سزائے موت نہیں تو عدالتیں بندکردیں

آصف زرداری کے بارئے میں مشہور ہے کہ وہ جس کو اپنا دوست بنالیتے ہیں پھراُس پر ہمیشہ مہربا ن رہتے ہیں۔ نواز شریف کے دوسرئے دورمیں آصف زرداری کرپشن کے الزامات کی وجہ سے جیل گئےاور جنرل مشرف کے دور میں رہا ہوئے۔ آصف زرداری نے جیل میں رہتے ہوئے کافی مجرموں سے دوستیاں کیں اور انکی وہ دوستیاں ابھی تک قائم ہیں۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد بھی آصف زرداری نے اپنے جیل کے دوستوں سے تعلق نہ توڑا اور دوہزار آٹھ میں صدربننے کے بعد تو اس دوستی میں وسعت آگی، اب اِن دیکھے مجرم بھی ان کے دوست بن گے، جن میں خاصکرقاتل جو ٹارگیٹ کلر بھی ہیں، دہشت گرد بھی ہیں اور عام قاتل بھی ہیں، یہ ہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے پورئے پانچ سال کے دور میں کسی ایک قاتل کو بھی پھانسی نہیں ہوئی۔ قیدیوں کی فلاح و بہبود کے ادارے ’وائس آف پرزنرز‘ کے سربراہ، ایڈووکیٹ نور عالم کے مطابق، پاکستان کی جیلوں میں اس وقت سزائے موت کے منتظر قیدیوں کی کل تعداد تقریباً 8000 ہے۔ پنجاب میں 6082 موت کی سزا کے قیدی ہیں جن میں 27 عورتیں بھی شامل ہیں، ان موت کے سزا یافتہ قیدیوںمیں سے 4500 نےہائی کورٹ میں، 1300 نے سپریم کورٹ میں جبکہ 40 نے وفاقی شریعت کورٹ میں سزا کے خلاف اپیلیں داخل کی ہوئی ہیں۔ ان ہی میں سے 242 نے صدرکو رحم کی اپیل کی ہوئی ہیں۔ملک بھر میں526 قیدی ایسے ہیں جنھیں پھانسی دینے کا تمام قانونی عمل مکمل ہوچکا ہے۔ ان قیدیوں میں143قیدی سندھ کی جیلوں کے پھانسی گھاٹ میں ہیں، جوقتل، دہشت گردی اور دیگرجرائم میں ملوث تھے۔ ان افراد میں سیاسی جماعتوں اور کالعدم مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے مجرم بھی شامل ہیں۔ 103مجرموں کو دہشت گردی کے الزام میں سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ان مجرموں کو ماتحت عدالتوں سے سزا سنائے جانے کے بعد اعلیٰ عدالتوں نے بھی ان فیصلوں کی توثیق کردی ہے اور صدر نے بھی انکی رحم کی اپیلیں مستردکردی ہیں۔ مگر جیل حکام کے مطابق صدر آصف زرداری کی جانب سے غیر سرکاری ہدایات ہیں کہ اُن کے دور حکومت میں کسی شخص کو پھانسی کی سزا نہیں دی جائیگی۔ آصف زرداری اگر گذشتہ پانچ سال پھانسی کی سزا پر عمل ہونے دیتے تو آج جو قاتل اور دہشت گرد پاکستان میں کھلے عام بغیر کسی خوف کے گھوم رہے ہیں، شاید ایسا نہ ہوتا۔

پاکستان میں سزائے موت ختم ہونے یا نہ ہونے پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور سیاسی و مذہبی نظریات کی حامل جماعتوں میں ایک نئی جنگ چھڑ گئی، بعض حلقے سمجھتے ہیں کہ انسانی حقوق کے نقطہ نظر سے سزائے موت نہیں ہونی چاہیئے جب کہ بعض کی نظر میں اسلام میں سزائے موت کا تصور موجود ہے اس لئے اس کو یکسر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے سابق صدر اور انسانی حقوق کے ایک سرگرم کارکن، ڈاکٹر مہدی حسن کہتے ہیں کہ پاکستان میں فوجداری جرائم سے متعلق قوانین میں خامیوں کی وجہ سے انسانی غلطی کے زیادہ امکانات موجود ہیں، جس کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوجانے کا خطرہ موجود ہے۔ اس لئے ان کے الفاظ میں، پاکستان میں انصاف مہیا کرنے کے کمزور نظام کو سامنے رکھتے ہوئے ملک میں سزائے موت کو ختم کرنا چاہیئے۔پاکستان میں سزائے موت کے حامیوں کا خیال ہے کہ جرائم کو روکنے کے لئے معاشرے میں سزا کا تصور اور خوف کا ہونا ضروری ہے۔ سزائے موت ختم کرنے سے نہ صرف ایسے جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوگا، جن میں پاکستان کے قانون کے تحت سزائے موت دی جا سکتی ہے بلکہ یہ مرنے والوں کے لواحقین کو انصاف فراہم نہ کرنے کے مترادف بھی ہوگا۔ بعض حلقے ملک میں جرائم اور انسداد دہشت گردی کے لیے سزائے موت پرعملدرآمد کوضروری قرار دیتے ہیں۔یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت نے سزائے موت پر عملدرآمد کے حوالے سے عارضی پابندی عائد کر رکھی تھی جسے موجودہ حکومت نے اس کی مدت ختم ہونے پر بحال کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس سلسلے میں اکیس اور بائیس اگست کو دو مجرموں کوکراچی کی جیل میں پھانسی دینے کا اعلان بھی کیا گیا، جبکہ پچیس اگست تک کچھ طالبانی اور لشکرجھنگوی کے دہشت گردوں کو بھی پھانسی دینی تھی۔ ان دہشت گردوں میں عقیل احمد عرف ڈاکٹرعثمان بھی شامل تھا جسں نے 10اکتوبر 2009ء کو دس دہشت گردوں کی قیادت کرتے ہوئے جی ایچ کیو پرحملہ کیا تھا ۔اس سے پہلے کہ ان مجرموں کو پھانسی دی جاتی میڈیا کے زریعے ایک حکومتی ترجمان کا بیان آیا جس میں کہا گیا کہ صدر زرداری نے وزیراعظم نوازشریف کو خط لکھا ہے کہ وہ سیکڑوں مجرموں کی زیرالتوا سزائے موت کے معاملے پر تبادلہ خیال کرنے کے لئے ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ ترجمان کے بقول کیونکہ سزائے موت پرعملدرآمد کی تاریخ قریب آرہی ہے اورصدر مملکت بیرون ملک ہیں وزیراعظم نے وزارت داخلہ کو ہدایت کی ہے کہ صدر اوران کے درمیان ملاقات تک سزائے موت پرعملدرآمد روک دیا جائے۔

