتی دشمنی بھی نبھاتے ہیں۔پولیس ایک ڈسپلن فورس ہونے کی حیثیت سے اپنے ارباب اقتدارواختیار کے احکامات کی پابندہے ۔ارباب اقتداراورمختلف بااثرشخصیات کے دباؤاورسفارش پرپولیس حکام کواپنے ضمیر کی آوازکیخلاف کئی کام کرنے پڑجاتے ہیں ۔بلاشبہ دوسرے ادارو ں کی طرح پولیس میں بھی کرپشن کے وجودسے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔تھانوں میں شریف شہری بہیمانہ تشدد کانشانہ بنتے ہیں جبکہ جرائم پیشہ افرادکو وی آئی پی پروٹوکول دیاجاتا ہے ،ڈاکوؤں اوراشتہاریوں کے ساتھ ساتھ بعض اوقات بیگناہ شہری بھی جعلی پولیس مقابلے میں مارے جاتے ہیں ۔مدعی کی طرف سے جھوٹ کی بنیادپر ایف آئی آر کااندراج کرانے ، چالان میں سقم کی بنیادپرخطرناک ملزم عدالت سے چھوٹ جاتے ہیں مگراس کے باوجود پولیس کی اہمیت اور خدمات سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ ہماری پرسکون نیند کیلئے پولیس حکام اوراہلکار ہرطرح کے موسم میں رات بھر گشت کرتے ہیں ہے،عید سمیت کوئی بھی تہوار ہووہ اپنے اہل خانہ سے دورڈیوٹی پرہوتے ہیں۔اگرپنجاب کادوسرے صوبوں کے ساتھ موازنہ کیا جائے توپنجاب پولیس کی کارکردگی تسلی بخش ہے۔پچھلے کئی برسوں سے شہرقائدؒ میدان جنگ بناہوا ہے جبکہ لاہور میں اس قسم کی صورتحال نہیں ہے ،اس پربلاشبہ لاہورپولیس شاباش کی مستحق ہے ۔

اس کے باوجودتھانہ کلچر کی تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیرہوناابھی باقی ہے ۔ماضی میں بھی کئی بارپولیس کی کارکردگی بہتر بنانے اورعوام کاپولیس پراعتماد بحال کرنے کیلئے مختلف اصلاحات کی گئیں مگر پولیس کے مزاج ،رویے ،روش اورسوچ میں کوئی خاص فرق دیکھنے میں نہیں آیا۔ان دنوں پنجاب پولیس کی قیادت خان بیگ کے ہاتھو ں میں ہے ،وہ ایک متحرک اورفرض شناس پولیس آفیسر کے طورپر جانے جاتے ہیں۔خان بیگ نے مختلف عہدوں پرکام اوربہت عمدگی سے پرفارم کیا ہے وہ اس منصب کیلئے بہترین انتخاب ہیں ۔مگریہ اوصاف حمیدہ خان بیگ کی ذات کامعاملہ ہیں دیکھنا یہ ہے وہ اپنے ادارے میں ایمانداری اورفرض شناسی کوکس طرح فروغ دینے اورکرپشن کاسدباب کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔اگرایک ادارے کے سربراہ کادامن بدعنوانی سے پاک ہومگراس کے ماتحت کرپشن میں ملوث ہوں تواس کی قابلیت اورکمٹمنٹ ایک سوا لیہ نشان بن جاتی ہے۔سی سی پی اولاہورچودھری شفیق کاٹریک ریکارڈ اچھا ہے وہ اس سے پہلے بھی لاہورمیں بااحسن خدمات انجام دے چکے ہیں ۔ وہ اپنے پاس آنیوالے شہریوں اورسائلین کے ساتھ نرمی اورخوش مزاجی سے پیش آتے ہیں جبکہ ڈسپلن برقراررکھنے کیلئے اپنے ماتحت اہلکاروں کے ساتھ ان کارویہ کافی سخت اورپیشہ ورانہ ہوتاہے۔چودھری شفیق اپنے ماتحت آفیسرزاوراہلکاروں کی اچھی کارکردگی پران کی حوصلہ افزائی جبکہ نااہلی پران کی سخت بازپرس بھی کرتے ہیں۔انہوں نے اس سے پہلے بھی لاہور میں اپنی قابلیت کالوہامنوا یاہے ،تاہم اِن دنوں انہیں شہرلاہورمیں امن وامان کے حوالے سے مختلف چیلنجز کاسامنا ہے ۔سی سی پی اولاہورچودھری شفیق بلاشبہ ایک زیرک، پیشہ وراورانتھک آفیسر ہیں ۔ جس طرح قانون کے شکنجے کاڈرانسانوں کو گناہ اورجرم سے بچاتا ہے اس طرح ایک آفیسر کادبدبہ اورپروفیشنل ازم بھی اس کے ماتحت اہلکاروں کواپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران مجرمانہ غفلت ،بدنیتی اوربددیانتی سے روکتا ہے۔ا مید ہے وہ لاہور کے مختلف تھانوں میں اچانک چھاپوں کاسلسلہ جاری رکھیں گے۔سی سی پی او لاہور چودھری شفیق ڈسپلن،ڈیوٹی اورکارکردگی پرکمپرومائز نہیں کرتے۔وہ اپنے ماتحت آفیسرزاوراہلکاروں کی مثالی کارکردگی کیلئے سزاورجزاکے سنہری اصول پرکاربندہیں۔ سی سی پی اولاہورکاقلمدان ملنے کے بعدوہ کئی ایک نئے مگر دوررس تجربات کرر ہے ہیں جس کے کافی مثبت نتائج برآمدہورہے ہیں ۔چودھری شفیق پولیس اورشہریوں کے درمیان اعتماد کافقدان دورکرنے اورعوام کاپولیس پراعتماد بحال کرنے کیلئے کوشاں ہیں اس مقصد کیلئے انہیں معاشرے کے مختلف طبقات کی حمایت حاصل ہے۔چودھری شفیق کافلسفہ ہے کہ پولیس اورعوام کے درمیان حائل دوریاں ختم کرنے سے تلخیاں اوربدگمانیاں بھی دورہوجائیں گی مگرظاہرہے اس کیلئے انہیں کچھ وقت درکار ہے۔شہریوں کوبھی پولیس کے مسائل اورمجبوریوں کوسمجھنا ہوگااورپولیس کوبھی قانون سے تجاوزکرنے سے گریزکرناہوگا۔

لاہورپولیس کے کپتان چودھری شفیق ،ڈی آئی جی آپریشن رائے محمدطاہر کے ساتھ ساتھ مستعداورمنتظم ایس ایس پی ڈاکٹرسلمان سلطان رانا،ذہین ایس پی سی آئی اے عمرورک،انصاف پسندایس پی کینٹ عمرریاض چیمہ،پراعتمادایس پی ماڈل ٹاؤن،طارق عزیز،گریس فل اے ایس پی ڈیفنس عارف شہبازخان،کہنہ مشق ڈی ایس پی شفیق آبادعاطف حیات ،درویش صفت انسان مستحسن شاہ،مستقل مزاج مختارشاہ،ملک اعجاز ،حاجی عباس ،ڈاکٹرمستنصرباجوہ،پرعزم وپرجوش ناصرخان لودھی،بیباک ذوالفقاربٹ،انسانی اقدار کے امین سرفرازشاہ،دبنگ مدثرخان، اپنے ادارے کی وکالت کرنیوالے عاطف معراج خاں، باوفااورباصفاآصف ذوالفقار،باریک بین مختارعلوی،جانبازفاروق افتخار کھارا،باوقارمیاں قدیر،دوراندیش حسین فاروق،نڈرمحمدرضا ،مخلص میاں عبدالحفیظ اورسمارٹ بابراقبال خان کی کمٹمنٹ قابل قدرہے۔پروفیشنل ایس پی کینٹ عمرریاض چیمہ اپنے فرض منصبی کی بجاآوری میں کوئی کمپرومائزاورکسی کادباؤقبول نہیں کرتے ۔عمرریاض چیمہ براہ راست اپنے ماتحت آفیسرزاورایس ایچ اوزکی سرگرمیوں کومانیٹر کرتے ہیں جس سے ان اہلکاروں کی پیشہ ورانہ کارکردگی میں خاصی بہتری آتی ہے۔عمرریاض چیمہ کی معاملہ فہمی سے لاہور کینٹ میں مجرمانہ سرگرمیوں میں نمایاں کمی آئی ہے ۔زیرک ایس پی ماڈل ٹاؤن طارق عزیزبڑے منجھے اور سلجھے ہوئے اندازسے کام کرتے ہیں ۔انہیں پولیس فورس کاوقاراورڈسپلن بیحدعزیز ہے۔طارق عزیز کسی پریشرکوخاطر میں نہیں لاتے،وہ اپنے ایریامیں مجرمانہ سرگرمیوں کی سرکوبی کیلئے محنت کررہے ہیں۔اے ایس پی ڈیفنس عارف شہبازخان نے اپنے کام سے پولیس فورس میں اپنامنفردمقام بنالیا ہے ۔

