پاکستانی جامعات:ادبی تحقیق اور علم کے فرعون

ڈاکٹر عبدالکریم،استاد شعبہ اردو،انوار شریف کالج،مظفرآباد

ابا تین دن موت و حیا ت کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد ۱۴ اگست ۲۰۰۸ء کو صبح دس بجے وفات پاگئے۔موت تو ہوتی ہی ناگہانی ہے لیکن ابا کی موت اس لیے ناگہانی تھی کہ وہ ایک محنتی انسان تھے اور ان کا عارضہ قلب میں مبتلا ہو کر دنیا سے رخصت ہونا ہم سب کے لیے ناگہانی تھا۔میرا ان سے وعدہ تھا کہ پی ایچ ڈی ضرور کروں گا۔اس لیے اگست کے مہینے ہی میں اسلامی یونی ورسٹی میں داخلہ لیا۔ستمبر ۲۰۰۸ء سے اگست ۲۰۰۹ء کا سال میرے لیے ایک طویل،کٹھن اور تھکا دینے والا سال تھا۔اس پورے سال میں میں نے افغانستان اور کشمیر کے جہادی برسوں کو چھوڑکر سب سے زیادہ سفر کیے۔مظفرآباد،گڑھی دوپٹہ اور اسلام آباد کے درمیان سفر کرتے کرتے ایک سال گزر گیا۔کبھی کالج کے مسائل اور کبھی گھر کے، کہ بیگم کو میرا ایم فل اور پی ایچ ڈی کرنا کبھی ایک آنکھ نہیں بھایا۔سب سے زیادہ مسائل جامعہ کے تھے۔شعبہ اردو نیا کھلا تھا اور فکری تطہیر کا عمل جاری تھا۔جنرل پرویز مشرف کی روشن خیالی اور جامعہ کی روایتی بنیاد پرستی کے درمیان رسہ کشی جاری تھی اور اسی کی ایک کڑی پروفیسر فتح محمد ملک تھے جن کو زرداری سرکار نے ریکٹر بنا کر بھیجا تھا۔شعبہ اردو سے اساتذہ کونکالنے کا کام تیزی سے جاری تھا اور کچھ خوب صورت اور ہوشیار چہروں کا اضافہ ہو چکا تھا۔میرے کلاس فیلوز میں کوٹلی سے اکرم چودہری اور ساہیوال سے ضیاء گجر شامل تھے جبکہ شعبہ اردو کی ایک استاد حمیرا اشفاق بھی شامل ہو چکی تھیں۔اس کے علاوہ کچھ خواتین و حاضرات ہم سے سینئر تھے جو سیمسٹر کی وجہ سے ہمارے ساتھ تھے۔اس سفر میں کئی گھائل ہوئے اور داغ جدائی دے گئے۔جامعہ میں اردو شجر ممنوعہ تھی ،ہے اور رہے گی۔اس کے لیے ملک صاحب کی روشن خیالی کچھ نہ کر سکی۔

اس سال کے دوران ہم کئی اساتذہ کا تختہ مشق بنتے رہے اور دوسرے سمسٹر میں جامعہ نے ہمارے دو کلاس فیلوز کو کمال مہربانی کرتے ہوئے فارغ کردیا کہ آپ کی ایم فل میں فرسٹ ڈویژن نہیں تھی۔اس صدمہ کی وجہ سے اکرم چودہری کو برین ہیمرج ہوا اور وہ اب تک زیر علاج ہیں۔ضیاء گجر نفسیاتی مسائل کا شکار ہوئے۔پورا سال وہ دور دراز کا سفر طے کرکے آتے۔کبھی ہاسٹل میں رہتے اور کبھی اپنے کسی عزیز کے ہاں۔ہم تینوں نے پورا سال بہت سفر کیے اور بہت کتب خانے چھانے لیکن اس پورے سال کا خرچا،ہاسٹل کے اخراجات،طویل سفری اخراجات،جامعہ کی فیسیں،تحقیقی اخراجات:اس سب پر ہزاروں کا خرچ کون ادا کرے گا۔اس سب کے باوجود دونوں نے مزید ہزاروں خرچ کیے اور اپنا کیس عدالت میں لے گئے۔ان کے حق میں فیصلہ ہوا لیکن جامعہ نے اپنے قوانین کا بہانہ بنا کر فیصلے پر عملدرآمد نہ کیا۔جو ذہنی اور جسمانی اذیت ان سکالرز کو پہنچی اور جو لاکھوں روپے ان کے خرچ ہوئے،قصورواروں کا تعین کون کرے گا۔اس سارے قضیے کے ذمہ دار ملک صاحب تھے۔وہ ریکٹر تھے،ہمارے استاد تھے۔