بھلا اپنی جنت کو بھی کوئی دور کرتا ہے

تحریر : محمد اسلم لودھی

ایک مرتبہ حضرت موسی علیہ السلام نے رب کائنات سے پوچھا کہ پروردگار جنت میں میرا پڑوسی کون ہوگا اﷲ تعالی نے فرمایا کہ فلاں شہر کا ایک موچی جنت میں تیرا پڑوسی ہوگا ۔ یہ سن کر حضرت موسی علیہ السلام پریشان ہوگئے آپ علیہ السلام نے یہ جاننے کے لیے( کہ کس وجہ سے ایک موچی کو میرا پڑوسی بنایا جارہا ہے ٗ )آپ علیہ السلام اس موچی کے پاس جا پہنچے ۔ آپ علیہ السلام اپنا مقصد بتانے کی بجائے خاموشی سے موچی کے معمولات کو دیکھنے لگے صبح سے شام ہوگئی کوئی قابل ذکر بات دکھائی نہ دی ۔موچی اپنا سامان لپیٹ کر شام ڈھلے گھر کی طرف روانہ ہوگیا تو حضرت موسی علیہ السلام بھی ساتھ چل دیئے ۔موچی نے گھر پہنچ کر پہلے کھانا تیار کیا پھر باری باری بوڑھے والدین کو اپنے ہاتھوں سے کھلایا جب ھانا چکے تو ماں اور باپ دونوں نے ہاتھ اٹھا کر موچی کو دعا دی کہ اﷲ تجھے جنت میں موسی علیہ السلام کا پڑوسی بنائے ۔ یہ دیکھ کر حضرت موسی علیہ السلام بات کی تہہ تک پہنچ گئے کہ اﷲ تعالی نے والدین کی خدمت کے صلے میں اس موچی کو جنت میں میرا پڑوسی بنایا ہے ۔تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ اولاد جب جوان ہوجاتی ہے تو نہ جانے کیوں اسے والدین کی وہ محبت ٗ توجہ اور رہنمائی بھول جاتی ہے جس کے سہارے وہ نہ صرف زمین پر چلنا سیکھتے ہیں بلکہ دنیا میں رہنابھی والدین سے ہی سیکھتے ہیں۔بچپن میں بطور خاص ماں کے بغیر زندگی کا تصور بھی نہیں کیاجاتا کیونکہ ماں سردیوں کی سرد ترین راتوں میں خود گیلے پر سوتی ہے خود بچے کو اپنی جگہ سوکھے بستر پر اس لیے لیٹاتی ہے کہ وہ سردی لگنے سے بیمار نہ ہوجائے اگر چھینک بھی آجائے توساری رات بچے کی خاطر ماں اور باپ آنکھوں میں گزار دیتے ہیں ۔باپ کام کاج سے فارغ ہوکر گھر میں داخل ہوتا ہے تو بچے والہانہ مسکراہٹ سے جب باپ کی ٹانگوں کو تھام لیتے ہیں تو سارے دن کا تھکا ماندہ باپ اپنی تھکن بھول جاتا ہے تو بچہ اس طرح کلکلاریاں مار کر مسکراتا ہے جیسے اسے دنیا بھر کی خوشیاں مل گئی ہوں ۔پھر جب سکول میں پڑھنے کے لیے باپ کی انگلی تھام کر جب گھر سے نکلتا ہے تو ماں واپسی تک گھر کی دہلیز پر نگاہیں جمائے بیٹھتی رہتی ہے تھوڑی سی آہٹ اسے بے چین کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے باپ جہاں بھی ہوتا ہے اس کا دھیان اپنے اس بچے کی جانب ہوتا ہے ۔ اپنی پریشانیوں کو بھول کر انتہائی تنگدستی کے عالم میں بھی بچے کی تمام ضرورتوں کو پورا کرکے ماں باپ خوش ہوتے ہیں پھر جب بچہ ایک جماعت سے دوسری جماعت میں جاتا ہے تو والدین خوشی سے پھولے نہیں سماتے ان کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے خوشی کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے ۔اس لمحے ماں باپ نہ جانے اپنے بچے کے بارے میں کون کون سے خواب دیکھتے ہیں ہر والدین کی آرزو ہوتی ہے کہ ان کا بیٹا بڑا ہوکر سرکاری افسر ٗ ڈاکٹر ٗ انجینئر ٗ پائلٹ بنے ٗ والدین کی قربانیوں ٗ دعاؤں اور رہنمائی سے زمین پر رینگنے والا وہ بچہ جب حقیقت میں پڑھ لکھ کر بڑا افسر بن جاتاہے تو نہ جانے کیوں وہ والدین کی تمام قربانیوں ٗ محبتوں اور چاہتوں کو یکسر بھول جاتا ہے ۔وہ خود کو عقل کل تصور کرکے بات بات پر بوڑھے والدین کی توہین کرنا معمول بنا لیتا ہے ۔ وہ سب کچھ اس لیے کرتا ہے کہ اب اسے اپنے والدین کے سہارے کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ وہ خود کمانے لگتا ہے پیسے پیسے کے لیے پہلے وہ باپ کا محتاج تھا جو بیٹے کی ہر خواہش کو پورا کرنے کی جستجو کرتا تھا بڑھاپے میں پہنچ کر باپ اس کے ہاتھوں کو دیکھنے پر مجبور ہے کہ کب بیٹے کو باپ کی ضرورتوں کا احساس ہوگا ۔ اب ماں اور باپ کی ضرورتوں کا خیال رکھنا تو درکنار اگر خود اپنی زبان سے بھی والدین کچھ مانگ لیتے ہیں تو بیٹا سنی ان سنی کر کے بات کو ٹال دیتا ہے کیونکہ اس لمحے اس کی محبتوں کے تمام دھارے والدین کی بجائے اپنی اولاد کی طرف بہتے ہیں وہ بھول جاتا ہے کہ جتنی محبت وہ اپنی اولاد کو کررہاہے اس سے کہیں زیادہ محبت والدین بھی اس سے کرتے ہیں ۔ والدین کی محبتیں قربانیاں اب اسے یاد نہیں رہتی وہ اپنے اور اپنی اولاد کے بہتر مستقبل کے لیے والدین کو خود پر معاشی بوجھ تصور کرنے لگتا ہے۔ بڑھاپا آتے ہی والدین کو بیماریاں گھیر لیتی ہیں رات رات بھر کھانسنا ٗ چلنے میں سہارا تلاش کرنا ٗ جلدی بھوک لگنا ایک معمول بن جاتا ہے۔لیکن جب وہ ہاتھ اپنی طاقت کھو بیٹھتے ہیں جو بچوں کو پیار سے ہوا میں اچھالتے تھے وہ ٹانگیں اپنی قوت کھو بیٹھتی ہیں جن پر چل کر بچوں کو سکول چھوڑنے جایا کرتے تھے ان آنکھوں سے کم دکھائی دینے لگتا ہے جو بچوں کی واپسی تک دہلیز پر جمی رہتی تھیں اس مشکل وقت میں اگر بیٹے سہارا بن کر بوڑھے ماں باپ کو تھام لیں تو ان کے دکھ ٗ بیماریاں اور مالی پریشانیاں آدھی سے زیادہ کم ہوجاتی ہیں افسوس تو اس بات کا ہے ایک طرف بڑھاپے میں والدین پر بیماریاں اور بڑھاپا یلغار کرتا ہے تو دوسری جانب اولاد کی عدم توجہی اور لاپرواہی زندہ درگور کردیتی ہے ۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے ماں اس وقت بھی روتی تھی جب بچہ روٹی نہیں کھاتا تھا اور ماں اس وقت روتی ہے جب بیٹا کھانے کو روٹی بھی نہیں دیتا۔ حدیث مبارک ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم ﷺ نے منبر پر قدم رکھا تو آپ ﷺ نے بلند آواز میں آمین کہا منبر کی اگلی سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر آمین کہا تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو پھر آمین کہا ۔نماز کے بعد صحابہ کرام کے استفسار پر آپ ﷺ نے فرمایا جب میں نے منبر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لائے اور انہوں نے کہا کہ ہلاک ہوں وہ لوگ جن کی زندگی میں والدین بڑھاپے کو پہنچیں اور وہ ان کی خدمت اور دلجوئی کرکے جنت حاصل نہ کریں ۔ منبر کی دوسری سیڑھی پر قدم رکھا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے کہا ہلاک ہوں وہ لوگ جن کی زندگی میں ماہ رمضان آئے لیکن وہ روزے رکھ کر اور عبادت کرکے جنت حاصل نہ کریں ۔ اسی طرح تیسری مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا کہ ہلاک ہوں وہ لوگ جن کے سامنے آپ ﷺ کا ذکر کیا جائے تو وہ آپ ﷺ پر درود سلام نہ بھیجیں ۔آپ ﷺ نے فرمایا میں تینوں مرتبہ کہا آمین ۔یہ بات بطور خاص ان نافرمان اولاد کے سوچنے کی ہے جو والدین کی قربانیوں اور محبتوں کا صلہ انہیں اولڈ پیپلز ہوم یا کسی خیراتی ادارے میں جمع کروا کے دیتے ہیں۔نبی کریم ﷺ کا ہی فرمان ہے کہ ماں باپ کے سامنے اس طرح کھڑے ہوجاؤ جس طرح بادشاہ کے سامنے ایک غلام ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے ماں کے قدموں تلے جنت ہے اور باپ جنت کا دروازہ ہے کاش ہم اپنی جنت کو گھروں سے نکال کر اولڈ پیپلز ہوم یا عافیت کدہ کی زینت نہ بنائیں اور جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ یہ نہ بھولیں کہ ایک دن ان کے ساتھ بھی ان کی اولاد یہی سلوک کرسکتی ہے ۔عید کی خوشیاں تو ہوتی ہی والدین کے ساتھ ہیں لعنت ہو ایسی نافرمان اولاد پر جو اپنی زندگی کی رنگینوں میں کھو کر والدین کو بھول جاتے ہیں ایسے نافرمانوں کے لیے دنیا میں بھی جہنم ہے اور آخرت بھی جہنم ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 113756 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.