ایجوکیشن ٹرسٹ آپ کی مدد کے منتظر

اﷲ رب العزت نے پہلی وحی ’’اقراء ‘‘نازل فرمائی جس کے معنی پڑھنے کے ہیں،اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان کے لیے پڑھنے کی کتنی اہمیت ہے۔ایک اور جگہ ہ رب باری تعالی قلم کی قسم اٹھاتے ہوئے فرماتے ہیں ’’قسم ہے مجھے قلم کی‘‘ قلم سے ہی انسان اپنی تخیلات کو صفحہ قرطاس پر منتقل کرتا ہے ۔جہاں زبان کے بارے میں ہے کہ جسم کا سب سے کم وزن عضو مگر اس کے کام بہت بڑے ہیں بولنے سے پہلے اگرالفاظ کو تولا نہ جائے تو اس زبان کی وجہ سے وہ وہ کام رونما ہو جاتے ہیں، جس کا خمیازہ انسان کے وہم وگمان سے بھی کئی زیادہ ہوتا ہے ،قلم کا حساب بھی کچھ ایسا ہی ہے اگر اس کا استعمال غلط کیا جائے تو زندگیاں اجڑ جاتیں ہیں، اﷲ رب العزت نے سورت القلم میں قلم کی قسم اٹھا کر انسان کو یہ باور کروایا ہے کہ وہ اس قلم سے ناجائز کام نہ کرے اس کا استعمال حق اور سچ کے لیے کرے۔بات پڑھنے کی ہو رہی تھی اور میرا موضوع بھی تعلیم کی اہمیت اور اس سے محروم غریبوں کے بچوں کے حوالے سے ہے ۔جس کا حکم مجھے میرے سینئر محمد نور الہدیٰ نے دیا جو کہ پی ایف یو سی کے انفارمیشن سیکرٹری ہیں۔رمضان کے بابرکت ماہ میں نے اور بھی بہت سی تحریروں کا وعدہ کیا،لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے میں وہ وعدے تاحال پورے نہیں کر پایا لیکن انشاء اﷲ پوری کوشش کروں گا کہ دوستوں سے کیے گئے تمام وعدے پورے کروں۔