تھانہ کلچر اورپولیس کامزاج بدلنا ہے تومحض آئی جی ،سی سی پی او کی تبدیلی یاایس ایچ اوزکے تبادلوں سے کچھ نہیں ہوگابلکہ ارباب اقتدارکواپنامائنڈسیٹ بدلنا ہوگا،اس اہم ادارے میں سیاسی مداخلت بندکرناہوگی۔ تھانوں کومجرمانہ سرگرمیوں کی سرکوبی اوراشتہاریوں کی گرفتاری کیلئے ٹاسک دینے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف انہیں اختیارات اورفری ہینڈ بھی دیں اوراپنے ٹیم ممبرز منتخب کرنے کی آزادی بھی دیں ،اگراس کے بعد بھی کوئی آفیسرڈیلیور نہ کرے توپھراس کی بازپرس ضرورہونی چاہئے۔آرگنائزکرائم کیخلاف سی آئی اے کی کارکردگی کوسراہاجاناچاہئے ۔ اگرچودھری شفیق لاہور کے تھانوں میں قابلیت اوراہلیت کی بنیاد پراپنے بااعتماد ایس ایچ اوتعینات کریں گے تو یقیناان کی اچھی اوربری کارکردگی کاکریڈٹ اورڈس کریڈٹ بھی انہیں ملے گااوروہ ارباب اقتدارکوجواب دہ ہوں گے لیکن اگرسفارش اورسیاسی وابستگی کی بنیاد پرایس ایچ اوزکالگایا جاتا رہا توپھر تھانہ کلچر قیامت تک نہیں بدلے گا۔وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف سچے دل اورسنجیدگی سے تھانہ کلچر کوتبدیل کرنے کیلئے کوشاں ہیں مگر ابھی تک انہیں کوئی خاص کامیابی نہیں ملی ۔چودھری شفیق ایک باصلاحیت اوردبنگ پولیس آفیسر ہیں ،انہیں ان کاٹریک ریکارڈاورصادق جذبہ دیکھتے ہوئے سی سی پی اولاہورکا منصب دیا گیا ہے ،اگرانہیں سیاسی مداخلت اوردباؤکومستردکرنے کااختیار دیا جائے تویقینا یہ وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی سوچ کے مطابق ڈیلیورکرنے میں کامیاب ہوں گے ۔ڈی آئی جی آپریشن رائے محمدطاہر بھی ایک متحرک اورمنظم آفیسر ہیں ، اگروہ دباؤاورسفارش کے بغیر اپناکام کریں گے تویقینا ان کی کارکردگی کومزیدسراہاجائے گا۔

وزیراعلیٰ پنجاب، آئی جی پی اورسی سی پی اولاہور کی طرف سے تھانہ کلچر کی تبدیلی کیلئے اٹھائے جانیوالے اقدامات خوش آئندمگر ابھی ناکافی ہیں۔ بیشتر تھانوں کی گاڑیاں'' دھکاسٹارٹ'' ہیں ،آبادی اور جرائم کی شرح دیکھتے ہوئے تھانوں کو ان کی ضرورت کے مطابق گاڑیوں اورڈیزل کی فراہمی یقینی بنائی جائے ۔ تھانوں میں نفری کی کمی اوراہلکاروں کے ڈیوٹی اوقات میں کمی کاایشوابھی حل طلب ہے۔تھانوں میں تعینات ایس ایچ اوزاوردوسرے اہلکاروں کاکوئی ہفتہ وارڈے آف نہیں ہوتااوران سے مسلسل کام لیا جاتا ہے جوکوئی بھی نارمل انسان نہیں کرسکتا۔ایک انسان پر ایک دن میں آٹھ یادس گھنٹوں سے زیادہ کام کابوجھ ڈالنا جائز نہیں ،اس کاانسان کی صحت کے ساتھ ساتھ اس کی کارکردگی پربھی منفی اثرپڑتا ہے۔ اشتہاریوں کی گرفتاری کیلئے دوردرازشہروں میں جانیوالے آفیسرزکوہرقسم کے اخراجات اپنی جیب سے اداکرناپڑتے ہیں اورتھانوں میں تعینات ایس آئی اوراے ایس آئی حضرات کوسٹیشنری بھی مہیانہیں کی جاتی جس سے بدعنوانی کو دروازہ کھلتا ہے ۔ایس ایچ اوآپریشن سمیت تھانے کی پوری نفری کووی آئی پی شخصیات کی حفاظت پرلگاکرعوام کوڈاکوؤں اوررہزنوں کے رحم وکرم پرچھوڑ ناحماقت ہے لہٰذاء وی آئی پی موومنٹ کیلئے پولیس لائنزمیں تعینات آفیسرزاوراہلکاروں سے کام لیا جائے ۔پولیس تھانوں کے ایس ایچ اوزاوراہلکاروی آئی پی ڈیوٹی سے مستثنیٰ قراردیے جائیں ۔وہ اہلکارجوپولیس لائنزکے گنتی منشی کی ملی بھگت سے اپنے گھروں میں بیٹھے بیٹھے تنخواہ وصول کرتے ہیں ان کیخلاف سخت کاروائی کی جائے اورجواہلکارتنخواہوں کی تقسیم کے وقت اہلکاروں کو ریزگاری ادانہیں کرتے اوراس طرح ہرماہ لاکھوں کروڑوں روپے ہڑپ کرتے ہیں ان کامحاسبہ بھی ازبس ضروری ہے۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 126833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.