ہمارا ناقص نظامِ تعلیم اور جدید تقاضے

پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور پاکستانی قوم میں وہ تمام صلاحیتیں موجود ہیں جو کسی بھی قوم کو ترقی سے ہمکنار کر سکتی ہے۔ لیکن اس کے لیے سازگار ماحول اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ہنر مند افراد کا ایک بڑا طبقہ بیرونِ ملک مقیم ہے جس کے ذریعے ملک میں کثیر زرِ مبادلہ آ رہا ہے مگر ہماری افرادی قوت سے ہمارا ملک محروم ہو رہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان افراد سے جامع فائدہ اٹھانے کے لیے منصوبہ بندی کی جائے تاکہ قابل افراد اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دے سکیں ۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں کہ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملک میں واپس آئیں اور وطنِ عزیز کے لیے فائدہ مند ثابت ہوں۔ اس حوالے سے سب سے اہم ہمارا نظامِ تعلیم ہے۔ در اصل اگر ہمارا نظامِ تعلیم مؤثر تعلیم اور فنی تعلیم لوگوں کو فراہم کرے تو کوئی شک نہیں کہ ہمارا ملک بہت تیزی سے ترقی کر سکتا ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ ہمارا نظامِ تعلیم کیوں اتنا ناقص اور فرسودہ ہے کہ ہنر مندافراد پیدا کرنے میں ناکام ہے۔ اس کا سیدھا اور سادہ جواب یہ ہے کہ ہم ایک آزاد ملک میں رہنے کے باوجود غلامی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ہمارے نظامِ تعلیم میں اسلام محض ایک مضمون تک محدود ہو گیا ہے ۔ حالانکہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے اور ہر معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ، اور زندگی کے کسی معاملے کو مذہب سے الگ نہیں کرتا لیکن یہاں ہم نے اسلام کو ہی اپنے نظام سے الگ کر دیا ہے۔ ہمارے تعلیمی نظام کے ناقص ہونے کی ایک بڑی وجہ ملک میں طبقاتی نظام اور اس کی کشمکش بھی ہے اتنے سال گزر جانے کے باوجود ہم اپنے تعلیمی نظام کو اس کشمکش سے پاک نہیں کر پائے۔

ہمارے ملک میں دوہرے معیار کی تعلیم دی جاتی ہے۔ یعنی انگلش میڈیم اور اردو میڈیم ملک کے 1973؁ء کے آئین میں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیا گیا ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم شاید اردو کو اس قابل نہیں سمجھتے کہ اس میں تعلیم حاصل کریں۔ حالانکہ قومی زبان میں تعلیم حاصل کرنا تیزی سے ترقی کی ضامن ہے۔ ہمارے سامنے چین کی مثال موجود ہے جس نے انگریزی کی بجائے چینی کو اپنی تعلیمی زبان بنایا اور آج ساری دنیا کے سامنے اس کی ترقی ایک مثال کی طرح ہے ۔ اس طرح اردو جو دنیا کی بڑی اور سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں سے ایک ہے ۔ اس میں تعلیم دینے اور حاصل کرنے میں آخر کیا برائی ہے۔

تعلیم انگریزی میں ہو یا اردو میں ہمارے ناقص تعلیمی نظام کا ایک اور نتیجہ یہ ہے کہ اس کا کوئی مقصد دکھائی نہیں دیتا کیونکہ نہ تو اچھے انسان تیار کر رہا ہے اور نہ ہی ملک میں خاطر خواہ ترقی ہو رہی ہے۔
بے مقصد باتیں ہم تعلیمی نصاب میں بچوں کو پڑھاتے ہیں جو صرف لفظوں تک محدود رہتی ہے اور طالب علموں کی زندگی میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی۔

تعلیم کا یہ نظام اتنا ناقص کیوں ہے ؟ ہمارے ملک میں تعلیم کو اتنی کم اہمیت کیوں حاصل ہے ؟ حالانکہ مہذب ملکوں میں تو تعلیم کو اوّل ترجیح کے طور پر رکھا جاتا ہے۔

عہدِ حاضر میں دنیا کے ہر ملک کی طرح پاکستان کو معاشی اور معاشرتی ترقی کا دارومدار بھی تعلیمی ترقی پر ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تعلیمی نظام میں بہتری کے لیے اقدامات کیے جائیں ۔ بے شک دنیا بدل چکی ہے لہٰذا از سرِ نو نصابِ تعلیم مرتب کر کے بہتر تعلیمی منصوبہ بندی کے ذریعے نئی نسل کو زیورِ تعلیم سے آراستہ کیا جائے تاکہ نئی نسل حصولِ علم سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد صحیح معنوں میں مستقبل کی معمار بن سکے۔
Hira Iqbal
About the Author: Hira Iqbal Read More Articles by Hira Iqbal: 2 Articles with 1711 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.