جو ان کے منظور نظر تھے،ان کی تو انھوں نے خوب مدد کی۔پی ایچ ڈی تک کروا نے میں مدد دی،سیمی نارز میں بھیجا جاتا،دعوتیں کی جاتیں اور لمبی سیریں بھی کروائی جاتیں۔ویسے باذوق آدمی تھے۔ہرسوال کا جواب تھا’ہوجائے گا،کر لیں گے‘۔اس طرح خزاں ۲۰۰۸ء کے داخلوں میں سے میں ہی اکیلا کشمیری رہ گیا۔دوسرے سمسٹر میں جامعہ نے ڈیڑھ درجن سکالرز کو داخلے دیے اور پھر ان کے داخلے منسوخ بھی کردیے اورپھر ان سب کو فیسوں کے لیے خوار کیا کہ آپ سب کی ایم فل میں فرسٹ ڈویژن نہیں۔کیا بات ہے جامعہ کی۔دوسرے سمسٹر کے دوران ہی پروفیسرڈاکٹر معین الدین عقیل ڈین اور سربراہ شعبہ اردو بن کر آئے۔کورس ورک کی تکمیل کے ساتھ ہی ہمارا ایک جامع نوعیت کا پیپر لیا گیا۔تحقیقی خاکوں کی تیاری کا کام شروع تھا۔عقیل صاحب لغات پر کام کی حوصلہ افزائی کررہے تھے۔میرا اپنا مزاج بھی بیٹھ کر کرنے والے موضوع کا تھا اور یہ کام میرے مزاج کے مطابق تھا۔

میں نے پریم چند کی جملہ تحریروں کی فرہنگ کی تیاری کا خاکہ تیار کیا جسے مناسب کانٹ چھانٹ کے بعد بورڈآف سٹڈیز اینڈ ریسرچ نے منظور کر لیا۔عقیل صاحب کو ہی میں نے اپنا نگران چنا۔اس منظوری کے بعد میں نے دو سال میں اپنا کام مکمل کر لیا۔اسی دوران عقیل صاحب مدت ملازمت پوری ہونے کی وجہ سے کراچی واپس چلے گئے۔ان کے ساتھ اچھا وقت گزرا اور وہ ایک اچھے محقق تھے۔ان کا رویہ بھی تحقیقی ہوتا تھا اور ان کے پاس بیٹھ کر محقق سیکھتا تھا۔بہرحال ای میل اور فون پر ان سے رابطہ اور رہنمائی جاری رہی۔اگرچہ ان کے جانے کے بعد شعبے کے سمجھدار اساتذہ نے مشورہ دیا کہ نگران تبدیل کرلیں ورنہ بھگتیں گے۔ہم نے نہ مانا۔عقیل صاحب کے جانشین کے طور پر پروفیسر ڈاکٹر رشید امجد آئے۔انھوں نے پہلی ملاقات میں ہی مایوس کیا۔جب میں نے اپنا اور تحقیقی کام کا تعارف پیش کیا تو فرمانے لگے’اے وی کوئی پی ایچ ڈی دا ٹاپک اے۔عقیل صاحب نوں جاڑیں لغات دا کی پنگا سی‘۔بڑی مایوسی ہوئی۔۱۹جولائی ۲۰۱۱ء کو مقالہ جملہ لوازمات (مقالہ فیس،۴ سی ڈیز،جی آر ای کا نتیجہ،مقالے کی چار کا پیاں،بیان حلفی وغیرہ)کے ساتھ شعبہ اردو کے حوالے کر دیا۔رمضان کے دوران ایک دن فون کیا تو معلوم ہوا کہ آپ کا وقت ستمبر ۲۰۱۱ء تک کا ہے اس لیے روزے رکھیں،عید کریں اور کھائیں پئیں۔صبر کرکے بیٹھ گئے۔عید کے بعد بتایا گیا کہ آپ کا جامع پیپر نہیں مل رہا اس لیے آ کر پیپر دیں۔میں نے اور حمیرا نے دوبارہ پیپر دیا کہ گردن ہم دو کی ہی پھنسی ہوئی تھی۔باقی کسی نے مقالہ جمع کروانے کی گستاخی نہیں کی تھی۔ہم نے جون ۲۰۰۹ء میں جامع پیپر دیا تھا اور اس کا نوٹی فی کیشن ۲۸نومبر ۲۰۱۲ء کو کیا گیا۔اس دوران اکتوبر اور نومبر کے مہینے گزر گئے۔دسمبر میں نوٹی فیکیشن کے بعد مقالہ پڑتال کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا۔میرے دونوں ممتحن ہندوستانی تھے۔پروفیسر قاضی افضال حسین اور پروفیسر شمیم حنفی۔شمیم حنفی نے ایک ماہ کے اندر ہی رپورٹ ارسال کر دی۔ان کا کہنا تھا کہIn an overall assessment I must admit that this thesis has impressed me academically and I am inclined to recommend it for the award of a phd degree. ۔لیکن دلی ہنوز دور است۔

