عِلم کے موتی

امت مسلمہ کی چودہ سو صدیوں سے زیادہ عرصے پر محیط عروج و زوال کی ایک لمبی داستان ہے۔ افلاس اور بے سرو سامانی کے عا لم میں سفر شروع کرنے والی اس امت نے جس قدر تیزی سے ترقی کی منازل طے کیں،دنیا اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ وحشی اور اُجڈ عرب کس طرح قیصر و کسریٰ کے تاج و تخت کے وارث بن گۓ؟ جاہل و گنوار عرب کس طرح دنیا کے تہذیب و تمدُّن کے اِمام بن گۓ؟ کس طرح دنیا ایک قلیل عرصہ میں امن و سلامتی، علم و حکمت اور محبت و الفت کا گہوارہ بن گیٔ؟ مسلمانوں نے ظلمت و جہا لت سے بھری دنیا میں کس طرح مختلف علوم و فنون کی شمعیں روشن کیں ؟

مسلمان جب تک اس سفر میں قرآن مجید سے رہنمائی لیتے رہے،عروج و کمال کی طرف گامزن رہے لیکن جب انہوں نے اس مقدس کتاب کا دامن چھوڑا، ذلت و رسوائی نے انہیں کہیں کا نہ چھوڑا ،کیو نکہ قرآن مجید ہی وہ کتاب ہے جس کے ذریعے اﷲ تعالیٰ بعض قوموں کو عروج سے ہمکنار کرتا ہے اور بعض کو ذلت سے دو چار کرتاہے۔ جو کوئی اس کتابِ ہدایت سے رہنمائی حاصل کرتا ہے وہ دنیا و آخرت میں فلاح و کامرانی کا حقدار ہوتا ہے اور جو کوئی اس سے رو گردان کرتا ہے ذلت و رسوائی اُس کا مقدُر ٹھہرتی ہے۔

اسلام کے دورِ اوّ لین سے ہی مختلف علوم و فنون میں مسلمانوں نے ترقی کے زینے پر چڑھنا شروع کر دیا تھا لیکن جس قدر مسلمانوں کو ترقّّی قرونِ وسطیٰ میں نصیب ہوئی وہ نہایت ہی اطمینان بخش ہے۔ قُرونِ اُولیٰ میں چونکہ مسلمان دنیا کی فتوحات اور اِسلامی اِمارات کے قیام میں مشغول رہے اِس وجہ سے مختلف علوم و فنون کی طرف زیادہ متوجّہ نہ ہو سکے لیکن اس کے با وجود نبی اکرمﷺ کے مبارک عہد ہی میں مسلمانوں کی علم و حکمت کی شمع سے محبت و رغبت کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ نبی اکرم ﷺ پر جب کبھی وحی نازل ہوتی تو [چالیس کے قریب] کاتبینِ وحی قرآنِ مجید کی آیات کو اُن کے نزول کے وقت ہی لکھ لیا کرتے تھے اور بعض صحابہ کرام ؓ نے نبی اکرم ﷺ کی احادیث ِ مبارکہ کے مجموعے بھی تیار کر لئے تھے۔

قرونِ وسطیٰ میں چونکہ مسلمان سیاسی لحا ظ سے ایک بلند مقام پر فائز ہو چکے تھے اور دیگر معاملات و مسائل سے انہیں فراغت حاصل ہو چکی تھی،اس وجہ سے انھوں نے مختلف علوم و فنون میں پوری توجہّ اور انہماک سے کام کیا اور دنیا کے سامنے علم و حکمت کے وہ خزانے لٹا دیئے جو رہتی دنیا تک مسلمانوں کی عظمت کے شاہد اور امین ہیں۔

تفسیر ہو یا حدیث ، فقہ ہو یا طب، تاریخ ہو یا جغرافیہ، طبیعات ہو یا حیاتیات، حساب ہو یا کیمیا، عمرانیات ہو یا سیاسیات الغرض ہر موضوع پر مسلمان علماء حکمت و بصیرت کے چراغ روشن کر کے ظلمت و تا ریکی میں ڈوبی دنیا کو ایک طویل مدّت تک منو ّر کرتے رہے۔