ہمارے ملک میں تعلیم کے حوالے سے غریب بچوں کے ساتھ ناانصافی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے ،پاکستان میں اس وقت 75 لاکھ سے زائد بچے تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں ۔ ان میں سے 70 فیصد بچوں کا تعلق دیہی علاقوں سے ہے جہاں سہولیات اور وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان بچوں کے لیے تعلیم کا حصول مشکل تر ہے جبکہ غربت کا گراف بھی یہاں بہت نیچے ہے جس کی وجہ سے ان علاقوں میں تعلیم کا تصور بھی محال ہے ۔ والدین کم عمری میں ہی بچوں کو تعلیم کی بجائے محنت مزدوری پر لگادیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا رجحان تعلیمی سرگرمیوں کی طرف نہیں رہا تاہم شوق بدستور موجود ہے ۔ امیر طبقے سے تعلق رکھنے والوں کے بچے بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں میں تعلیم کے سلسلے کو جاری رکھے ہوئے ہیں میٹرک کے بعد کم ہی ہوتا ہے کہ بچے پاکستان میں رہ کر اپنی تعلیم کو مکمل کریں بل کہ اسے باہر بجھوانے کی کوشش شروع ہو جاتی ہے۔آج اگر ہم اپنے اردگرد کا جائزہ لیں تو بہت سے خاندان ایسے بھی ملے گے جن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر امعاشرے کا ایک اچھا اور محب وطن شہری بنا سکے اس کے لیے وہ اپنے پیٹ پر پتھر تک باندھ لیتے ہیں لیکن ایک وقت آتا ہے کہ ان کی خواہشات پر غربت حاوی ہو جاتی ہے اور وہ بے بسی کے عالم میں اپنے بچے کو تعلیم کا سلسلہ جاری نہیں رکھوا سکتے۔کوڑے کے ڈھیر میں بیٹھے بچے جب امیروں کے بچوں کو حسرت بھری نگاہوں سے بغل میں بستہ لگائے سکول جاتے ہوئے دیکھتے ہیں تو ان معصوم دلوں میں کیا بیتتی ہو گی ؟؟ کوڑا چنے والے کوڑے کے پھول کیا یہ نہ سوچتے ہوں گی کہ ہمارے والدین ہمیں علی الصبح اٹھا کر کوڑا چنے کیوں بھیج دیتے ہیں وہ ہمیں سکول کیوں نہیں بھیجتے؟؟؟ لیکن ان ننھے اور معصوم ذہنوں کوکون سمجھائے کہ آج کے دور میں سکول جانے کے لیے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔لیکن ہمارے معاشرے میں آج بھی ایسے زندہ دل افراد موجود ہیں جو مایوس نہیں ہوئے انہوں نے ان بچوں کو معاشرے کا مہذب شہری بنانے کا بیڑا اٹھایا رکھاہے۔ انہی میں سے ایک غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ جس کا آغاز 1995 میں ہوا تھا ۔ اس وقت 17 سال کے قلیل عرصے میں ٹرسٹ کے تحت صوبہ پنجاب ، خیبرپختونخواہ اور بلوچستان کے پسماندہ دیہی اضلاع میں مجموعی طور پر 325 سکول قائم ہیں، جہاں 48000 سے زائد طلبہ و طالبات زیرتعلیم ہیں ۔ ان میں پہلے ہی ٹرسٹ 24000 سے زائد یتیم اور مستحق ، وسائل سے محروم بچوں کی تعلیمی کفالت کررہا ہے ۔ اس ضمن میں انہیں فیس معافی کے علاوہ یونیفارم ، کورس کی کتب ، سٹیشنری آئٹمز اور سکالر شپ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ مہیا کررہا ہے ۔ غزالی فاؤنڈیشن کے ترجمان کے مطابق ہمارے بیشتر اداروں ، این جی اوز اور حکومتوں کی توجہ اور وسائل کا رخ زیادہ تر شہروں یا ترقی یافتہ علاقوں کی طرف ہوتا ہے جس کی وجہ سے پسماندہ علاقوں کو ترقی کا موقع نہیں مل رہا اور نہ ہی وہاں کے بچوں کو تعلیم کا بنیادی حق مل رہا ہے ۔ ان حالات میں غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ نے اپنے وسائل کا رخ پسماندہ علاقوں کی جانب موڑا ہے تاکہ وہاں کے بچے بھی اپنا حق حاصل کرسکیں اور اندھیروں سے نکل کر روشنی کی جانب سفر کرسکیں اور ہمارے دیہی مگر کم ترقی یافتہ علاقے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکیں ۔ ایسا ہوگا تو ہی وہاں کے عوام کے معیار زندگی میں بہتری آئے گی- ٹرسٹ صاحبِ حیثیت افراد کی جانب سے دی جانے والی زکوۃ و صدقات اور عطیات کے شفاف استعمال کے ذریعے ان بچوں کی تعلیمی سرپرستی کررہا ہے ۔ ہم عوام الناس سے اپیل کرتے ہیں کہ وسائل سے محروم بچوں کی تعلیمی کفالت کی اس جدوجہد میں ہمارا ساتھ دیں۔

بسیرا فاؤنڈیشن جو کہ راولپنڈی اور اسلام آباد کے بچوں کو تعلیم کے روشنی سے روشناس کروانے کے لیے طویل عرصے سے سرگرم عمل ہے ان کا فوکس وہ بچے ہیں جو کہ کوڑا چنتے ہیں اور سکول جانے کا شوق بھی رکھتے ہیں۔فضل بسیرا جو اس فاؤنڈیشن کو چلا رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہمارے ہاں جو بچے لائے جاتے ہیں ان پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ دوسرے سکولوں سے مقابلہ جات میں ہمارے بچے ہمیشہ بازی لے جاتے ہیں ۔ان کا ادراہ بھی مخیرحضرات کے تعاون سے چل رہا ہے وہ بھی رمضان کے ماہ میں زکوۃ ،صدقات کے حق دار ہیں ان کے ساتھ بھی تعاون کی اپیل ہے۔

قارئین کرام رمضان کا تیسرا عشرہ اپنے اختتام کے جانب گامزن ہیں اس ماہ میں مسلمان زیادہ سے زیادہ رحمتیں سمیٹنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس لیے کوشش کیجیے کہ اپنے اردگرد جو افراد انسانیت کی خدمت کے لیے ایسی این جی اوز چلا رہے ہیں ان کے ساتھ مکمل تعاون کرے تاکہ وہ اس سلسلے کو جاری رکھ سکیں اس ماہ میں مسلمان زیادہ سے زیادہ اﷲ کی راہ میں خرچ کرتاہے کوشش کریں کہ آپ کا خرچ کیا ہوا مال مستحق افراد تک پہنچ پائے۔ اور زکوۃ و صدقات کے ذریعے ایسے بچوں کی تعلیمی سرپرستی کریں ۔
Umer Abdur Rehman Janjua
About the Author: Umer Abdur Rehman Janjua Read More Articles by Umer Abdur Rehman Janjua: 49 Articles with 51073 views I am Freelance Writer and Journalist of Pakistan .. View More