۱۴ اگست !ہما ری آزادی کا دن

آج 14 اگست ہے تما م پاکستان میں ایک ہی رنگ و ڈیزائن کا پر چم لہرا رہا ہے سبز ہلالی پر چم ! شا ئد آج تمام سیاسی جما عتوں کے دفاتر اور گا ڑیوں پربھی اسی پرچم کو فو قیت دی گئی ہے بھئی آج چودہ اگست جو ہے ہما ری آزادی کا دن !انگر یزوں کی غلامی سے نجات کا دن ،اگر ہم تھوڑی دیر کو تقسیم سے پہلے کے بر صغیر کو دیکھیں کیو ں بنا یا تھا؟ ایک الگ وطن کیا دنیا کے جغرا فیعے پر اس کی ضرورت تھی ؟ تو جواب ہر صورت ہاں میں ہی ملتا ہے ۔1857ء کے غدر کے بعد تو مسلما نوں پر بر صغیر میں عر صہ حیات بہت تنگ ہو گئی تھی مسلمان ہندوں اور انگریزوں کے درمیان پس کر رہ گئے تھے مسلمان روز گار سے لے کر تعلیم تک ہر میدان میں ہندوں سے بہت پیچھے تھے سرسید احمد خان جیسے قا ئدین کی تعمیر کردہ مسلم علیگڑھ یونیورسٹی کے زیر سا یہ مسلمانوں نے شعور کی دنیا میں قدم رکھا یہ وہ زمانہ تھا جب مسلمان ہندوں کی شا طرنہ چالوں کو سمجھنے لگے تھے ہندو پورے ہندستان پر قبضے کے خواب دیکھ رہی تھی لیکن قدرت نے علامہ اقبال کے خواب کو پورا کر نے کاا عزاز بخشا وہ خواب جس میں ایک علیحدہ وطن کا قیام تھا جہاں مسلما نوں کو آزادسی سے اپنی عبادتیں ، تعلیم ،لباس،سماجی رسومات کی ادائیگی کا اختیار حاصل تھا1945.46ء کا زمانہ ہے ۔مسلمانوں کو ایک علیحدہوطن کا قیام صاف نظر آرہا ہے سب مسلم لیگی اس طسلم کے اسیر ہوئے ہیں جا گیردارانہ نظام کی لعنت ،کسانوں اور نادار لوگوں پر جا برانہ تسلط،معاشرے کی ذات برادری،قبیلے اور ذیلی قبیلوں کے درمیان تقسیم در تقسیم، ملکوں اور سرداروں کی بالا دستی ان باتوں کا کو ئی تذکرہ نہ تھا کو ئی سنجیدہ بحث یا رسمی بات چیت کسی کے مابین نہ تھی صرف دنیا کا ایک ہی بڑا مسئلہ نظر آتا تھا ایک ہندو دوسرا گورا حکمراں !سب مطمن تھے کہ یہ مسئلہ حل ہو گیا تو با قی سا رے مسا ئل بھی قا ئد اعظم اور ان کے رفقا ئے کار منٹوں میں حل کر لیں گے ۔ ہر مسلمان خواہ پر چون کی دکان ہو پان فروش یا چا ئے خانہ ہو ایسی تما م جگہیں جہاں مسلما نوں کی اکثریت تھی ایک تصویر ان سب کے ہا ننما یاں نظر آتی تھی سر پر تاج پہنے، سفید گھوڑے پر سوار ،ایک ہاتھ میں تلوار لئے اور گلے میں قر آن کریم کا نسخے لگا ئے یہ جنا ح کی تصویر تھی بر صضیر کے مسلمان انھیں اپنا نجات دھندہ سمجھتے تھے ان کی عزت وا حترام کے آداب والقاب لگ تھے کو ئی غلطی سے بھی ان کے نا م کے ساتھ القاب و آداب استعمال نہ کر تا تو سخت تنبہ کا مستحق ٹہر تا جناح نے بھی اپنے لو گوں کو ما یوس نہیں ا ن کی زندگی کا ایک ہی مقصد تھا اپنی قوم کو آزادی دلا نا وہ اسی کے لئے جدو جہد کرتے رہے ہندوں اور انگر یزوں کے سا منے اپنے مطا لبات کو منوا لینا ایک الگ ملک کا مطا لبہ کو ئی معمولی بات نہ تھی یہ بلکل ایسا ہی ہے کہ آپ گر کسی خا ندانی جا ئیداد کا جا ئز بٹوارہ میں حق لینے کی بات کریں تو ذرا سی دیر میں تما م خونی رشتے غیر اخلا قی درشتگی اور خود غڑ ضیوں، مطلب برا ری کے ساتھ سا منے آئیں