دمشق کا المیہ اور مسلمان حاکم

بش نامی انسانی ادم خور بھیڑئیے نے نیوورلڈ ارڈ کو مسترد کرنے والے حمیت پرور ممالک شام ایران اور شمالی کوریا کوaxix of evel کا ایواڈ دیا تھا۔ بش کی سیاہ باطنی اور بدنیتی روز روشن کی طرح عیاں تھیں کہ مستقبل میں دونوں مسلم ریاستوں کو ٹھکانے لگانے کی خاطر ان پر خوفناک جنگ مسلط کریگا۔ نائن الیون کے بعد یہود و ہنود نے ملکر افغانستان عراق اور لیبیاپر بارودی تسلط نافذ کردیا۔ عراق کے بعد شام کی باری تھی۔اسرائیل امریکہ کا بغل بچہ اور ناجائز اولاد ہے۔ اہل یہود کے گریٹر اسرائیل پلان کی راہ میں عراق شام اور ایران رخنہ ڈالے ہوئے تھے۔ یہودیوں کو رام کرنے کی خاطر امریکہ اور اتحادی ممالک نے عراق لیبیا اور کابل میں بیس لاکھ سے زائد مسلمانوں کا قتل عام کیا۔ مغربی ایجنسیوں نے پہلے شام میں> ازاد ارمی< کی بنیاد رکھی شام میں باغیوں نے خانہ جنگی کو عروج پر پہنچا دیا۔ فائنل معرکہ اوبامہ جیتنا چاہتے ہیں۔bbc newsکے مطابق صدر اوبامہ شام پر حملے کی خاطر بالکل تیار ہیں۔ صدام کے کیمیائی ہتھیاروں کی فرضی داستانوں کی طرح امریکہ نے بشارالاسد پر کیمیائی ہتھیاروں کا شوشہ چھوڑ رکھا ہے۔ناٹو چیف راسموسین نے شام پر فوجی جارہیت سے انکار کردیا ہے۔ امریکہ کا اجرتی ساتھی برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون ہے جو خود تو شام کی اینٹ سے اینٹ بجادینے کا حامی ہے مگر برطانوی دارلعلوم پارلیمنٹ نے شام پر حملے کی قراردادوں کو مسترد کردیا۔ اس سے قبل یو این او میں روس اور چین نے دمشق پر امریکی قرارداد کو مسترد کردیا تھا۔ ناٹو سمیت امریکی اتحادی مغربی ملکوں میں جنگوں کے خلاف عوامی بیداری زور پکڑ رہی ہے۔ اوبامہ جنگ لڑنے کا تہیہ تو کرچکا ہے مگر ابھی تک امریکی کانگرس نے اس فوجی اپریشن کی منظوری نہیں دی۔اوبامہ نے bbc news hour کے پروگرام میں بتایا کہ بشارالاسد نے دمشق کے نواحی علاقے میں کیمیائی ہتھیار استعمال کئے ہیں۔ اوبامہ نے کہا کہ شام کے خلاف فوجی کاروائی سے کیمیائی ہتھیاروں کو خطرناک ثابت کرنے میں سنگ میل کا کردار ادا کرے گی۔ امریکی پارلیمان کے سپیکر جان بوئز نے صدر اوبامہ کو خط لکھا ہے کہ کیا شام پر امریکی حملہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی تو نہیں۔ سپیکر نے حکم دیا اپ اوبامہ پہلے ایوان نمائندگان میں وضاحت کریں کہ شام پر جنگ مسلط کرنے کا کا کیا جواز ہے؟ برطانوی فارن منسٹر ولیم ہیگ نے اپنا بغض یوں نکالا کہ اگر سلامتی کونسل حملے کی اجازت نہیں دیتی تب بھی دمشق پر فوری حملہ کردیا جائے۔برطانیہ کی پارلیمنٹ میں اس مسئلہ پر ہونے والی ووٹنگ میں صرف 9 فیصد نے شام پر امریکی حملے کی حمایت جبکہ دیگر نے جنگ کے خلاف ووٹ ڈالہ۔ عالمی میڈیا کے مطابق امریکہ چار روز میں کسی بھی وقت شام پر بارود برسا سکتا ہے۔ ویٹی کن کا موقف ہے کہ جنگ کی بجائے ڈائیلاگ کرنے چاہیں۔ ایرانی صدر احمد روحانی نے اپنے ہم منصب ولادی میر پوٹن سے بات کرتے ہوئے یو این او میں فرانس برطانیہ اور امریکہ کی قراداد کو ویٹو کرنے پر روس کا کا شکریہ ادا کیا ۔ دوسری طرف ایرانی چیف اف ارمی سٹاف حسن فیروز ابادی نے کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے شام پر حملے کی کوئی کوشش کی تو وہ جل کر راکھ ہوجائیگا۔امریکہ کا پانچواں بحری بیڑہ خلیج روم میں پہنچ چکاہے جبکہ برطانیہ کے جنگی فائٹرزشامی سرحد سے منسلک ایک ہوائی بیس پر لنگ انداز ہوچکے ہیں۔معروف یورپی دانشور رابرٹ فسک نے لندن سے شائع ہونے والے اخبار indepandent ا میں اپنے حالیہ ارٹیکل >اوبامہ کا نیا اتحادی القاعدہ <میں لکھا ہے کہ شام ترنولہ نہیں ہیں۔رابرٹ فسک رقم کرتے ہیں کہ4 دسمبر1983 کو لبنان میں موجود امریکی فورسز نے وادی بقا میں موجود شامی فورسز کے میزائلز پر حملہ کیا۔ امریکہ کے ایک ایف سکس طیارے کو شامیوں نے شامی سٹریلا میزائل سے مار گرایا جو وادی بقا میں گرگیا پائلٹ مارک لنچ مارا گیا معاون پائلٹ گڈمین کو گرفتار کرکے دمشق جیل میں بند کردیا۔ امریکی سفیر تیکسن کو شام جانا پڑا اور یوں وہ پائلٹ منت سماجت سے رہا ہوا۔اس بار ایک امریکی طیارہ ایف سکس شامیوں کی زد میں اکر سمندر میں ڈوب کر تباہ ہوگیا۔پائلٹ پیراشوٹ پہن کر نیچے سمندر کے وسط میں ا گرا تھا لبنانی ماہی گیروں نے اسکی زندگی بچا لی۔ پینٹگان اور وائٹ ہاوس رعونت سے سمجھتے ہیں کہ شام پر حملہ مختصر ہوگا ہم جائیں گے اور فوری واپس اجائیں گے۔ اوبامہ خوش فہمی کا شکار ہیں مگر ایک طرف ایران اور دوسری طرف حزب اﷲ ہوگی۔ اوبامہ نے فیصلہ تو کرلیا ہے مگر پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ سچ تو یہ ہے کہ اوبامہ نے اگر جنگ کی طرف ایک قدم بھی بڑھایا تو یہ پھر ایک نہ ختم ہونے والانیا سلسلہ شروع ہوجائیگا,.. ۔ جنگ کی گیدڑ بھبکیاں دینے والے صدر اوبامہ کے لئے ارابرٹ فسک کے ارٹیکل میں کئی سبق پوشیدہ ہیں ۔ عراق و کابل کی طرح شام بھی دراندازوں کا قبرستان بنے گا۔
Rauf Amir Papa Beryar
About the Author: Rauf Amir Papa Beryar Read More Articles by Rauf Amir Papa Beryar: 34 Articles with 25479 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.