دوسری رپورٹ کا دور دور تک کوئی نشان نہیں تھا حالانکہ قاضی صاحب رشید امجد صاحب کے دوستوں میں سے تھے اور ان کو مقالہ بھی اسی دوستی کی بنیاد پر ارسال کیا گیا تھا۔جنوری،فروری،مارچ اور اپریل گزر گئے اور میں سولی پر لٹکا رہا۔شعبے کے اندر سب اینٹی عقیل بیٹھے تھے(جانے کیوں)۔کس سے کہتا۔اس دوران جامعہ نے کمال احسان کرتے ہوئے قاضی صاحب کویاددہانی کروائی،کوئی جواب نہیں۔پھر دوسری اور پھر آخری۔جواب نہ آیا۔ممتحن تبدیل کیا گیا اور اس بار قرعہ جاپان کے نام نکلا اور ایک ہی ہفتے میں رپورٹ آگئی(وہ کوئی ہندوستانی یا پاکستانی تو نہیں کہ مہینوں لگا دیتے)۔اس دوران حمیرا اشفاق کی بیرونی دونوں رپورٹس آنے کے بعد ملک کے اندر سے بھی دونوں رپورٹس آ چکی تھیں اور دفاع بھی جامعہ نے کروا لیا۔ہم بھی اس بارات میں شامل تھے۔بڑے خوش گوار ماحول میں سب کچھ ہوا کہ سکالراور بیرونی ممتحنین سب ملتان کے تھے۔حمیرا کو پی ایچ ڈی کی ڈگری عطا کر دی گئی۔ہمارا انتظار ابھی ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ملک کے اندر رپورٹس کے لیے پروفیسر ڈاکٹر فخرالحق نوری اور پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر کو مقالہ ارسال کیا گیا۔نوری نے دو ماہ اور ساحر نے چار ماہ لگا دیے۔۲۰۱۲ء کا سال ختم ہوگیا۔

میرے اندرونی ممتحن پروفیسر ڈاکٹر طیب منیر تھے۔اس دوران جب بھی شعبہ اردو جانا ہوتا تو موصوف کی جلی کٹی سننا پڑتیں۔یہ کوئی مقالہ ہے۔آپ نے نگران سے یہ خط کب لیا تھا۔کیا یہ کام اپنے نگران کو چیک کروایا تھا۔لیکن موصوف کچھ لکھ کر نہیں دیتے تھے کہ مقالے میں کیا کیا کمیاں ہیں۔طیب منیر نے نگران کے نئے خط کی مانگ کر دی۔مجبور ہو کر عقیل صاحب کو فون کیااور ساری صورت حال گوش گزار کی۔انھوں نے خط ارسال کرنے کی حامی بھر لی اور دو دن بعد ہی نیا خط آ گیا۔دونوں خطوط کے درمیان فرق آپ ہی سمجھیں،مجھے تو یہ سب طیب منیر کا پنگا ہی لگا۔پہلا خط:’جناب عبدالکریم نے اپنا تحقیقی مقالہ بعنوان ’فرہنگ کلیات منشی پریم چند‘برائے پی ایچ ڈی اردو میری نگرانی میں مکمل کیا ہے۔میں تصدیق کرتا ہوں کہ اس موضوع پر کہیں اور اس طرح کا کام نہیں ہوا اور یہ سرقے سے پاک ہے‘۔دوسرا خط: ’جناب عبدالکریم نے اپنا تحقیقی و تنقیدی مقالہ برائے پی ایچ ڈی اردو بعنوان’فرہنگ کلیات منشی پریم چند‘میری نگرانی میں مکمل کیا ہے۔یہ مقالہ تحقیقی و تنقیدی حوالے سے پی ایچ ڈی کے معیار کے مطابق ہے۔میں سفارش کرتا ہوں کہ یہ مقالہ جانچ کے لیے ممتحنین کو بھجوا دیا جائے‘۔بابا جی رشید امجد کے بعد پروفیسر ڈاکٹر نجیب جمال ڈین بن کر آئے،گئے اور پھر آئے۔ان سے ملاقات کی اور تمام مسائل و معاملات سے ان کو آگاہ کیا۔