راکھی اور ٹوپی کے ذریعہ نریندرمو دی کی شرارت؟

ہندوستان کے ایک صوبہ گجرات کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی کے متعلق ملک کی سیاسی جماعتوں کے لیڈروں کا یہ الزا م کہ وہ ’پھینکو‘، ’ڈھونگی‘ ، ’مکّار‘ اور ڈرامہ باز شخص ہیں۔ہمیں کسی کی بات سے کوئی سروکار نہیں۔لیکن دکھ کی بات یہ ہے کہ مذکورہ وزیر اعلیٰ راکھی اور ٹوپی کے ذریعہ مسلم مرد و خواتین کو بدنام کرنے اور ان کو نیچا دیکھانے کی اعلانیہ شرارت کے اس عمل کی ناجائز طورمیڈیا سے پر تشہیر کی جاتی ہے۔ حالانکہ مسلمانوں کو نریندر مودی کی اصلیت کا علم اُسی وقت ہوگیا تھاجب انہوں نے ایک ٹرین کو نذر آتش کرنے کا ڈرامہ رچا تھا۔اپنے اس سنگین جرم پر پردہ ڈالنے کیلئے اور اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کرنے کیلئے ایک اور سنگین جرم گجرات کے مسلمانوں کے قتل عام کی صورت میں ظہور پذیر ہوتاہے جبکہ یہ دونوں شرارتیں بھاجپا کے فرقہ پرست لیڈروں کی تھی۔جس کو گجرات میں مودی سرکار سے انجام دلوایا گیا۔حیرت کی بات ہے کہ اس وقت نریندر مودی یہ بھول گئے کہ وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ ہیں۔صوبے میں قانون کی بالا دستی اورامن و سلامتی قائم رکھنے کی اہم ذمہ داری ان کی ہے۔انہوں نے2002 میں ایک تانا شاہ کا کردار ادا کرکے فرقہ پرستی ، ظلم و زیادتی ، قتل و غارتگیری، لوٹ مار ی ،پاکٹ ماری ، خون ریزی ، بد ہواسی اور بد کلامی کو اپنا محور بنا لیامودی کی اس ظالمانہ ہٹ دھرمی پر ایک شعر یاد آتا ہے۔
’’ ظلم خود کرنا ، الزام کسی کو دینا۔۔۔یہ نیا نسخہ ہے، بے کار بھی کرسکتا ہے‘‘۔

فی الوقت یہاں بات راکھی اور ٹوپی کے ذریعہ مودی کی شرارت کے عنوان سے ہورہی تھی۔اب ان کی اس شرارت کو بھی بے نقاب کرنا ضروری ہوگیا ہے۔جب گجرات میں ان کی سرکار میں ایک کم سن مسلم خاتون کا فرضی انکاؤنٹر میں قتل کا معاملہ منظر عام پر آیا۔تب ہی سے مسلمانوں نے بھاجپا سے اپنے بچے کچے تمام رشتہ بھی ختم کرلئے تھے اور انہوں نے یہ طے کرلیا تھا۔ کہ جب تک بھاجپا میں لعل کرشن اڈوانی ،نریندر مودی و فرقہ پرست لوگ موجود ہیں۔تب تک بھاجپا مسلمانوں کیلئے قابل قبول نہیں۔چونکہ بھاجپا ایک سیاسی جماعت ہے۔ اس لئے فرقہ پرست ذہنیت کا خاتمہ اب ضروری ہے۔تازہ روش جو نریندر مودی اختیار کئے ہوئے ہیں۔کہ مسلمانوں کو نیچا دیکھا نے کیلئے کوئی نہ کوئی شرارت انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے کرایہ کے لوگوں سے ٹوپی کی بے حرمتی کا ڈرامہ کرایا۔جس کے ذیعہ انہوں نے ایک مسلم مخالف اوچھی سیاسی پبلسٹی کی تھی۔ جس سے وہ یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو وہ کسی بھی صورت میں پسند نہیں کرتے، وہ اور ان کی جماعت صرف ان مسلمانوں کو پسند کرتی ہے۔ جو ہنومان کے داماد ہیں، اردو بولنے سے گریز کرتے ہیں اور اپنے مذہب اسلام سے کافی دور ہیں۔مسلمانوں کے اس بے وقعت کوڑے و کرکٹ کی بھاجپا میں ہی اہمیت ہے۔لیکن گجرات میں ابھی ٹوپی کو ٹھکرانے کی سیاست زدہ شرارت کا ڈرامہ ختم ہی ہوا تھا۔ کہ ایک نیا ڈرامہ ’’راکھی‘‘ کی صورت میں ظہور پذیر ہوا۔یہ بات اظہر من شمش کی طرح عیا ں ہے کہ مذہب اسلام میں غیر اسلامی رسومات کا ادا کرنا حرام کے زمرے میں آتا ہے۔ہمیں یہاں استقبال اورخیرمقدم کرنا پڑے گا۔گجرات کی ان مسلم خواتین کا جب نریندر مودی نے ان خواتین کو ’راکھی ‘ بندھوانے کی دعوت دی۔اس کیلئے ایک دس فٹ لمبی راکھی تیار کرائی۔تو ان مسلم مذہب پرست خواتین نے اس غیر شرعی حرکت کو پایہ حقارت سے ٹھکرادیا۔کیونکہ مسلم خواتین نے اپنی جانب سے کسی کو راکھی باندھنے کی پیش کش بھی نہیں کی ۔پھر مجبور ہوکر نریندرمودی نے دلت فرقہ کی خواتین کو لالچ کے تحت تیار کرایا۔ ان سب کو مسلم لباس پہنایا گیاان کو دس فٹ لمبی راکھی پکڑائی گئی۔جس کو نریندر مودی کی کلائی پر بندھوایا گیا۔اور یہ خبر تشہیر کی گئی کہ یہ کام مسلم خواتین نے ہی انجام دیا ہے۔