تفسیر کے میدان میں عبداﷲ بن عباس، ابنِ جریر ، علّامہ ز ِ مخسژی اور ابنِ کثیر اور بہت سے دیگر مفسّرین کرام معروف ہوئے ۔ حدیث کے افق پر ائمہ حدیث کی خدمات ہمیشہ یاد ررکھی جائیں گی ۔ اس میدان میں امام بخاری ؒ، امام مسلم ؒ، امام ترمذیؒ، امام ابو داؤدؒ وغیرھم کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ فقہ میں امام ابو حنیفہ [۱۵۰ھ]، امام مالک [۱۷۹ھ]، امام شافعی [۲۰۴ھ] ، اور امام احمد بن حنبل [۲۴۱ھ] وغیرہ آسمانِ علم و حکمت پر متمکّن ہوئے۔ طبّ کے شعبہ میں محمّد بن زکریا الرازی [ولادت ۴۲۰ھ] ، ابن النفیس [ولادت۶۰۷ھ] ، اور بو علی سینا مشہور ہوئے۔ عمرانیات و سیاسیات اور تاریخ میں علّامہ ابنِ خلدون [وفات ۸۰۸ھ] کسی تعارف کے محتاج نہیں ۔ ان کے علاوہ کتاب المغازی کے مصنّف الواقدی ، فتوح البلدان کے مصنّف البلاذری ، ابن جریر الطبری ، ابن کثیر اور ابو ریحان البیرونی وغیرہ اس میدان کے درخشندہ ستارے ہیں ۔ علم الجغرافیہ میں ابن حوقل، یاقوت الحموی، الادریسی اور ابو عبداﷲ محمّد بن احمد البشاری المقدّسی کی تصنیفات سے دنیا آج بھی استفادہ کر رہی ہے ۔ علم الطبیعات میں ابن رشد اورابن سینا معروف اور مشہور ہیں ۔ علم الکلام اور فلسفہ میں اما غزالی [۵۰۵ھ] اور امام ابو الحسن اور علامہ ابن رشد نے نمایاں کارنامے سر انجام دیئے ۔ علم الہندسہ میں ابن الہیثم ، علم الکیمیا میں جابر بن حیان کی خدمات کا اعتراف دنیا آج بھی کرتی ہے۔علم و حکمت میں برّ صغیر کی نامور ہستی شاہ ولی اﷲ دہلوی [۱۱۷۶ھ] کا نام بھی نمایاں ہے۔

الغرض قرُونِ وُسطیٰ میں آسمانِ علم و حکمت پر مسلمانوں کے ہاں بیشمار ستارے چمکتے دکھائی دیتے ہیں جن سے دنیا نے بالعموم اور یورپ نے بالخصوص خوشہ چینی کی۔

مغربی تاریخ دان آج بھی اس بات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ ان کی موجودہ علمی وسائنسی ترقی مسلمان علماء کے مرہونِ منت ہے۔

مسلمان علماء نے علم و حکمت کے موتی نادر تصنیفات کی صورت میں دنیا کے سامنے پیش کئے۔ قاھرہ ، اسکندریہ ، قیروان ، قرطبہ ، بغداد، ثمر قند اور بخارا کے کتب خانے اُس کے لئے بطور ِدلیل پیش کئے جا سکتے ہیں جن میں لاکھوں قیمتی و نادر کتب اور مخطوطات کے مجموعے موجود تھے۔مثل مشہور ہے کہ ــــــــــــــــــــــــــــــــــــ ـ ہر عُروج ر ا زوال؛ ۔ اُمت مسلمہ بھی اس ابَدی اصول کی زد سے نہ بچ سکی اور بامِ عروج تک پہنچنے کے بعد رُو بہ زوال ہونے لگی اور سیاسی زوال کے ساتھ علمی زوال سے بھی دوچار ہو گئی حتیٰ کہ ا پنے آباء اجداد کے علم و حکمت سے لبریز خزانوں کی حفاظت سے بھی عاجز آ گئی۔ اور تاتاریوں نے اسلامی تہذیب و تمدُّن اور علوم و فنون پر یلغار کر کے اُنہیں تاخت و تاراج کر کے رکھ دیا اور بالآخرتاتاری افواج عراق میں دارالخلافہ بغداد میں تلوار کے زور سے داخل ہوئیں اور رعایا کے ساتھ ساتھ خلیفہ مستعصم باﷲ العباسی کو بھی ذبح کر دیا گیااور بغداد کے کتب خانوں میں موجود لاکھوں کتابوں کو دریا ئے دجلہ میں پھینک دیا گیا جن کی سیاہی سے دریا کا پانی سیاہ ہو گیا اور اس فتنے میں صرف عراق میں چوبیس ہزار اہلِ علم افراد مارے گئے اور اہل ِ علم میں سے صرف دو افراد نورالدّین بن الزجاج اور اس کا بھتیجا ہی بچ سکے ۔ [رحلہ ابن بطوطہ ص ۳۷۳]