موصوف نے بڑی ہمدردی جتائی اور کہا کہ اندرونی ممتحن کا دفاع سے کیا لینا دینا۔آپ کا دفاع کرواتے ہیں۔دوسری بار طیب منیر کے کمرے میں ملا۔اس بار موصوف کی ٹون بدلی ہوئی تھی۔فرمانے لگے کہ جو یہ کہتے ہیں،وہ کر دیں۔عرض کی جناب کر دیتا ہوں لیکن دفاع کے لیے تو کوئی کارروائی شروع کریں۔پہلی بار طیب منیر نے اعتراضات لکھ کر دیے۔’حوالہ جات ہر باب کے آخر میں لگائیں۔اشاریہ کا باب ختم کر دیں۔ماحصل مختصر ہے اسے طویل کریں‘۔رمضان کا مہینہ تھا۔ایک بار رات کو طیب منیر کو فون کیا کہ وقت ہو تو بات کرلوں۔بڑی رعونت سے فرمانے لگے کہ اب آپ نے فون کر ہی لیا ہے تو فرمایے۔ویسے آپ کو یونی ورسٹی آ کر بات مجھ سے بات کرنی چاہیے۔ان کی نسبت تونجیبہ عارف کا رویہ اچھا تھا کہ میں نے ان سے جب بھی وقت بے وقت بات کی انھوں نے حوصلہ افزائی ہی کی۔

دوہفتے اس پخ میں لگ گئے۔دوبارہ گیا اور پھر عرض کی کہ جناب اب بس کر دیں۔جنوری گزر گیا اور ایک دن اچانک شعبہ اردو سے فون آیا کہ ۱۹ فروری کو آپ آ کر مقالے کا دفاع کریں۔کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے۔اس ایک ہفتے کے دوران مقالے اور اس کے متعلقات کو دیکھتا رہا۔کراچی کے خراب حالات کی وجہ سے عقیل صاحب نہ آ سکے۔ایک دن پہلے جامعہ گیا اور نجیب جمال سے ملا۔اچھے موڈ میں تھے۔فرمانے لگے کہ مہمانان گرامی اور سکالرز کی مہمان نوازی کا (اہتمام)کر لیں اور کل ٹریٹ کا بھی۔۱۹ فروری کو بارش اور ٹھنڈ تھی۔لوازمات کے ساتھ سویرے ہی جامعہ پہنچ گیا۔شعبہ اردو میں ہو کا عالم طاری تھا۔پھر ایک ایک کر کے علم وادب کے ’خدمت گار‘ آنے لگے۔گردن میں سریا اور نگاہ میں نخوت۔دس بجے ساحر اور ساڑھے دس بجے نوری پہنچے۔دونوں سوٹ میں ملبوس۔ساحر سے یاد اﷲ تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا نہیں ہے۔پونے گیارہ بجے طیب منیر نے ابتدا کی اور مجھے ڈائس پر آنے کی دعوت دی۔میں نے دس سے بارہ منٹ میں مقالے کا ملخص پیش کیا اور گیند ممتحنین کے کورٹ میں پھینک دی۔اعتراضات کی بوچھاڑ نوری نے شروع کی۔آپ کے پاس مقالے کی کاپی ہونی چاہیے جو نہیں۔اشاریہ سازی نہیں اشاریہ ہوتا ہے۔کتابیات اور فرہنگ ہا کوالگ الگ کریں۔ان کے اعتراضات طیب منیر جیسے ہی تھے۔ان کے بعد ساحر کی باری آئی۔ساحر کا انداز عجیب سا تھا۔نوری تو تیاری کے ساتھ آئے تھے لیکن ساحر نے ادھر ادھر کی ہانکی اور خواہ مخواہ ہی دبانے کی کوشش کی۔ایک مقام پر میں نے محسوس کیا کہ ان تمام اردو ادب کے فرعونوں نے طے کیا ہے کہ مجھے ڈگری نہیں دینی،سونے پر سہاگہ نجیب جمال بھی اس تشدد میں کود پڑے۔ماحول انتہائی گرم اور سنجیدہ ہو چکا تھا اور اس سنجیدگی کو بہرحال نوری نے یہ کہہ کر ختم کیا کہ انھوں نے محنت کی ہے اور ڈگری کے حقدار ہیں لیکن انھیں یہ تمام تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔یہ جبر سوا گھنٹہ چلا۔میرا موقف یہ تھا کہ میں نے عقیل صاحب کے طریقہ کار کی پیروی کی ہے۔میرے موقف کی حمایت حمیرا اشفاق اور روش ندیم نے کی،جس کے لیے میں ان کا شکر گزار ہوں کہ انھوں نے شہادت حق کا فریضہ ادا کیا۔