طالبان نے 14اگست کوجنوبی وشمالی وزیرستان میں پمفلٹ کے ذریعے دھمکی دی تھی "اگر قیدی ساتھیوں کو پھانسی دی گئی تو یہ حکومت کی طرف سے اعلان جنگ کے مترادف ہوگا" ۔ حکومت کی طرف سے سزائے موت پرعملدرآمد کے اپنے سابقہ اعلان سے انحراف سے لگتا ہے کہ تحریک طالبان کی طرف سے وہ دھمکی کام کرگئی ہے جس میں کہاگیا تھا کہ زیرحراست عسکریت پسندوں کو پھانسی تحریک طالبان کو ن لیگ کی قیادت کے خلاف اعلان جنگ پر مجبور کردے گی۔ پنجابی طالبان کے امیرعصمت اللہ معاویہ نے ایک بیان کہا تھا کہ پھانسی پر عملدرآمد انہیں ن لیگ کے خلاف اعلان جنگ شروع کرنے پر مجبور کردے گا۔ان کی دھمکی کے بعد تحریک طالبان کے ترجمان کی طرف سے بھی ایک بیان جاری کیا گیا کہ اگر 23 اگست کو شیڈول کے مطابق عقیل عرف ڈاکٹر عثمان کو فیصل آباد میں پھانسی دی گئی تو ن لیگ کی دو اہم شخصیات کو نشانہ بنانے کے لئے انتہائی تربیت یافتہ خود کش بمباروں کا ایک اسکوارڈ تیار کرلیا گیا ہے۔ جبکہ حکومتی ترجمان نے اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے تا حکم ثانی ملک میں سزائے موت پر عملدرآمد روک دیا ہے۔

چلیے مان لیتے ہیں کہ اس وقت آصف زرداری کی وجہ سے پھانسی کی سزا پر عملدرآمد نہ ہوسکا، لیکن آٹھ ستمبرزیادہ دور نہیں ہے، کیا نوازشریف آصف زرداری کی رخصتی کے بعد دہشت گردوں اور ٹارگیٹ کلر زکو انکے منطقی انجام یعنی پھانسی کے پھندئے تک پہنچایں گے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ن لیگ کی دو شخصیات وہ خود اور انکے بھائی ہیں مگر اس قسم کی دھمکیوں سے اگر وہ اپنے فیصلے بدلینگے تو پھر ہرطرف سے سنگین مسائل میں گھرے وطن کو مسائل سےنجات دلانے کے بجائے وہ مزید سے مزید تر مصائب ومشکلات میں اُلجھادینگے۔ مسائل میں گھرے عوام اوربنیادی سہولیات کے لئے سسکتے بلکتے لوگوں کی داد رسی کے لئے مہنگائی، بجلی، بے روزگاری اور بدامنی جیسی بدترین صورتحال سے نمٹنے کا حکومت کے پاس ایک ہی طریقہ ہے کہ ملک میں سب سے پہلے امن ہو اور امن قائم کرنے کےلیے امن دشمنوں کو پھانسی دینا اس ملک کی سب سے بڑی خدمت ہوگی۔ اگر نوازشریف جو اٹھارہ کڑوڑ عوام کے وزیراعظم ہیں ایسا نہیں کرسکتے تو ایک اعلان ضرور کریں کہ ہم سزائے موت نہیں دئے سکتے اسلیے عدالتیں بند کی جاتی ہیں۔
Syed Anwer Mahmood
About the Author: Syed Anwer Mahmood Read More Articles by Syed Anwer Mahmood: 477 Articles with 447580 views Syed Anwer Mahmood always interested in History and Politics. Therefore, you will find his most articles on the subject of Politics, and sometimes wri.. View More