کہا جاتا ہے کہ بغداد میں آٹھ لاکھ سے زیادہ افراد قتل ہوئے۔ کنو ٔوں، تالابوں ، جھیلوں اور نہروں میں ڈوب کر ہلاک ہونے والوں اور خوف کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد اِس کے علاوہ ہے ۔ مقتولین کی نعشوں کے گلنے سڑنے اور نعشوں سے آلودہ پانی پینے کی وجہ سے وباء پھیل گئی ۔ بدبو کی شدّت سے بچنے کے لیے لوگ کثرت سے پیاز کی بُو سونگھتے تھے او ر ہر طرف مکھیاں ہی مکھیاں منڈلاتی رہتی تھیں جو کسی بھی کھانے پینے کی چیز پر بیٹھ کر اسے خراب کر دیتی تھیں ۔ حَلًہ ، کوفہ اور سَیب (شہرکانام)کے لوگ کھانے پینے کی اشیاء لے کر آتے اور نفیس کتب اور قیمتی گھریلو سامان کے بدلے اہلِ بغداد کے ہاتھ مہنگے داموں فروخت کرتے۔ [کتاب الحوادث ص ۲۵۱]

جولیس سیزر کے حکم سے سات لاکھ کُتُب پر مشتمل اسکندریہ کا عظیم کتب خانہ تباہ و برباد کر دیا گیا۔ اس کی دستبرد سے بچ جانیوالی کتب کو تھیوڈو سیس دوم کے حکم سے نذر ِ آتش کر دیا گیا ۔۱۴۷۸ھ میں قائم ہونے والی سپین کی ایک مذہبی عدالت نے عرَبی علوم پر یہودی علماء کی لکھی ہوئی چھ ہزار کتب کو نذرِ آتش کر دیا گیا ۔قُرطبہ ، اشبیلیہ اور غرناطہ کے عظیم کتب خانوں کو بھی جلا کر راکھ کر دیا گیا۔

طرابلس کی تیس لاکھ کتب پر مشتمل عظیم لائبریری ،جو مسلانوں کی چھ سو سال کی محنت کا نتیجہ تھی،کو آگ لگا دی گئی اور جو کتب مہذب و متمدًن اقوامِ مغرب کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہ گئیں ، وہ انہیں اُٹھا کر اپنے ساتھ یورپ میں لے گئے۔ جو آج بھی یورپ کی مختلف لائبریریوں میں مسلمانوں کی بے حِسی ا ور کم ظرفی پر نوحہ کناں ہیں اور جنہیں دیکھ کرمسلمانوں کے سر مارے شرم کے جھک جاتے ہیں۔ علامہ اقبال نے اسی موقعہ کی مناسبت سے فرمایا تھا:
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
مگر وہ علم کے موتی ، کتابیں اپنے آباء کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سی پارہ

اور اس کے بعد سے امّت ِ مسلمہ مسلسل زوال پزیر ہے اور قعرِ ذلّت میں گرتی جا رہی ہے ۔ سقوطِ بغداد سے لے کر سقوطِ ڈھاکہ تک اور سقوطِ لال قلعہ سے سقوطِ لال مسجد تک اس بدنصیب امّت کی ایک طویل داستان ہے۔ ہر آنے والا دن نا امیدی کے سیاہ بادل کے ساتھ طلوع ہوتا ہے اور ذلّت و رسوائی کی سیّاہ رات کے پردے میں چھپ جاتا ہے۔ قریب قریب روشنی کی کوئی کرن نظر نہیں آتی۔اس ذلّت خواری کا سبب صرف یہی ہے کہ ہم نے اﷲ کے قرآن اورنبی اکرمﷺ کے فرمان سے اپنا ناطہ توڑ لیا ۔ بقول اِقبال:
وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہو کر

اب بھی اگر ہم عظمتِ رفتہ کو پانا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی اصل کی طرف رجوع کرنا ہو گا۔ بقول اقبال:
سبق پڑھ پھر صداقت کا ، عدالت کا ، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

لہٰذ ا اپنے آباء اجدد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے تمام جدیدعلومُ و فنون میں ترقی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور پہلے سے موجود آبا و اجداد کے علمی ورثہ سے استفادہ کے ساتھ اس کی کماحقّہ حفاظت کا انتظا م بھی کرنا چاہئے۔ اس مقصد کے لئے زیادہ سے زیادہ کتب خانوں کا قیا م عمل میں لایا جائے اور پہلے سے موجود کُتُب خانوں کو از سر نو منظّم کرنے کے ساتھ ساتھ اُنہیں بھرپور طریقے سے آبادکیا جائے کیونکہ موجودہ دنیا میں علم کا ہتھیار ہی سب سے زیادہ مفید اور کار گر ثابت ہو سکتا ہے۔
دل مردہ دل نہیں اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امّتوں کے مرَض ِ کُہَن کا چارہ
Akbar Ali Javed
About the Author: Akbar Ali Javed Read More Articles by Akbar Ali Javed: 21 Articles with 54398 views I am proud to be a Muslim... View More