بیرونی ممتحنین نے دستخط کر دیے لیکن نجیب جمال نے کمال نخوت سے دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔عجیب بات یہ تھی کہ یہ سب بابے وہ تھے جنھوں نے ایک سالہ پی ایچ ڈی کی ہوئی تھی اور تکبر کا کوہ ہمالیہ بنے معیارات کا تعین کر رہے تھے۔بابا رشید امجد اس محفل میں نہ تھے کہ ان کی طبیعت ناساز تھی۔ڈاکٹرنجیبہ عارف ملک سے باہر تھیں۔نجیب جمال کی بات سے طیب منیر کو بھی حوصلہ ملا اور انھوں نے بھی دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔اب صورت حال یہ تھی کہ زبانی طور پر لڑکی کا نکاح عارضی(متعہ) میرے ساتھ کر دیا گیا تھا لیکن شرائط تسلیم کروانے کا مرحلہ شروع ہو چکا تھا۔اعتراضات(شرائط)نوے دن کے اندر دور کرکے مقالہ مجلد شکل میں جامعہ میں جمع کروانا ضروری تھا ،اس کے بعدچھٹی۔شرکاء محفل کے لیے پرتکلف چائے کا بندوبست کیا تھا لیکن اس بوجھل محفل نے کسی کو بھی چائے اور موسم سے لطف اندوز نہ ہونے دیا۔شعبہ اردو کے ’علم دوستوں‘ کو کھانا کھلایا۔ویسے ان سب کو زہر کھلایا جانا چاہیے تھا۔نوری اور ساحر پہلے ہی جا چکے تھے۔ مظفرآباد سے رحمت علی اور شیخ طفیل دیر سے پہنچے۔پروفیسر رحمت علی کے ساتھ واپسی کا سفر شروع کیا۔دوست احباب نے مبارک باد کے پیغامات اور فون کیے۔ان سب کے لیے یہ بات اچنبھے کا باعث تھی کہ ماضی کا حریت پسند پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکا تھا۔ اعتراضات پر کام شروع کیا۔ایک ماہ اس پر لگ گیا کہ کام پھیلا ہوا تھا اور اعتراضات کرنے والوں نے کیے بھی اتنے تھے کہ ان کے مطابق ان کو دور کرنا آسان نہ تھا۔

ایک کاپی کروا کر لے گیا اور طیب منیر کے دربار میں حاضری دی۔جائزے کے بعد فرمانے لگے کہ اب ٹھیک ہے البتہ نجیب جمال صاحب کو بھی بتا دیں۔دفاع کمیٹی کا فارم عقیل صاحب کے دستخطوں کے بعد آچکا تھا۔اس پر طیب منیر نے بھی دستخط کر دیے۔لے کر نجیب جمال کی عدالت میں حاضر ہوا کہ طیب منیر نے دستخط کردیے ہیں آپ بھی کر دیں۔موصوف نے ورق گردانی شروع کر دی اور مزید اعتراضات جڑ دیے۔مرتا کیا نہ کرتا۔واپس آکر مزید دو ہفتے ان اعتراضات کو دور کرنے میں لگا دیے۔لے کر موصوف کی عدالت میں پھر حاضری دی۔موصوف نے کمال مہربانی کی اور دستخط کردیے۔غرض شعبہ اردو کے علم کے’علم دوستوں‘نے خوب لترول کی۔ساتھ ہی تصحیح کے حوالے سے نگران کا خط بھی شامل کیے جانے کا طیب منیر نے فرمان جاری کر دیا۔مکتوب منگوایا ۔مقالہ مجلدشکل میں لانے کے لیے بائنڈر کے حوالے کیا۔وہ دو دن کا وعدہ کر کے غائب ہو گیا۔موبائل بھی بند۔دوسرا دن گزرا۔موبائل آن ہوا۔جناب بیٹی کی شادی ہے۔بندہ خدا پہلے کیوں نہ بتایا۔کام ہی نہ لیتے۔میرے دو دن پہلے ہی ضائع کر دیے اور ابھی کام ہی شروع نہیں کیا جبکہ فوٹو سٹیٹ تک کروا کے میں نے کام حوالے کیا تھا۔دو دن اور لگ گئے۔