گے کہ آپ کاجی چا ہے گا کہ کاش سا ری زندگی جنگل میں گزر جا ئے کسی کی صورت نہ دیکھنی پڑئے اور پھر یہ تو پورے ملک کے تقسیم کی بابت تھی پھر ہندو جو اپنے آپ کو بر صغیر کا والی وارث سمجھتے تھے کیسے اپنی شا طرانہ چا لیں نہ چلتے تما م ہمسائیگی کے اصول ،گرم جوشی اور میل ملاپ رخصت ہو گئی کشید گی نے مزید دشمنی کا روپ دھا ر لیا فسادات پھوٹ پڑے ایک جا ئز علیحدہ وطن کے مطا لبے پر مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم ڈھا ئے گئے ایک طرف مسلمان قوم پہلے ہی سما جی ، اقتصادی اور تعلیمی طور پر پسما ندہ تھی مستقل محرومی نے ان کو کچل کر رکھ دیا تھا ۔،ایک الگ ملک کا مطا لبہ کو ئی معمولی بات نہ تھی یہ انگریزوں کو ہندوستان چھوڑنے کی جلدی تھی انھیں اس بات کی قطعی پروانہ تھی کہ تقسیم منصفا نہ ہو گی یا نہیں ۔لا رڈ وائسرائے نے ہندوستان کی تقسیم میں کئی مسلم علا قے ہندوں کوعنا یت کردیئے پا کستان معرض وجود میں آگیا لیکن جو قیمت انسانی مصا ئب ، کشت و خون اور فر قہ ورانہ م فسا دات کے نتیجے میں تبا دلہ آبادی کی بناء پر ادا کر نی پڑی وہ بے حد و بے حساب تھی لا کھوں افراد بے دردی سے قتل کئے گئے لاکھوں کو اپنا گھر بار ما ل ومتاع چھوڑنا پڑا ہزا روں عو رتیں اغوا کر لی گئی اور ان کی بے حرمتی کی گئی ،آزادی کے کچھ مہینے کے اندر ہی چند سیا ست داں جن میں دور اندیشی نہ تھی اپنی من مانی کر نے لگے پا کستان جو دو قومی نظر یے کی بنیاد پر قا ئم ہوا تھا جس کی رو سے تما م ہندوستا ن مسلمان ایک قوم کے با شندے تھے اور پا کستان سارے مسلما نوں ک وطن تھا سیاسی رہنماوں نے اسے منسوخ کر دیا پنجا بی ، پختون ، بلو چی ،سندھی اور مہا جر الگ الگ قوم بن گئی اور بنگا لیوں کو سرے سے ا کوئی قوم نہ سمجھ کر سا ئڈ پر کر دیا گیا 1971 ء کی جنگ میں ہمارا پا کستان دو حصے میں تقسیم کر دیا گیا ادھر ہم ادھر تم ،مجھے جب بھی 71 ء کا واقعہ یاد آتا ہے تو اس چینی بر تن کی یاد ضرور آتی جسے ایک چینی خا ندان بہت سنبھا ل کر احتیاط سے نسل در نسل اپنے خا ندان کومنتقل کر تا رہتا ہے وہ اس چینی برتن کو اپنے خاندان کے لئے قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں مگر پھر ایک لا ابالی نو جوان اسے توڑ کر حفا ظت کے تردد کو ختم کر دیتا ہے اور فخریہ بزرگ سے کہتاہے کہ اب اس کی حفا ظت کا جو کھم ختم ہوا سکون ہو گیا جواب میں بوڑھے بزرگ کہتے ہے بلکل ٹھیک کہا حفا ظت کا تردد ختم ہوا پشیمانی کا دور شروع ہوا ۔اسی طرح ہم بھی اپنا ایک بازو گنوا کر اور نجا نے کتنے غلط فیصلوں پر پشیما نی سے گزر رہے ہیں مگر ایک بات مسلم ہے کہ ہم پا کستا نی قوم کبھی ما یوس نہیں ہو تے لا کھ پشیمان سہی لیکن آنے والی صبح سے پر امیدی ختم نہیں ہو ئی ہر سال 14اگست کو اسی پر امیدی کے سا ئے ہم اپنا پر چم لہرا تے رہیں گے اپنا جشن آزادی منا تے رہیں گے ۔

Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 148444 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.