بہرحال مودی کی راکھی اور ٹوپی کی اس شرارت سے مسلمان اچھی طرح آشنا ہیں۔ کہ بھاجپا مسلمانوں کے خون سے اپنی پیاس بجھارہی ہے۔ مسجدوں کو شہید کررہی ہے۔وہ اب مسلمانوں کے ووٹوں کی پیاسی بن کر سامنے آرہی ہے۔ تو اس کوخود ہی چلّوبھر پانی میں ڈوب کر مرجانا چاہئے۔اس سے پتہ چلتا ہے کہ بھاجپا میں اخلاقی گراوٹ کا کوئی پیمانہ نہیں اورنا ہی ان کا کوئی معیار ہے۔بھاجپا میں مسلمانوں کے تئیں ہمدری کی کوئی رمق ہے تو اس کو چاہئے کہ اجودھیا میں رام مندر کی اپنی تحریک واپس لے اور اپنے ساتھیوں کو اس سے باز رکھے۔اس جگہ سے اپنی دستبرداری واضع کرے جس جگہ پر اس نے ایک عبادت گاہ کو مسمار کیا تھا و کرایا تھا۔اور وہاں مسلمانوں کو بابری مسجد بنانے کی اعلانیہ اجازت دے اور ساتھ ہی اس عبادت گاہ کو گرانے کی اپنی غلطی تسلیم کرے۔ جس سے پھرمسلمان بھاجپا کی سیاسی اہمیت کو سمجھ سکیں۔اور اپنی وابستگی پر نظر ثانی کرسکیں۔

بہر کیف مسلم خواتین کو ’’ راکھی ‘‘ سے مسنوب کرنا یہ مسلم پرسنل لاء میں کھلی مداخلت ہے۔ یہ نریندر مودی کا ہندوستان کے مسلمانوں کے ساتھ سنگین مذاق اور بے ہودہ شرارت ہے۔جس پر پوری بھاجپا کو مسلمانوں سے ان کے اس جرم کیلئے مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہئے۔ یہ شرارت ، یہ مذاق اب ناقابل قبول ہے۔مذہب اسلام پر یہ حملہ نا قابل برداشت ہے۔ان مسلمانوں کے پاس ایک ہی راستہ ہے کہ وہ سیاسی فرقہ پستوں کو مسترد کرکے ان سے سیاسی انتقام لیں۔کرناٹک کی طرح اس کو شکست فاش دیں۔جس سے ان لوگوں کوبے ہودہ شرارت کرنے کا کوئی بھی موقع ان کے ہاتھ نہ آسکے۔اور ان کی تعداد پارلیمنٹ میں ماضی کی طرح دو سیٹ تک سمٹ کے رہ جائے۔

Ayaz Mehmood
About the Author: Ayaz Mehmood Read More Articles by Ayaz Mehmood: 98 Articles with 73936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.