تیسری دن مقالے کی تین کاپیاں حسب ہدایت جامعہ میں لے جا کر جمع کروائیں تو یہ عقدہ کھلا کہ چار کا پیاں دیں۔اور چار سی ڈیز بھی دیں۔شکر ہے کہ اضافی کاپی موجود تھی۔جمع کروائیں اور واپس آگئے کہ کام ہو گیا اور اب ڈگری مل جائے گی۔دوہفتے بعد فون کیا تو نیا حکم ملا کہ وہ تحقیقی مضمون ارسال کریں جو کسی تسلیم شدہ جرنل میں شایع ہوا ہو۔خدا کے بندو پہلے بتا دیتے تو یہ وقت ضائع ہونے سے بچ جاتا۔مضمون ارسال کیا۔اور پھر انتظار۔۲۳اپریل ۲۰۱۳ء کو جامعہ نے ہمارے ابا مرحوم پر کمال احسان کرتے ہوئے پی ایچ ڈی کا نوٹی فی کیشن جاری کر دیا۔اسی دوران میں نے جامعہ کا حفظ ٹیسٹ بھی پاس کرلیا جو ڈگری کی لازمی شرط تھی۔

اسی دوران جامعہ سے کلیئرنس کا مرحلہ شروع کر دیا تھا۔شعبہ اردو،ہاسٹل،مرکزی لائبریری،اولڈ کیمپس لائبریری،داخلہ اور اکیڈیمس۔ایک صاحب ہوں تو دوسرے نہیں اور دوسرے ہوں تو تیسرے نہیں۔کچھوے کی رفتار سے کلیئرنس کا کام چلتا رہا اور میں مظفرآباد اور اسلام آباد کے درمیان پستا رہا۔عدم اعتراض سرٹی فیکیٹ کے لیے پیسے جمع کروائے۔وہاں سے ایک دوسرے دفتر بھیجا گیا کہ فارم جنریٹ کروا کے لائیں کہ آپ نے تو دوسال سے جائننگ ہی نہیں دی۔عرض کی کہ جناب مقالہ جمع کروانے کے بعد کیسی جائننگ۔فرمانے لگے۔دفاع بھی تو جامعہ نے کروایا تو آپ اس وقت تک جامعہ کے طالب علم ہیں۔وہ کیسے۔کیا جامعہ کا اتنا وقت پڑتال پر لگانا اور اتنی تاخیر کرنے میں میرا قصور تھا۔جب ’علم کے فرعونوں‘ نے ہمارے ساتھ یہ سلوک کیا تھاتو ان سے کیا شکایت کرتے،ان کو منطق سمجھ نہ آئی۔فارم لے کر دوبارہ شعبہ داخلہ میں حاضر ہوا تو مجھے ایک اور کمرے میں لے جایا گیا۔ایک باریش نوجوان نے سماعت کیا اور پوچھا کہ جرمانہ تو آپ کو ادا کرنا پڑے گا ہاں ہم اس میں تخفیف کر دیتے ہیں۔پوچھا کتنا۔کمال رعونت سے بولے،۸۴۰۰روپے جمع کروا دیں۔کئی اور بے بس نوجوان بیٹھے دیکھے۔اس تاخیر کا سارا جرمانہ تو شعبہ اردو کو ہونا چاہیے تھا جہاں دو دو ٹکے کے پروفیسر لمبی لمبی تنخواہیں اور مراعات لیتے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی جامعات کی جان نہیں چھوڑتے۔دل خون کے آنسو رو کر شانت ہو گیا ۔خدا ان سب کا بیڑا غرق کرے۔رشید امجد سے نجیب جمال اور طیب منیر تک۔

روپے جمع کروائے۔جرمانہ جمع کروا دیا۔عجیب جامعہ دیکھی۔نہ شعبہ اردو،نہ شعبہ امتحانات،نہ داخلہ اور نہ اکیڈیمکس سکالر کو خط لکھتے ہیں نہ ای میل نہ فون۔دھکے کھلاتے ہیں جامعہ کے۔کبھی ایک کلرک کے پاس اور کبھی دوسرے کے پاس۔طلبہ مجبور محض اور ان ظالموں کے آگے مجبور۔ایک باریش بابے نے دو ہفتے کا وقت دیا کہ پروویژنل سرٹیفکیٹ اور ٹرانسکرپٹ لے جائیں۔واپس شعبہ اردو آیا جہاں طیب منیر براجمان تھے۔کیوں بھئی آپ کو ڈگری مل گئی۔خوار کر دیا محترم آپ نے۔خدا آپ سب کو خوار کرے۔اس دن دل سے بددعا نکلی۔اس شعبے میں میں نے پانچ برسوں کے دوران بدترین گروہ بندی دیکھی۔ہر پروفیسر کو دوسرے کے خلاف زہر ہی اگلتے دیکھا۔یہ علم کے وہ ٹھیکہ دار ہیں جو سانپ کی طرح صرف نقصان پہنچانا جانتے ہیں۔بے نیل و مرام مظفرآباد واپس آیا۔دوہفتے گزر گئے۔فون کیا۔معلوم ہوا کہ آپ کی میٹرک کی سند اردو میں ہے اس لیے کوئی ایسی سند ارسال کریں جو انگریزی میں ہو۔شدید غصہ آیا لیکن کس پر اتارتا۔بی ایس سی کی سند فیکس کی۔مزید ایک ہفتہ گزرا۔مئی کا تیسرا عشرہ شروع ہوا تو جامعہ گیا۔بقایا جات کا چیک لیا اور سرٹیفکیٹ بھی۔ابھی ڈگری کے حصول کے لیے جانے کتنا خوار کریں گے۔میرے پونے پانچ سالہ سفر کا اختتام ہوا۔۱۹فروری سے ۱۹ مئی تک کے تین ماہ میں مزید تلخ تجربات ہوئے۔اوپن یونی ورسٹی ہمارے ایک دوست اپنے پرنسپل کے ہمراہ کسی کام کے لیے گئے اور ساحر کے ہتھے چڑھ گئے۔’بہت برا حال ہے اردو تحقیق کا۔آپ کے کشمیر کے ایک صاحب کا مقالے کا دفاع تھا اسلامی یونی ورسٹی میں۔گیا تھا میں بھی۔بڑا غیر معیاری کام۔اس سے تو میری نگرانی میں کیا گیا یہ کام دیکھیں زیادہ معیاری ہے۔کوئی عقیل صاحب ہیں،جاپان سے درآمد کیے گئے ہیں،ان کی نگرانی میں کام کیا گیا ہے‘۔یہ ہے ہماری اخلاقی حالت۔آپ نے اعتراضات کیے،سکالر نے وہ اعتراضات دور کر دیے،پھر اس بکواس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے ۔ہر پڑھا لکھا ’میں‘ کا شکار دیکھا۔(ساحر کی ساحری کا ایک اور واقعہ آپ کو سناتا چلوں۔مری کے ایک مشاعرے میں ملاقات ہوئی۔کچھ اور پروفیسر بھی آئے ہوئے تھے اور ہم ایک کمرے میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک بزرگ پروفیسر کو ساحر نے جوتی اتار کر پیٹنا شروع کر دیا اور ساتھ مادر زاد ننگی گالیاں بھی دینے لگے۔ہم حیران پریشان کہ کیا کریں۔پروفیسر کو ساحر کے عتاب سے نجات دلائی گئی اور ساحر کو پانی پلایا گیا۔سکون ہوا تو فرمانے لگے کہ میں مری کالج میں استاد تھا۔کبھی گھر سے آتے دیر ہو جاتی تو یہ بدبخت پرنسپل کو شکایتیں کرتا۔آج میں نے حساب برابر کر دیا)۔بڑا آدمی بڑا ہوتا ہے۔اس ساری قضیے پر عقیل صاحب سے بات ہوئی۔انھوں نے معذرت کی کہ جناب میرے نام کی وجہ سے آپ کے ساتھ یہ سب ہوالیکن جہاں آپ نے پہلے صبر کیا تھوڑااور سہی۔

مظفرآباد سے اسلام آباد علم کے فرعونوں اور جامعہ کے نمرودوں نے بے مقصد چکروں میں میرے پچیس ہزار روپے گل کروا دیے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اختیار ہی انسان کو فرعون بناتا ہے۔شعبہ اردو میں کتنے علمی بابے ہیں،ان سے مل کر اندازہ ہوا کہ سب اس محاورے کے مصداق ہیں کہ ’نام بڑے درشن چھوٹے‘۔بابا رشید امجد کو اپنی بیگم سے گھر اور اس کے مسائل پر ہی بحث کرتے دیکھا۔’معیار‘ کے لیے مضامین دیتا رہا لیکن چھپنے کی نوبت نہیں آئی۔شعبے میں پنجابیت کو چھائے دیکھا۔باقی کسی کو حق ہی نہیں کہ آگے بڑھے۔ہم نے تو اپناوقت گزار دیا۔شعبہ اردو کے علم کے فرعون محققین کے ساتھ اپنے رویے پر نظر ثانی کریں۔اپنے آپ کو استاد کے مرتبے سے نہ گرائیں۔خواتین سکالرز کی حوصلہ افزائی اور مرد سکالرز کی حوصلہ شکنی کی پالیسی کو ترک کریں۔شعبہ اردو کو پرانے بابوں سے نجات دلائی جائے۔شعبہ اردو کے اندر میں نے بدترین بدنظمی دیکھی۔اوپر تعلقات بناؤ اور سربراہ شعبہ کی پرواہ مت کرو کا نعرہ سنا۔صدر شعبہ کو سوچنا چاہیے کہ کیا سکالرسے فون،ای میل اور خط کے ذریعے رابطہ اس کے فرائض میں شامل نہیں اور کیا وہ خواتین کے زیر جامہ لباس اور جامعہ کے ماحول پر طنز کرنے کی تنخواہ لیتا ہے۔ڈائریکٹر اکیڈیمکس اوپن یونی ورسٹی میں رہ چکی ہیں اور جانتی ہیں کہ پی ایچ ڈی کی سطح پر سکالر کے ساتھ کیسا سلوک کیا جانا چاہیے۔جامعہ میں کلرک شاہی ہے اور اس کے خلاف بولتا کوئی نہیں۔اگر فیصلہ بیرونی رپورٹس کی بنیاد پر کیا جانا ہوتا ہے تو ملک کے اندر سے کیوں رپورٹس لی جاتی ہیں اور رپورٹس کا وقت کتنا ہونا چاہیے اور دفاع کب ہو۔میرے معاملے میں دفاع ہونے تک ڈیڑھ سال کا عرصہ لگا اور اس کے بعد بھی جرمانہ مجھ پر ہی عاید کیا گیا جامعہ کے کسی اہل کار پر نہیں۔ویسے کچھ لوگوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے۔ان میں محمود اقبال اور ماجد شاہ شامل ہیں کہ جہاں رہیں خوش رہیں۔

بے گناہوں کو سزا کب تک ملتی رہے گی۔کچھ اور پڑھے لکھوں کے رویے آپ سے شیئر کرتا چلوں۔رشید امجد صاحب سے کہا کہ ڈیڑھ سال کا طویل عرصہ گزر چکا ،مقالے کا دفاع کروا دیں۔فرمانے لگے یار کیا جلدی ہے میرا دفاع بھی ڈیڑھ سال بعد ہوا تھا۔بابے نئے سکالرز سے بدلہ لے رہے ہیں اپنے ماضی کا۔ایک دن عرض کی کہ جناب میرا تحقیقی مضمون ’معیار‘ میں شایع کروا دیں۔جواب ملا جگہ نہیں رہی کہیں اور کوشش کرو۔ویسے میں نے پنجاب کے علاوہ کہیں بھی تحریر بھیجی چھپ گئی۔مشرقی پاکستان بنگال بن گیا پنجابی مائنڈ سیٹ تبدیل نہیں ہوا۔خدا نے بھی ان بابوں سے خوب انتقام لیا ہوا ہے۔کسی کا کھانا بند اور کسی کا میٹھا بند اور کسی کا مرچ مسالہ۔ویسے بابوں کی آنکھوں میں دم خوب ہے۔تاڑتے خوب ہیں۔اور پھر جنس کے تذکروں کے بغیر ان کی کوئی بات مکمل ہوتی بھی نہیں۔ ان رویوں سے میں نے اپنے طلبہ اور طالبات کے ساتھ اپنے رویے میں مزید بہتری لائی کہ طالب علم کسی بھی سطح کا ہو اس کی حالت قابل رحم ہوتی ہے۔میں جانتا ہوں کہ بچوں کا پیٹ کاٹ کر پڑھنا کتنا مشکل کام ہے۔اور دور دراز سے آکر تحقیقی کام کرنا تو جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔سوال یہ ہے کہ سماج کے اتنے حساس طبقے کا رویہ کیسے بدلے کیوں کہ وہ سب تو سماج کے رویے کو غلط اور اپنے آپ کو درست تصور کرتے ہیں۔انسانی معاشرے تباہ ایسے ہی ہوتے ہیں اور ہمارے سماج کو دعا کی نہیں خونی انقلاب کی ضرورت ہے۔جانے کیوں ان رویوں کو دیکھ کر خود کش بمباروں پر پہلی بار ترس آیا۔
abdul karim
About the Author: abdul karim Read More Articles by abdul karim: 34 Articles with 51920 views i am a man of some rules and regulations.i like maturity in the behavious of persons and in nations.i do not believe in strictness of thoughts but i b.. View More